’پسماندہ مسلمانوں‘ سے ہمدردی یا تقسیم کی سازش!

’سنیہا یاترا‘ سے پہلے نفرت ترک کرنے اور اقلیتوں کے جائز مطالبات پر سنجیدہ اقدم کی ضرورت

ترجمہ: سلیم الہندی (حیدرآباد)

وزیر اعظم نریندر مودی کے نام بانی‘ آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ و سابق رکن راجیہ سبھا ‘ علی انور انصاری کا ایک خط
خالد انیس انصاری، اسوسی ایٹ پروفیسر عظیم پریم جی یونیورسٹی نے علی انور انصاری بانی، آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ و سابق رکن راجیہ سبھا کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے ایک خط پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ خط، صد فی صد حقائق پر مبنی ہے۔ اس خط کا محرک دراصل وزیر اعظم کا بی جے پی کی نیشنل اکزکیٹیو میٹنگ میں پارٹی کارکنوں کو، ہندووں کے سوا، ملک کے دیگر تمام پچھڑے اور پسماندہ طبقات تک پہنچنے کے لیے ملک گیر پیمانے پر ’’سنیہا یاترا‘‘ کا اہتمام کرنے کا مشورہ دینا ہے۔ اس خط میں اپوزیشن کی بے وزنی اور زندگی کے ہرشعبے میں پسماندہ طبقات کے ساتھ جاری امتیازی سلوک کی مکمل عکاسی کی گئی ہے۔ پسماندہ طبقات کو حکومت میں شراکت داری کا لالچ دیتے ہوئے انہیں قریب کرنے کی کوششوں کو انہوں نے آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کی تمام محاذی تنظیموں کی ایک چال بتایا ہے۔ انہوں نے علی انور انصاری کو ملک کے وزیراعظم تک مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی حقیقی تصویر پیش کرنے کو قابل قدر اور جرات مندانہ اقدام قرار دیا۔ ذیل میں اس خط کا مکمل متن پیش ہے۔
عزت مآب وزیر اعظم !
محترمی!
سنیہا یاتراکا اعلان اور بھارت کے پسماندہ مسلمان آپ کی زبان سے خلاف توقع لفظ ’پسماندہ مسلمان‘ سن کر دل میں خوش گواری کا خفیف سا احساس پیدا ہوا لیکن ہم مسلمان اپنے نام کے ساتھ پسماندہ کہلوانا اسی وقت پسند کریں گے جب اس طرز خطابت میں صرف ہمدردی ہی نہیں، بلکہ وقار، عزت اور رتبے کا اظہار بھی ہو۔ ہندی کا لفظ ’سنیہا‘ صرف انسیت اور ہمدردی کو ظاہر کرتا ہے جو وقار اور رتبے کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کو پسماندہ مسلمان کہنا درحقیقت اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں اعلی کہلائے جانے والے بھارت کے دیگر طبقات کی زیر سرپرستی اور ان کی مرہون منت ہی زندگی گزارنی ہو گی۔ ایک ہی ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بے شمار زبانیں اور بولیاں بولنے والے کروڑوں عوام کے لیے کوئی ایک صاحب اقتدار پارٹی یا حکومت اپنے آپ کو اعلی کیسے کہہ سکتی ہے؟ 22 سال پہلے میں نے ایک کتاب بعنوان ’’مساوات کی جنگ‘‘ تصنیف کی تھی جس میں، میں نے لکھا تھا کہ بھارت میں پسماندہ مسلمان، دیگر جماعتوں اور طبقات اور خود مسلمانوں پر کوئی برتری، تسلط یا غلبہ نہیں چاہتے، انہیں صرف عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق چاہیے۔ سماج کے پسماندہ عوام کی بہبود کے لیے اچانک سنیہا یاترا کے اعلان سے ہمارے ذہنوں میں یہی خیال آیا کہ اس یاترا کے ذریعے بی جے پی سماج کے پسماندہ عوام کے ووٹوں تک پہنچ کر اپنے ووٹ بینک کو وسعت دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور مسلمانوں کے مختلف طبقات کو تقسیم کرنے کی یہ ایک چال بھی ہو سکتی ہے لیکن یاد رہے کہ آج کا پسماندہ مسلمان باشعور ہو چکا ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ مسلمان سوچے سمجھے بغیر کسی بھی پارٹی کو آنکھ بند کر کے ووٹ دے دے گا۔ حکومت اور حکمراں طبقے پر ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد کسی خاص مذہب، عقیدے یا سماج کے خلاف نہیں ہے۔ سنیہا یاترا کے بعد کیا آپ ہمیں اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آبادی کے تناسب سے ہمیں ہمارے حقوق دیے جائیں گے۔ ملک کا غیر پسماندہ یا اعلی کہلایا جانے والا سماج ہمارے ساتھ کھڑا ہونا پسند کرے گا؟ سماجی مساوات کے حصول کے لیے ہماری جدوجہد روز اول ہی سے پرامن اور آئین کے دائرے میں رہی ہے۔ میں یہ بھی واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پسماندہ مسلمان اپنے لیے خصوصی مطالبات نہیں کر رہے ہیں؛ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنا فوراً ختم کرے۔ اسی سلوک کا مطالبہ ہم ہمارے عیسائی دلت بھائیوں کے لیے بھی کرتے ہیں کیوں کہ یہ بھی اعلی طبقات کے نارواسلوک کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ پسماندہ طبقات کے مسائل کو سلجھانے کی جدوجہد میں تنہا مسلمانوں کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوں گی۔ اس مہم میں کامیابی کے لیے ہمیں دیگر پسماندہ دلت، تمام ترقی پسند پسماندہ طبقات اور انصاف پسند سماج کے افراد کی شمولیت بھی ضروری ہے۔
1998ء میں ہم نے ایک سماجی تنظیم ’آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ‘ کے نام سے قائم کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لفظ ’پسماندہ‘ کسی مذہب یا فرقے کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ دنیا میں ’’پسماندہ‘‘ نام کا کوئی مذہب یا فرقہ بھی نہیں ہوتا جب کہ ہندو مسلم سکھ عیسائی بدھسٹ اور تمام دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں آدی واسی اور دلت طبقات ہوتے ہیں۔ ایسے تمام پسماندہ سماج کے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک سے ہونے والی ذہنی تکلیف، پریشانی اور درد کو صرف مسلمان ہی سمجھ سکتا ہے۔ تاریخ کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ماضی میں بھارت کے تمام مسلمان پسماندہ غیر مسلم ہی تھے۔ اس وقت کے سماج میں مساوات پر مبنی باعزت مقام کے حصول کی خاطر ہمارے آبا و اجداد نے مذہب اسلام قبول کیا تھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت میں بسنے والے تمام انسانوں کا ڈی این اے بھی ایک ہی ہے۔ یہاں ایک اور یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت میں رہنے بسنے والے مسلمان ہی یہاں کے اصلی باشندے ہیں اور ہم بھارتی مسلمانوں کا تعلق یقینا بہوجن سماج ہی سے ہے۔ ایران، عراق اور دیگر عرب ممالک سے ہندوستان میں آکر بسنے والے مسلمان بڑی مشکل سے ایک یا دو فی صد رہے ہوں گے۔ لفظ ’پسماندہ‘ ایک اردو لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’پچھڑے، کچلے یا ستائے ہوئے‘ کے ہوتے ہیں۔ ہم اس ٹایٹل ’پسماندہ‘ کے بجائے ’پیش ماندہ‘ کہلانا پسند کریں گے جس کے لغوی معنی ہیں قیادت کرنے والے۔
قابل احترام وزیر اعظم!
آپ نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو پسماندہ مسلمانوں سے تعلقات استوار کرنے کے لیے سنیہا یاترا کا حکم تو دے دیا لیکن یاد رہے کہ کسی بھی مہم کے مثبت اثرات، سماج اور ملک پر اسی وقت مرتب ہوں گے جب ملک میں مذہبی ہم آہنگی، آپسی اتحاد و اتفاق کا ماحول دوبارہ برپا کیا جائے۔ ایسی ’سنیہا یاترا ‘نکالنے کا کیا فائدہ جب کہ پارٹی قائدین اور ہر سطح کے کارکن، جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور نفرت انگیز بیانات دینے میں دن رات مصروف ہیں۔ بی جے پی کا چھوٹا بڑا جاہل اور تعلیم یافتہ ہر کارکن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اخلاق سے گرے ہوئے بیانات دے کر ماحول خراب کر رہا ہے۔ بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں میں بے قصور مسلمانوں کے گھروں دوکانوں اور فیکٹریوں پر بلڈوزر چلا کر تباہی مچائی جا رہی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف زہر آلود ماحول خود بی جے پی بنا رہی ہے۔ ماب لنچنگ کے ذریعے بے گناہ بے قصور تنہا معصوم مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ’گھر واپسی‘ اور ’لو جہاد‘ کے نام پر اور کورونا لہر کے دوران تبلیغی جہاد کے نام پر پولیس کی جانب سے غیر ضمانتی وارنٹ کے ذریعے مسلمانوں کو گرفتار کر کے انہیں جیلوں میں کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر قید کر کے رکھا جا رہا ہے۔ ملک کی مختلف جیلوں میں مسلمان زیر دریافت قیدیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ جس مسجد کو چاہا اسے میں مندر ہونے کا جھوٹا دعوی کرنا بی جے پی اور آپ کی تمام ہم خیال جماعتوں کی عادت بن چکی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جو بے قصور انسان قتل کیے گئے، زندہ جلائے گئے، پیٹ پیٹ کر مار دیے گئے وہ اور جسمانی طور پر زندگی بھر کے لیے اپاہج اور معذور بنا دیے گئے، وہ سب مسلمان ہی تھے۔
بی جے پی ریاستوں کے چیف منسٹرس، وزراء اور دیگر قائدین، بلا وجہ پسماندہ مسلمانوں کو زندہ جلا کر مارڈالنے کی باتیں کرتے ہیں یا پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ کیا کسی ریاست کے چیف منسٹر کو اپنی ہی ریاست کی عوام کو دھمکیاں دینا زیب دیتا ہے؟ کیا ان کا یہ انداز بیان، ان کے اعلی مرتبے کے شایان شان ہے۔ آپ کو مرکزی وزیر داخلہ شری امیت شاہ کے اس بیان کا علم ہو گا جب انہوں نے سی اے اے اور این آر سی قانون کے نفاذ کے خلاف، دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کی جانب سے منظم کیے گئے مشہور زمانہ احتجاج کے دوران دہلی الیکشن کے موقع پر کہا تھا کہ اگر انہیں موقع ملے تو وہ صرف ایک بٹن دبا کر ان احتجاجی خواتین کا بجلی کے ایک جھٹکے کے ساتھ خاتمہ کر دیں گے!
محترم وزیر اعظم!
اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف کسی بھی وزیر کو، خواہ وہ وزیر داخلہ ہی کیوں نہ ہو کیا اس طرح کا بیان دینا درست ہے؟ آپ نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ آپ لوگوں کو ان کی پوشاک سے ہی پہچان لیتے ہیں۔ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ آپ کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ شاید آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ بی جے پی اور اس کی دیگر تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو ہر طریقے سے اکسانے اور انہیں مشتعل کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح صبر سے کام لیتے رہیں گے۔ آج بی جے پی، آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈہ عناصر، پولیس یا لا اینڈ آرڈر کی پروا کیے بغیر مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے بھی روک رہے ہیں۔ مسجدوں میں گھس کر نماز میں مشغول نمازیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اسلام کے اصولوں اور پیغمبر اسلام کی اہانت کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں کی اسلام کے خلاف اشتعال انگیز و اہانت آمیز بیانات کی وجہ سے آج بھارت کی شبیہ بین الاقوامی سطح پر داغ دار ہو چکی ہے۔ تعجب ہے کہ آپ نے ان کی مذمت نہیں کی اور نہ اس موضوع پر اپنی زبان سے ایک لفظ نکالا؟ آپ آج بھی خاموش ہیں؟ جب مسلم دانشوروں، صحیفہ نگاروں اور سماج کے باشعور افراد نے اس طوفان بدتمیزی کے خلاف آواز بلند کی تو آپ کی پولیس نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ ایسے بے شمار بے قصور مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔
ہماری تنظیم ’’آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ‘‘ نے ملک کے پسماندہ مسلمانوں کو انسانیت کی بھلائی کی راہ میں ہمیشہ امن و اطمینان، سکون و مصلحت کے ساتھ، تشدد سے دور، آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں اور آج تک وہ انہیں خطوط پر عمل پیرا ہیں۔ کسی کے اکسانے پر جذباتی ہو کر لڑنے جھگڑنے یا قانون کو ہرگز اپنے ہاتھوں میں نہ لینے کا سبق ہم نے اپنے کارکنوں کو سکھایا ہے۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ انصاف اور جائز حقوق کے حصول کے لیے منظم کیے جانے والے تمام احتجاجی مظاہروں میں ہمارے کارکنوں نے مکمل صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور فرقہ پرستی کے زہر سے ہمیشہ دور رہے۔ 1940ء میں انڈیا گیٹ کے پاس ہمارے آباء واجداد نے جن میں عبد القیوم انصاری اور مولانا علی حسین عاصم بہاری قابل ذکر ہیں، چالیس ہزار سے زیادہ کارکنوں کو جمع کرکے محمد علی جناح کے مسلم پاکستان اور ساورکر کے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کی دو قومی پالیسی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ ان کے علاوہ مولانا عتیق الرحمن منصوری، میاں عبدالملک راعنی اور دیگر نے اس دو قومی نظریے کے خلاف تحریک کو آگے بڑھایا تھا، یہ تمام قائدین پسماندہ مسلم سماج سے تعلق رکھتے تھے۔
آزادی سے پہلے ضلع چمپارن کے ایک مشہور صحافی پیر مونس، شنکر ودیارتھی کے روزنامے ’’پرتاپ‘‘ میں مضامین لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے چمپارن کے نلاہہ طبقے کے زمینداروں کی جانب سے مقامی عوام کے استحصال اور ان کی طرف سے کی جانے والی ظلم و زیادتی پر گاندھی جی کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا تھا۔ اس خط کے ملنے کے بعد گاندھی جی نے ضلع چمپارن کا دورہ کیا تھا۔ نلاہہ طبقے کے افراد نے اس موقع پر گاندھی جی کو جان سے مارنے کا منصوبہ بنا کر ان کے کھانے اور پانی میں زہر ملا دیا تھا۔ اس سازش کی اطلاع جب ایک مسلمان مجاہد آزادی میاں ہاتک کو ہوئی تو انہوں نے وہاں پہنچ کر گاندھی جی کو وہ زہر آلود کھانا کھانے سے روک دیا تھا اور گاندھی جی کی جان بچائی تھی۔ یہاں اس واقعے کا ذکر کرکے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسلمان گاندھی جی کی جان بچانے والوں میں سے ہیں، قاتلوں میں سے نہیں۔ 1857ء میں جھارکھنڈ کے ایک مسلم مجاہد آزادی شیخ بھکاری کو برطانوی فوج کے سپاہیوں نے انگریز حکمرانوں کے لیے سنگین خطرہ بتاتے ہوئے کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر کسی عدالت میں پیش کیے بغیر سیدھے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک معمولی بھارتی کو سزا دلوانے کے لیے عدالت اور مقدمے کی رسمی کاروائی میں وقت برباد کرنے کے بجائے پھانسی پر لٹکا دینا ہی ان کے نزدیک انصاف تھا۔ بھارت کی آزادی کی جنگ کے یہ تینوں جانباز سپاہی، پسماندہ مسلمان تھے۔ 1965 کی جنگ میں جب پاکستان نے امریکی پیٹنٹ ٹینک سے بھارت پر حملہ کیا تھا تب بھارتی فوج کے ایک حوالدار عبد الحمید نے اپنی جان پر کھیل کر اس ٹینک کو تباہ کر دیا تھا۔ بھارت سرکار نے حوالدار عبد الحمیدکو بعد ازمرگ ’ویر چکر‘ خطاب عطا کیا تھا۔ یہ بھی ایک پسماندہ مسلمان سپاہی تھا۔ مشہور شہنائی نواز بھارت رتن استاد بسم اللہ خان بھی ایک پسماندہ مسلمان تھے۔ بھارتی سینما کے شہرت یافتہ افسانوی اداکار دلیپ کمار (یوسف خان) بھی ایک پسماندہ مسلمان تھے۔ آج بھی بھارت ان نگینوں پر فخر کرتا ہے۔
بی جے پی، آر ایس ایس اور ان کی ایک ہم مزاج تنظیم مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے ملک میں نفرت اور مذہبی انتشار پھیلانے کے خلاف ہماری تنظیم مسلسل آواز اٹھاتی رہی ہے کیوں کہ یہ تنظیمیں اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر ملک کے بھولے بھالے عوام کے درمیان نفرت پھیلا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’منووادی‘‘ ہے اور دوسری ’’ابلیس وادی‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت میں ہر سمت پھیلے ہوئے مذہبی منافرت کے اندھیروں کو ختم کر کے مذہبی رواداری کا ماحول پیدا کرنے میں ہماری تنظیم ’’پسماندہ مسلم تحریک‘‘ ایک موثر رول ادا کر سکتی ہے۔
محترم وزیر اعظم!
اگر بی جے پی محض پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات جیتنے کی خاطر پسماندہ طبقات کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے تو برائے مہربانی ان حقائق پر کم سے کم ایک سرسری نظر دوڑائیے! پسماندہ مسلمانوں کے ایک درجن سے زیادہ طبقات ہیں مثلاً حلال خور (مہنتر، بھنگی) دھوبی، موچی، بھٹیارا (چنے بھوننے والے) گڈرئیے (مویشی چرانے والے) وغیرہ وغیرہ جنہیں سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے درج فہرست طبقات میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ میں آپ سے ادباً یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس سوال کا جواب دے دیا ہے کہ کیوں آپ کی حکومت ان کمیشنوں کی اس سفارش کو قبول نہیں کرتی جب کہ آپ کی حکومت نے مذہب کی بنیاد پر دیگر درج فہرست قبائل کے کوٹے میں اضافہ کر دیا ہے تو پھر مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟ ہم ایک سوال یہ بھی کرتے ہیں کہ جن خانہ بدوش قبائل مثلاً میواتی، گجر، سپیرا، مداری وغیرہ کو انگریزی حکومت نے جرائم پیشہ قرار دیا تھا آپ کی حکومت نے انہیں آج تک پسماندہ قبائل کی فہرست میں کیوں شامل نہیں کیا؟ میں کہتا ہوں کہ جب تک ان چار بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ’’سنیہا یاترا‘‘ کے ذریعے پسماندہ طبقات اور پسماندہ قبائل کے ساتھ دوستانہ ماحول پیدا کرنے کا ڈھول پیٹنا، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آخر میں یہ ’سنیہا یاترا‘ صرف ایک فضول تماشا ثابت ہو گی۔ راتوں رات اچانک نوٹ بندی قانون کا نفاذ‘ عام انسانوں کی روزمرہ استعمال کی ہرچیز پر جی ایس ٹی کی وصولی اور کورونا وبا کے دوران پابندیوں کے درمیان ہر قسم کے کاروبار کو سختی کے ساتھ بند رکھنے سے عوام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔
روزانہ اجرت پر محنت مزدوری کرنے والے مزدور اور مختلف کاریگر، روزگار نہ ہونے سے فاقہ کشی پر مجبور ہوئے تھے۔ تجارت پیشہ افراد پر اپنی دو کانوں اور کارخانوں پر تالے ڈالنے کی نوبت آگئی تھی۔ کیا آپ کی حکومت ان پریشان حال خاندانوں کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانے میں کوئی مالی مدد کرے گی؟ کیا انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کرے گی؟ کیا انہیں رعایتی داموں پر خام مال مہیا کروانے کے انتظامات کرے گی؟ کورونا وباء سے پہلے لیے ہوئے ان کے بینک کے قرضے معاف کرے گی؟ افراط زر سے متاثرہ تاجروں کو راحت پہچانے کا کوئی متبادل انتظام کرے گی؟ کل ہند سطح پر پسماندہ طبقات، دلت اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی اساس پر مردم شماری کرنے کی جراءت کرے گی؟ آپ کی حکومت نے بغیر مشورے اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے جلد بازی میں کئی منافع بخش اور کارآمد عوامی سیکٹر کے پروجیکٹس، نجی تاجروں کو بیچ ڈالے۔ کیا آپ ان نجی سیکٹرس میں مختلف طبقات کے لیے ملازمتوں میں تحفظات کو شامل کرواسکتے ہیں؟ اگر پسماندہ طبقات اور متاثرہ عوام کی بہبود کے لیے آپ کی حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تو آپ ہی بتائیے کہ سنیہا یاترا کے دوران کیے جانے والے سرکاری وعدوں پر ہم کیسے اعتبار کریں؟
پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی کے بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ بھارت کے مسلمان آج مکمل سیاسی، سماجی اور معاشی بائیکاٹ کا شکار ہیں۔ملک کی کئی ریاستوں میں مسلمان کاریگروں، مزدوروں، ٹھیلہ بنڈی والوں، ترکاری اور میوہ فروشوں، رکشہ چلانے والوں کا معاشی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ کیا آپ سماج میں کے غیر انسانی سلوک اور غلط طرز عمل کو صحیح راہ پر لگانے کی کوشش کریں گے؟ طویل مدت سے صرف بی جے پی سے وابستہ ایمان فروش مسلمانوں میں سے آپ نے کسی کو وزیر یا گورنر بنا کر عام مسلمانوں پر کوئی احسان نہیں کیا۔ میں مختار عباس نقوی، شاہنوازحسین، ایم جے اکبر، نجمہ ہبتہ اللہ اور عارف محمد خان کی بات کر رہا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ حکومت کی تمام مسلم مخالف پالیسیوں اور متنازعہ قوانین کی بی جے پی جے قائدین سے زیادہ بڑھ چڑھ کر تائید اور بے جا حمایت کی ہے۔ ہم ایسے سرکاری مسلمانوں اورمسلمانوں کے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے مسلم قائدین میں ہم نمایاں فرق محسوس کرتے ہیں۔
محترم وزیر اعظم!
ہمیں امید ہے کہ آپ ضرور ہمارے ان جائز اور معقول مطالبات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے اور ان پر عمل آوری کے لیے جلد سے جلد منصوبہ بندی کر کے مناسب قدم ٹھائیں گے۔
دستخط: علی احمد انصاری،
بانی آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ و سابق رکن راجیہ سبھا

 

***

 آپ نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو پسماندہ مسلمانوں سے تعلقات استوار کرنے کے لیے سنیہا یاترا کا حکم تو دے دیا لیکن یاد رہے کہ کسی بھی مہم کے مثبت اثرات، سماج اور ملک پر اسی وقت مرتب ہوں گے جب ملک میں مذہبی ہم آہنگی، آپسی اتحاد و اتفاق کا ماحول دوبارہ برپا کیا جائے۔ ایسی ’سنیہا یاترا ‘نکالنے کا کیا فائدہ جب کہ پارٹی قائدین اور ہر سطح کے کارکن، جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور نفرت انگیز بیانات دینے میں دن رات مصروف ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022