پی ایف آئی پر دہشت گرد تنظیم ہونے کا الزام

احتشام الحق آفاقی

پی ایف آئی زہریلے نظریات سے متاثر: دینک جاگرن
تنظیم نوجوانوں کوگمراہ تو کرسکتی ہے لیکن ان کا مستقبل نہیں سنوار سکتی: امر اجالا
پی ایف آئی سیکورٹی خطرہ کے ساتھ ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے: انڈین ایکسپریس
موہن بھاگوت کا دورہ مسجد، کانگریس کی صدارت اور ایران میں پرتشدد مظاہروں پر مختلف اخبارات کی رائے
مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری کے لیے دہائیوں سے جد وجہد کرنے والی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ارکان اور تنظیم کے سرکردہ لیڈران کے خلاف ملک بھر میں ای ڈی اور این آئی اے کی کارروائی عروج پر ہے۔ اس ضمن میں سیکڑوں افراد کے خلاف اب تک سنگین دفعات میں مقدمات درج ہونے اور درجنوں لیڈران کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر ایجنسیوں کی کارروائی مین اسٹریم میڈیا میں زیر بحث ہے۔ایسی صور ت میں بد نام زمانہ میڈیا نے پی ایف آئی کو تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع ہاتھ سے جانے دے گا اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ سنگھی نظریات کے حامل ہندی روزنامہ ’’دینک جاگرن ‘‘ پی ایف آئی کے خلاف ہورہی کارروائی پر جہاں حکومت کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے وہیں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اخبار نے ’’ خطرناک سنگٹھن‘‘ کے عنوان سے 24ستمبر کے شمارہ میں لکھا : ’’ اپنی مشکوک حرکتوں کی وجہ سے ایک لمبے وقت سے مختلف جانچ ایجنسیوں کے نشانے پر چل رہی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا یعنی پی ایف آئی کے ٹھکانوں پر قومی سطح پر چھاپے کے بعد یہ حقیقت سامنے آنے پر حیرانی نہیں کہ اسے مختلف ممالک سے غیر قانونی طریقے سے جو چندہ مل رہا تھا ، اس کا غلط استعمال کیا جارہا تھا۔ فکر کی بات یہ نہیں ہے کہ پی ایف آئی غیر ممالک کے چندے کو ملکی چندے کی شکل میں دکھا رہا تھا بلکہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ‘‘ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ :’’پی ایف آئی کی حرکتیں یہی بتاتی ہیں کہ وہ ایک زہر کی بیل ہے جس کی جڑیں کاٹنے میں دیر نہیں کی جانی چاہئے۔ اس کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پی ایف آئی کا ہاتھ نہ صرف شہریت ترمیمی بل اور حجاب کے خلاف افرا تفری پر مبنی مظاہروں میں دکھا بلکہ دیگر ایسے واقعات سے بھی اس نتیجے پر پہنچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ دہشت گرد تنظیموں جیسے زہریلے نظریات سے لیس ہے۔ ‘‘
ہندی روزنامہ’’ امر اجالا ‘‘ نے اپنے اداریہ میں پی ایف آئی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مبینہ طور پر اس تنظیم کی بنیاد مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے اور اس کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے رکھی گئی تھی لیکن وجود میں آنے کے بعد اس تنظیم کا کردار مشکوک رہا ہے۔ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ:’’ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ملک کے کئی حصوں میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف ہوئے مظاہروں، 2020میں دہلی میں ہوئے دنگوں اور اتر پردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کی عصمت دری اور قتل کے معاملہ میں احتجاجی مظاہروں کی سازش رچنے پر پی ایف آئی کے کردار اور اس کی مالی امداد حاصل کرنے کے ذرائع کی جانچ ہورہی ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے قومی صلاح کار اجیت ڈوبھال کے ساتھ میٹنگ کرکے حالات کا جائزہ لیا ہے۔ جس طرح کے اشارے ملے ہیں، اس میں حیرت نہیں کہ جلد ہی پی ایف آئی پر حکومت پابندی عائد کردے۔ در حقیقت پی ایف آئی کے خلاف این آئی اے اور ای ڈی کی کارروائی کے نتائج سامنے آنے کے بعد جلد ہی حتمی فیصلہ لینے کے ساتھ ساتھ پی ایف آئی کے زد میں آئے نوجوانوں کو تعمیری پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ایسی تنظیم انھیں گمراہ تو کرسکتی ہے لیکن ان کا مستقبل نہیں سنوار سکتی۔ ‘‘
اپنے 24ستمبر کے شمارے میں دی انڈین ایکسپریس نے ’’پی ایف آئی سیکورٹی خطرہ اور سیاسی مسئلہ ہے، اس کے اثر و رسوخ کو جانچنے کے لیے کسی بھی حکمت عملی کے دونوں پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ‘‘ کے عنوان سے اپنے اداریہ میں لکھا کہ: ’’ پی ایف آئی مسلم سیاست میں ایک بنیاد پرستی سے ابھری جس نے 1992 میں بابری مسجد کے انہدام اور ہندوتوا ایجنڈوں کے عروج کے بعد کمیونٹی کے ایک حصے میںمقبولیت پائی۔یہ تنظیم اسلام کے سیاسی نظریات سے بھی متاثر تھی جس نے 1970 کی دہائی کے آخر میں ایرانی انقلاب کے بعد بنیاد حاصل کی۔ جب اس سیاست کی سب سے نمایاں نمائندہ سیمی پر پابندی لگائی گئی تو نئے گروپ سامنے آئے۔یہ این آئی اے اور دیگر ریاستی ایجنسیوں پر منحصر ہے کہ وہ پی ایف آئی سے لاحق سیکورٹی خطرے سے نپٹیں۔ ریاستوں اور مرکز کو اس پر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، سیاسی عمل سے الگ ہونے والے باغی گروپوں کے برعکس،پی ایف آئی اور ایس ڈی پی آئی کیرالہ اور کرناٹک اور تمل ناڈو کے کچھ حصوں کے سماجی اور سیاسی تانے بانے میں بنے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اکثریتی سیاست اور سیاسی اداروں میں مسلم نمائندگی مسلسل سکڑتی جارہی ہے،پی ایف آئی ہمیشہ تازہ چارے کی تلاش میں رہے گایہ اتنا ہی سنگین چیلنج ہے جتنا کہ یہ سکیورٹی کے لیے لاحق ہے۔‘‘
موہن بھاگوت کا مسلم سماج سے ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش عدیم المثال : دینک بھاسکر
گذشتہ کئی ماہ سے آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت مسلم مذہبی رہنما اور مسلم دانشوران سے خفیہ و اعلانیہ ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ اس تناظر میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ موہن بھاگوت ہندو مسلم آپسی آہنگی کو فروغ دینا چاہتے ہیں اس لیے وہ متعدد بار اس کی کوششوں میں مصروف بھی نظر آتے ہیں۔آرایس ایس سربراہ کی یہ جہاں مسلمانوں کے درمیان کئی اہم سوالات کو جنم دے رہے ہیں وہیں قومی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں افراد اس پہل کو خیر سگالی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، جبکہ وہیں مین اسٹریم میڈیا میں ہمیشہ اس خبر کو صفحہ اول پر جگہ ملتی ہے۔ گذشتہ دنوں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کاامام آرگنائزیشن کے سربراہ عمیر الیاسی سے ان کے مدرسہ میں ملاقات نے میڈیا اور پورے ملک کی توجہ حاصل کی۔ قبل ازیں میڈیا میں لیک ہوئی ایک خفیہ خبر کے مطابق موہن بھاگوت نے ایک ماہ قبل ہی چند مسلم دانشوران سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ دینک بھاسکر ہندی روزنامے نے اپنے 24ستمبر کے شمارہ میں موہن بھاگوت اور عمیر الیاسی کی ملاقات پر ’’سیاسی پارٹیاں اور سماج سنگھ کی پہل سے سیکھے‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں لکھا کہ: ’’آرایس ایس سربراہ کا ایک ماہ پہلے مسلم دانشوران سے ملنا، اب مسجد و مدرسہ جانا اور مسلم مذہبی رہنماؤ ں کے ذریعہ انھیں ’’راشٹرپتا‘‘ کہنا ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں روایتی حریف مذاہب کے مابین خیالات کی ہم آہنگی اور آپسی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔ اب لازمی ہوگا کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مقصد سے سماج کو آپس میں جوڑنے کا کام کریں۔ سیاسی پارٹیوں کو اب یہ بھی سوچنا ہوگا کہ سماج میں وسیع ڈھانچے والے سنگھ اور عالمی مسلم تنظیم سماجی ہم آہنگی کے اس راہ پر چل پڑے تو سیاسی پارٹیوں کی یہ مجبوری ہوگی کہ وہ نفرت کی سیاست چھوڑ کر اپنے حقیقی کردار میں نظر آئیں۔ ‘‘
کانگریس کی صدارت پر راہل گاندھی کو واضح موقف پیش کرنے کی ضرورت : ٹائمس آف انڈیا
کانگریس پارٹی نے اپنے کھوئے ہوئے وقار کو ایک بار پھر حاصل کرنے کے لیے ملکی سطح پر بھارت جوڑو یاترا کے ساتھ جد و جہد شروع کردی ہے لیکن کانگریس میں مسائل کی کوئی کمی نہیں، ابھی پارٹی نے عوامی اعتماد کے حصول کے لیے کوششیں شروع کی تھیں کہ وہیں اب کانگریس صدر کے تعلق سے پارٹی اور پارٹی کے باہر بحث و مباحثہ کا دور شروع ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں سیاسی مبصرین الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کانگریس کا صدرگاندھی خاندان سے ہی ہو تو کانگریس کے مستقبل کے لیے زیادہ موزوں رہے گا جبکہ کچھ افراد اس کی سختی سے مخالفت بھی کرتے نظر آرہے ہیں ۔ تاہم اس ضمن میں کانگریس کے صدر کو لیکر گاندھی خاندان یا کسی دوسرے افراد کے صدر بننے پر تذبذب برقرار ہے۔ حالانکہ پارٹی کی جانب سے یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ کانگریس کا اگلا صدر انتخاب کے ذریعہ ہوگا لیکن یہ قطعی واضح نہیں ہے کہ پارٹی کا ہر رکن انتخاب کے لیے نامزدگی کرسکتا ہے یا پھر گاندھی خاندان کے چہیتے ہی کو یہ اعزاز حاصل ہوگا۔ کانگریس کے آئندہ صدر کے سلسلہ میں ٹائمس آف انڈیا نے اپنے 23ستمبر کے شمارہ میں ’’ہاں، نہیں یا کیا؟: کانگریس کی صدارت پر راہل سے وضاحت کی ضرورت ‘‘ کے عنوان سے اداریہ میںراہل سے اپنا واضح موقف پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ اخبار نے لکھا: ’’ اب تک جو بھی بیانات سامنے آئے ہیں وہ کسی نہ کسی حوالہ سے آئے ہیں جن کا براہ راست راہل گاندھی سے تعلق نہیں ہے۔ راہل کو یہ واضح بیان دینے کی ضرورت ہے کہ وہ انتخاب نہیں لڑیں گے اور منتخب صدر کے ماتحت کام کریں گے۔ نیا صدر اسی وقت ہدف کا تعین کرسکتا ہے جب اسے مکمل آزادی ہو۔کوئی بھی تاثر کہ راہل بغیر احتساب کے فیصلہ سازی کے اختیارات استعمال کر رہے ہیں، حریف پارٹیاں کانگریس کی قیادت کی تبدیلی کو چشم کشا کے طور پر پیش کرنے کے لیے ضبط کر لیں گی۔ یاد رہے کہ منموہن سنگھ کو ایک کمزور وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے سے کانگریس کو سیاسی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ پارٹی کے نئے صدر کی اس طرح کی خصوصیات بھی اسی طرح نقصان دہ ہوں گی، خاص طور پر ہندوستانی سیاست میں مضبوط خواہش رکھنے والے لیڈروں کا غلبہ ہے، اور ووٹرز اکثر مضبوط لیڈروں کو ووٹ دیتے ہیں۔‘‘
ایران کی سیاسی اور سماجی اصلاحات میں ناکامی پرتشدد مظاہروں کی اصل وجہ: دی ہندو
اسلامی جمہوریہ ایران میں پولیس کی حراست میں ایک نوجوان کردش خاتون کی موت نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا ہے، جس سے ایران حکومت ایک بار پھر عوامی دباؤ میں آگئی ہے۔ بائیس سالہ مہسا امینی کو اس ماہ کے شروع میں مبینہ طور پر حجاب نامناسب طریقے سے پہننے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ حکام نے تین دن بعد اس کی موت کی وجہ حجاب کے اصولوں کی تربیت کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے قرار دیا، لیکن مہلوکہ کے والدین کا کہنا ہے کہ اسے مار پیٹ کر ہلاک کیا گیا۔ اس واقعے نے ایران میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا جہاں خواتین کے حقوق اور مزاحمت کا ریاستی دبائو ہمیشہ سے ایک بڑا سیاسی مسئلہ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سات دنوں میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت تقریباً 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔2019کے بعد ایران میں ہونے والا یہ سب سے بڑا عوامی احتجاج ہے اور صدر ابراہیم رئیسی کے لیے ایک اہم سیاسی چیلنج بھی ہے، جنہوں نے گزشتہ سال ہی صدر کا عہدہ سنبھالا ہے۔ معروف انگریزی روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ نے 24ستمبر کے شمارہ میں’’ نحیف و نزار حکومت: ایران میں حجاب کے خلاف احتجاج‘‘ کے موضوع پر اداریہ میں ذیلی عنوان میں لکھا کہ ’’ایران کی سیاسی اور سماجی اصلاحات میں ناکامی پرتشدد مظاہروں کو جنم دے رہی ہے‘‘ اخبار نے ایران پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ایران نے گذشتہ 25برسوں میں دو اصلاح پسند رہنما منتخب کئے 1997 میں محمد خاتمی اور 2013میں حسن روحانی لیکن وہ سیاسی نظام میں کوئی خاطر خواہ اصلاحات کرنے میں ناکام رہے، جس پر مذہبی اسٹیبلشمنٹ کا سختی سے کنٹرول ہے۔ اصلاحات کی کمی اور معاشی اور سیاسی دباؤ کے غبار نے اکثر بڑے پیمانے پر مظاہروں اور پرتشدد جبر کو جنم دیا۔ احتجاج جمہوریت میں سیاسی کلچر کا حصہ ہے لیکن ایک آمریت میں جو سیاسی مذہبی انقلاب کی میراث کا دعویٰ کرتی ہے ’’آمریت مردہ باد‘‘ جیسے نعرے اس بات کی علامت ہیں کہ اسلامی انقلاب نحیف و نزار ہو رہا ہے۔ ایران کے مذہبی رہنماؤں کو سماجی کشمکش سے سبق سیکھنا چاہیے اورملک و معاشرے کو درپیش مسائل سے نپٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
اس سلسلہ میں ہندی روزنامہ امر اجالا نے بھی اپنے 24ستمبر کے شمارہ میں ایران میں ہورہے احتجاجی مظاہرہ پر ’’گہری ہے مخالفت کی جڑیں‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں لکھا کہ: ’’ ان مظاہروں کی دو باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ایک تو یہ کہ اسے خواتین نے شروع کیا ہے اور وہ شخصی آزادی کی مانگ کررہی ہیں، دوسرا یہ کہ ایران کی 70فیصدی آبادی نوجوانوں کی ہے، جن کی ان مظاہروں میں بڑی شراکت داری ہے۔ دراصل مسئلہ صرف حجاب کا نہیں بلکہ اپنی پسند اور شہری آزادی کا ہے۔ ‘‘
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  2 اکتوبر تا 8 اکتوبر 2022