پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ تبصروں کے خلاف احتجاج کرنے پر پولیس نے مسلم کارکن کو گرفتار کرنے کے بعد اس کا گھر مسمار کیا

پریاگ راج، جون 12: اتر پردیش کے پریاگ راج میں شہری حکام نے اتوار کی سہ پہر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے کارکن جاوید محمد کے گھر کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے گرا دیا کہ یہ ایک غیر قانونی تعمیر ہے۔

یہ انہدام اس کے ایک دن بعد کیا گیا جب پولیس نے محمد کو مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کے توہین آمیز تبصروں کے خلاف پریاگ راج میں پرتشدد مظاہرے کرنے کی سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کیا۔

جمعہ کو پریاگ راج سمیت ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔

اس سے قبل اتوار کو پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے محمد کے اہل خانہ کو صبح 11 بجے تک گھر خالی کرنے کو کہا تھا۔ اتھارٹی نے دعویٰ کیا کہ اس نے 10 مئی کو محمد کو وجہ بتاؤ نوٹس دیا تھا اور 24 مئی کو اس کے سامنے سماعت کے لیے حاضر ہونے کو کہا تھا، تاہم انھوں نے تعمیل نہیں کی۔

محمد کی چھوٹی بیٹی سمیہ فاطمہ نے میڈیا کو بتایا کہ خاندان کو ان کے گھر کی مبینہ غیر قانونییت کے بارے میں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ محمد کے وکیل نے انہدام کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔

سمیہ فاطمہ نے بتایا کہ انھیں اور ان کی والدہ کو بھی ہفتہ کو دیر سے حراست میں لیا گیا تھا۔ انھیں اتوار کی صبح رہا کیا گیا۔

اگرچہ ہندوستانی قانون کے تحت کسی جرم کا الزام لگانے والے کے گھر کو منہدم کرنے کی کوئی دفعات نہیں ہیں، لیکن یہ نمونہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں باقاعدگی سے دیکھا گیا ہے۔

سمیہ فاطمہ نے بتایا کہ حکام نے گھر کے غیر قانونی ہونے کے بارے میں پہلے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا تھا۔

اس نے بتایا ’’یہ پہلا نوٹس ہے جو ہمیں کل رات [ہفتہ کو] ملا۔ ایک دن پہلے تک کسی نے بھی ہم سے اس بارے میں بات نہیں کی۔ اگر ہماری جائیداد واقعی غیر قانونی تھی تو وہ آکر ہمیں یہ نوٹس جلد کیوں نہیں دیتے۔ یہ ہمارے لیے ناقابل یقین حد تک مشکل وقت ہے۔‘‘

سمیہ فاطمہ نے بتایا کہ انھیں اور ان کی والدہ 50 سالہ پروین فاطمہ کو پریاگ راج پولیس نے اتوار کی رات تقریباً 12.30 بجے حراست میں لیا اور شہر کے سول لائنز خاتون پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔

انھوں نے مزید بتایا ’’انھوں نے ہمیں صرف اتنا بتایا کہ وہ ہم سے کسی چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں اور پھر وہ ہمیں جانے دیں گے۔ انھوں نے ہم سے عجیب سوالات پوچھنا شروع کیے، جیسے کہ ہم گھر میں کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں اور ہم کس قسم کی پوسٹس شیئر کرتے ہیں۔ وہ ہم سے کچھ متنازعہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس میں سے کوئی بھی سچ نہیں ہے۔ ہم صرف سچ بولتے ہیں۔‘‘

سمیہ فاطمہ نے کہا کہ جب خواتین پولیس اہلکاروں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو ایک مرد افسر نے ان کی والدہ کو گالی دی اور کہا کہ ان سے ’’سچ نکالنے‘‘ کے لیے طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

پولیس نے سمیہ اور پروین فاطمہ کو بھی گھر فون کرنے اور گھر والوں کو گھر خالی کرنے کو کہا۔ اتوار کی صبح 8 بجے کے قریب رہا ہونے کے بعد سمیہ اور پروین فاطمہ کو ان کے اپنے گھر کے بجائے رشتہ داروں کے گھر لے جایا گیا۔

سمیہ فاطمہ نے کہا ’’انھوں نے ہماری، ہمارے رشتہ داروں، ان کے گھر کی ویڈیو گرافی کی اور ہم سے کہا کہ یہ جگہ نہ چھوڑیں۔‘‘

سمیہ نے مزید کہا کہ خاندان کو ابھی تک ان کے والد کے ٹھکانے کے بارے میں نہیں معلوم۔

مسماری کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی

دریں اثنا محمد کے وکیل کمل کرشنا رائے نے دی اسکرول ڈاٹ اِن کو بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے جس میں اس انہدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں رائے اور دیگر وکلا نے دلیل دی ہے کہ مکان جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ پریاگ راج شہری حکام کے دستاویزات میں پروین فاطمہ کا نام ان پر درج ہے۔

رائے نے بتایا ’’یہ گھر اس کے [پروین فاطمہ] کے والد کی طرف سے تحفہ تھا۔ مسلم پرسنل لاء کے تحت جب عورت کو کوئی جائیداد ملتی ہے… یہ خود بخود اس کے شوہر کی ملکیت نہیں ہوتی۔ حکومت نے جو نوٹس جاری کیا ہے وہ جاوید محمد کے خلاف ہے لیکن جائیداد ان کی نہیں ہے۔‘‘

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’’ضلعی اور پولیس انتظامیہ اور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اس مکان کو گرانے کی کوئی بھی کوشش قانون کے بنیادی اصول کے خلاف اور جاوید محمد کی بیوی اور بچوں کے ساتھ سنگین ناانصافی ہوگی‘‘۔

خط میں مزید کہا گیا کہ محمد کو کوئی وجہ بتاؤ نوٹس موصول نہیں ہوا جیسا کہ مسماری کے احکامات میں ذکر کیا گیا ہے۔

رائے نے کہا کہ وہ درخواست کی جلد سماعت کی توقع رکھتے ہیں۔