برطانیہ میں راہل گاندھی کے ملک میں جمہوریت کی صورت حال سے متعلق بیانات پر معافی مانگنے کا کوئی سوال نہیں:ملکارجن کھڑگے

نئی دہلی، مارچ 15: کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے بدھ کے روز کہا کہ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کی طرف سے معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جنھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں بشمول سینئر کابینہ وزراء کے ذریعے ان کے ان تبصروں کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے جو انھوں نے گزشتہ ہفتے برطانیہ میں کیے تھے۔

لندن میں ایک تقریب میں گاندھی نے کہا تھا کہ ہندوستان کو اپنی جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے اور ملک کے جمہوری اداروں پر ’’بڑے پیمانے پر حملے‘‘ کا سامنا ہے۔

انھوں نے برطانوی ممبران پارلیمنٹ کو یہ بھی بتایا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈروں کے مائیکروفون بند کر دیے جاتے ہیں اور انھوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو ایک ’’بنیاد پرست‘‘ اور ’’فاشسٹ‘‘ تنظیم قرار دیا تھا۔

راہل گاندھی کے ان بیانات نے پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ دونوں ایوانوں میں پیر کو شروع ہونے والے بجٹ سیشن کے دوسرے مرحلے کے پہلے دو دنوں میں کوئی اہم کارروائی نہیں ہو سکی۔ بدھ کو بھی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو بھی بی جے پی ممبران کے ذریعے راہل گاندھی سے معافی مانگنے کے مطالبے کے درمیان دوپہر 2 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

جہاں بی جے پی لیڈروں اور کئی سینئر وزراء نے گاندھی پر بیرون ممالک ہندوستان کو بدنام کرنے کا الزام لگایا ہے، وہیں کانگریس نے یہ کہتے ہوئے اس کا جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کئی ممالک کے اپنے دوروں کے دوران ملکی سیاست کے معاملات کو اٹھایا ہے۔

بدھ کو کھڑگے نے نامہ نگاروں سے کہا کہ مودی نے بیرون ملک اپنے تبصروں سے ملک کے شہریوں کی تذلیل کی ہے۔

کھڑگے نے کہا کہ ’’جب مودی جی پانچ چھ ملکوں میں گئے تھے…تو انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں پیدا ہونا گناہ ہے۔ یہاں جمہوریت ختم ہو رہی ہے، اظہار رائے کی آزادی کو کمزور کیا جا رہا ہے، ٹی وی چینلز کو دبایا جا رہا ہے اور سچ بولنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، تو یہ جمہوریت کو ختم کرنے کا عمل نہیں تو کیا ہے؟‘‘