قرون اولیٰ کی خواتین کا جذبہ انفاق

عمارہ فردوس، جالنہ، مہاراشٹرا

دین اسلام کے اس شجر کو تناور کرنے میں خواتین نے مردوں کے ساتھ ہر شعبہ میں نمایاں رول ادا کیا۔اس راہ میں چاہے جانوں کی قربانی ہو یا مال و اسباب کا لٹا دینا ہر موقع پر یہ مردوں کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کے بہترین جوہر پیش کرتی آئی ہیں ۔
حضرت خدیجہؓ نے اپنے مال کا آدھا حصہ غریبوں اور مظلوموں کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ وہ بھوکوں کو کھانا کھلانے اور غلاموں کو آذاد کرنے میں اکثر پہل کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کبھی سائل کو واپس نہ لوٹاتیں۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ روزہ سے تھے اور افطار کے لیے دو کھجوریں تھیں ایک خاتون دروازے پر سوال کرتی ہیں اور حضرت عائشہ صدیقہ انہیں وہ دے آتی ہے ۔ایک مرتبہ بکری کا شانہ گھر میں رکھا ہوا تھا کسی سائل کو دروازے پر دیکھا تو وہی دے دیا بعد میں آپ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو تم نے دے دیا وہی تو باقی رہ گیا ہے۔
حضرت ام دحداح ؓ نے جب اپنے شوہر کا یہ فیصلہ سنا کہ وہ اپنا کھجور کا باغ جس میں ان کا گھر بھی تھا فی سبیل اللہ دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو کہا اے ابو دحداح تم نے بہت ہی خوب سودا کیا ہے اور یہ کہہ کر اپنے بچوں کو باہر لے آئیں اور گھر کو فوراً چھوڑ دیا۔
فاطمہ بنت ملک جو چار اموی خلیفہ کی بہن تھیں بڑے ناز و نعم میں پلی ہوئی تھیں حضرت عمر بن عبد العزیز کی اہلیہ تھیں ۔ننانوے ہجری میں اموی خلافت کا بوجھ عمر بن عبد العزیز کے کندھوں پر آن پڑا تو انہوں نے اسلامی مملکت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی شاہی طور طریقے ختم کرکے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح درویشی اختیار کرلی۔ خلیفہ بنتے ہی اپنی بیوی فاطمہ بنت ملک سے کہتے ہیں سارا زیور اور مال و اسباب فوراً بیت المال میں جمع کرادو، چنانچہ انہوں نے اپنے والد کا دیا ہوا بیش قیمت ہیرا اور بھائیوں کے دیے سارے قیمتی زیور بیت المال میں جمع کروادیے اور اپنے درویش شوہر کی رفاقت کو ترجیح دی ۔
محدث علم الدین بلقینی کی بیٹی الف خاتون نہایت نیک دل خاتون تھیں۔ امام سخاوی نے الضوء اللامع میں اس خاتون کے تذکرے میں لکھا کہ یہ بیواؤں کی تلاش میں رہتی تھیں اور ان کے لیے ہر قسم کا آرام مہیا کرنے کی کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھیں۔
افریقہ میں جب چار سو پچیس ہجری میں عضال کی وبا پھوٹی اور اس وبا نے شہروں اور بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو امیر افریقہ کی بیوی زلیخا نے اپنی جانب سے ساٹھ ہزار کفن تقسیم کیے۔
مشہور عربی ادیب الحریری کی دختر عائشہ جو 887 ہجری میں فوت ہوئیں،ان کے بارے میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی تمام آمدنی فقراء و مساکین اور قرآن کریم کی تعلیم کے لیے وقف کردی تھی۔
زینب بنت محمد پاشا (جو عثمانی دور میں مصر کا ترکی حکمران تھا) کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ اس خاتون نے چار سو غریب خاندانوں کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی تھی ۔
غرناطہ کی مشہور خطاطہ کے بارے میں ہے کہ اسے اپنے فن پر جو شاہی صلے ملتے اور تعلیمی خدمات کے معاوضہ میں جو کچھ ملتا اسے مسلمان قیدیوں کے غریب بال بچوں پر صرف کر دیتی تھیں ۔
حضرت امام شافعی کی والدہ نے انہیں مکہ سے حصول علم کے لیے باہر ملک روانہ کیا تھا۔ امام شافعی مدینہ، کوفہ اور بغداد سب جگہ پہنچ کر علم و فضل کے بے شمار خزانے حاصل کر چکے تو واپس اپنی والدہ کے پاس جانے کا خیال آیا، ان کے استاد امام مالک نے اپنے ہونہار شاگرد کو خوب انعامات اور مال و اسباب کے ساتھ رخصت کیا۔ امام کی والدہ اپنے بیٹے کے استقبال کے لیے حرم کے قریب کھڑی تھیں، اور جب دیکھا کہ بیٹا خوب مال و اسباب کے ساتھ لوٹا ہے تو کہنے لگیں بیٹا میں نے تجھے دو یمنی چادریں دے کر رخصت کیا تھا لیکن تو اس دولت دنیا کے ساتھ کیوں واپس لوٹا ہے؟ پھر کہا کہ گھر پہنچنے سے پہلے عام اعلان کردے کہ بھوکے آئیں اور غلہ لے جائیں، پیادے آئیں اور سواری لے جائیں، ننگے آئیں اور کپڑے لے جائیں، نادار آئیں اور دولت لے جائیں۔ چنانچہ امام نے اپنی والدہ کی اس خواہش پر سارا اسباب فی سبیل اللہ خرچ کر دیا۔
قرن اول کی خواتین کا جذبہ انفاق دین اسلام کی بلندی، اس کی مضبوطی و استحکام میں بہترین مدد گار ثابت ہوا ہے۔دراصل یہ خواتین اپنے مقصد و مشن کو عزیز رکھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ ہم نے ان قربانیوں کے بدلے جنت کا سودا کیا ہے۔
ہر دور میں تحریک اسلامی کو رواں دواں رکھنے کے لیے اسی جذبہ انفاق کی ضرورت پڑی اور تحریک نے اپنے علم برداروں سے اس کا تقاضا کیا ہے۔ جس طرح جسم میں معدہ کا اہم رول ہے اس میں غذا اسی لیے پہنچائی جاتی ہے تاکہ سارے جسمانی اعضا صحت مند رہ سکیں۔ یہی معدہ جب بھرا ہوا نہ ہو تو جسمانی اعضاء کی کارکردگی متاثر ہوگی اور وہ کمزور ہو جائیں گے۔ بالکل اسی طرح تحریک اسلامی کا بیت المال اس کا معدہ ہے، اگر وہ بھرا ہوا نہ ہو تو تحریک کمزور ہوجائے گی اور دھیرے دھیرے مر جائے گی ۔
اس بیت المال کو غذا فراہم کرنے والے تحریک کو مضبوط کرتے ہیں یا تحریک کے اس چراغ کو تیل فراہم کرکے روشن و منور رکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر سعادت مندی اور کیا ہے کہ تحریک کا یہ عظیم مشن اس طرح تکمیل کو پہنچے کہ اس کے علم بردار ہر شعبہ حیات میں پیش پیش رہے ہوں ۔وہ اپنی سعی مسلسل کی تاریخ ایسے بنارہے ہوں کہ ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنہ کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہوں۔
یہ سودائے غیر معمولی ہمارا منتظر ہیے آئیے سبقت لے جائیں۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022