’نشہ سے پاک بھارت کی تعمیر‘ ملک کے بہترین مفاد میں

اعلی اقدار پر مادی وسیاسی مفاد کو ترجیح دینے سے معاشرتی و اخلاقی تباہی

نور اللہ جاوید، کولکاتا

بہار زہریلی شراب سانحہ پر سیاست افسوسناک۔ نشہ بندی پر جامع و یکساں قومی پالیسی کی ضرورت
نوجوانوں کو تباہی کے دہانے پر کون دھکیل رہا ہے؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے اختتام سے دو دن قبل بھارت میں منشیات کی وبا پر ارکان پارلیمنٹ کی پرجوش تقاریر سننے کو ملیں، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی یقین دہانیوں سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید مرکزی و ریاستی حکومتیں ’’نشہ سے پاک بھارت‘‘ کے خواب کی تعبیر کے لیے سنجیدہ ہیں اور مل کر اس چیلنج سے نمٹنے اور ہدف کو پانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ساتھ ہی بہار میں زہریلی شراب سے 80یا زاید افراد کی موت کے بعد ایک بار پھر شراب پر پابندی کی حمایت و مخالفت میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ امید تھی کہ اس پر سنجیدہ گفتگو ہو گی مگر بہار اسمبلی میں ہنگامہ آرائی نے واضح کر دیا کہ کوئی بھی اس اہم مسئلے پر سنجیدہ گفتگو کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ نیز ملک بھر میں نوجوان، کیا مرد اور کیا خواتین سب ایک وبا کی مانند منشیات کی لپیٹ میں گھِرتے جا رہے ہیں۔ نشے سے مرنے والوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد، پالیسی کے نفاذ میں خامیوں اور مرکز و ریاستوں کے درمیان تال میل کی کمی اور مختلف ریاستوں کی جدا جدا پالیسیوں پر جب نگاہ جاتی ہے تو پہلی نظر میں قائم ہونے والا تاثر یکسر کافور ہو جاتا ہے اور اس کی جگہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ’نشہ سے پاک بھارت‘ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر بھی ہو سکے گا؟ یہ شک و شبہ اور حکومت کی نیت پر سوال صرف حکومت مخالف ذہنیت کی اپچ نہیں ہے ۔بلکہ ملک میں منشیات کے کارو بار کے فرو غ جیسے سنجیدہ ایشو پر اپوزیشن نے اہم سوالا ت کھڑے کئے اور شکو ک وشبہات کا اظہار بھی کیا۔ ان سوالوں کے جوابات سے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جس انداز سے گریز کیا اس رویے نے ملک میں اندیشے پیدا کئے ہیں۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے اگرچہ پورے اعتماد سے دعویٰ کیا کہ ریاست اور مرکزی حکومت دونوں منشیات پر قابو پانے کے لیے پر عزم ہیں مگر سوال یہ ہے کہ بیرون ممالک سے بھارت میں منشیات کی درآمد کیسے ہو رہی ہے جب کہ سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری مرکز کے پاس ہے، آنے جانے والوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ایجنسیاں کام کر رہی ہیں پھر بھی زمینی اور سمندری دونوں راستوں سے ملک میں منشیات کی درآمدات ہو رہی ہیں؟ اور تمام تر پابندیوں کے باوجود منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے کامیاب کیوں ہو رہے ہیں؟ آخر وہ کونسی طاقت ہے جو ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے؟ یہ وہ سوالات تھے جو براہ راست مرکزی حکومت کے کردار پر انگلی اٹھا رہے تھے، اس لیے ان سوالوں کے جواب سے پہلو تہی کر کے امیت شاہ اپوزیشن پر ہی گرجتے رہے۔ مسئلے کا حل سوالات سے پہلو تہی میں نہیں بلکہ سوالوں کا سامنا کرنے میں ہے۔ کوتاہیوں و ناکامیوں کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے میں ہے۔ پرجوش تقاریر، مخالفین کو منہ توڑ جواب دینے سے مسئلے کبھی بھی حل نہیں ہوتے۔
بھارت کے نواجون وبا کی طرح منشیات کے عادی کیوں ہو رہے ہیں؟ اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شراب اور تمباکو پر جامع اور یکساں قومی و ریاستی پالیسیوں کا فقدان ہے۔ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچے پہلے تمباکو اور شراب کے عادی ہوتے ہیں اس کے بعد وہ منشیات کی طرف بڑھتے ہیں۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے دو سال قبل ایک سروے کیا تھا کہ بچے کس عمر میں منشیات کے عادی ہوتے ہیں؟ پہلے وہ کس نشے کا استعمال کرتے ہیں اور کس عمر میں اس کا شکار ہوتے ہیں؟ رپورٹ کے مطابق نوعمر بچے پہلے تمباکو اور شراب کا استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد سانس کے ذریعے لینے والے نشے کا استعمال کرتے ہیں۔ اوسطاً 12 سال کی عمر کے بچے تمباکو اور شراب نوشی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر بچوں کو منشیات کے دلدل سے نکالنا ہے تو ان کی تربیت کم عمری سے ہی ضروری ہے اور اگر کم عمری میں تمباکو اور شراب کے استعمال سے وہ بچ جاتے ہیں تو پھر ایسے بچوں کے منشات کے عادی ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ شراب پر نہ تو مرکزی حکومت کی جامع اور واضح پالیسی ہے اور نہ ہی ریاستی حکومتیں سنجیدہ نظر آتی ہیں۔ یکساں سول کوڈ کے نام پر رات دن چلانے والے نیوز اینکرس، سماجی کارکن اور سیاست داں کبھی بھی اس بات کی وکالت نہیں کرتے کہ شراب اور منشیات کے بارے میں یکساں اور جامع قانون بنایا جائے۔بھارت کی اتحاد و سالمیت کے لیے رہنمایانہ دفعہ 44 کے نفاذ کو ناگزیر بتانے والے شراب کے مسئلے پر خاموش ہو جاتے ہیں۔حالاں کہ یکساں سول کوڈ کی طرح نشہ بندی کے لیے قانون سازی بھی رہنمایانہ دفعہ کا حصہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے تین سال قدیم اعداد وشمار کو ہی لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر سال ملک میں 1.4 لاکھ افراد شراب نوشی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال ایک لاکھ کے قریب افراد سڑک حادثات میں مر جاتے ہیں اور ان میں سے 30 فیصد افراد صرف اس وجہ سے حادثے کا شکار ہوتے ہیں کہ انہوں نے شراب پی رکھی تھی۔ ایسے میں مرکزی حکومت سے یہ سوال ہے کہ وہ شراب نوشی کے بارے میں ’’ایک ملک اور ایک قانون‘‘ کی پالیسی کیوں اختیار نہیں کرتی۔
ملک میں آزادی سے پہلے بھی شادیاں اپنے اپنے مذہبی، قبائلی اور خاندانی روایات کے مطابق انجام پاتی رہی ہیں اور اس کی وجہ سے کوئی معاشرتی نقصانات نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کو ناگزیر سمجھا جارہا ہے لیکن جس خبیث شے کی وجہ سے ملک میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان مر رہے ہیں، بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، خواتین کو گھریلو تشدد اور ہراسانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جرائم کے واقعات بڑھ رہے ہیں اسے مٹانے کے لیے کوئی سنجیدہ گفتگو کیوں نہیں کی جاتی؟ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ایک طرف بہار میں شراب پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو دوسری طرف اس کی پڑوسی ریاستوں میں کھلے عام شراب فروخت ہوتی ہے۔ایک طرف مہاراشٹر میں شراب کے استعمال کی عمر 25 سال ہے، اس سے کم عمر والے بچے نہ شراب پی سکتے ہیں نہ شراب کی دکان اور کارخانے میں کام کر سکتے ہیں لیکن پڑوسی ریاست گوا میں 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو شراب پینے اور شراب خانوں میں کام کرنے کی اجازت ہے۔ ایک طرف ملک کا آئین شراب بندی پر قانون سازی کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی ہدایت دے رہا ہے تو دوسری طرف پنجاب حکومت عوام کو سستی شراب فراہم کرنے کے لیے شراب کے کارخانے قائم کرنے کی بات کر رہی ہے۔ ایک طرف سرکاری کمپنیوں کو فروخت کیا جا رہا ہے اور دلیل دی جا رہی ہے کہ صنعت چلانا اور کارخانے قائم کرنا حکومتوں کا کام نہیں ہے وہیں حکومت خود شراب کے کارخانے قائم کرنے کی بات کر رہی ہے۔ ملک میں ریوڑی کلچر کو فروغ دینے والی سیاسی جماعتیں اپنی آمدنیوں میں اضافے کے لیے شراب کی دکانوں کے لیے لائسنس کے قواعد وضوابط میں نرمی کر رہی ہیں۔ ان تضادات کے ساتھ نشہ سے پاک بھارت کا خواب آخر کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
شراب اورمنشیات اور بھارت کا آئین
ملک کے شہریوں کی صحت، غذائیت اورمعیار زندگی کو بہتر بنانے پر 23اور24نومبر 1948 کو پارلیمنٹ میں بحث ہوئی تھی جس میں ممبران پارلیمنٹ نےکھل کر بات کی تھی اور سفارش کی تھی کہ معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہراس چیز پر پابندی لگائی جائے جو انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والی ہے ۔شراب پرپابندی کی حمایت کرنے والے ممبروں نے کہا تھا کہ شراب کی فروختگی سے جو آمدنی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ اثرات شراب کی فروخت کے نتیجے میں پڑتے ہیں ۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے دعویٰ کیا کہ شراب پرپابندی کا محنت کش طبقہ اور دلت خاندانوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا، کیونکہ یہ برادریاں اپنی اجرت کا ایک بڑا حصہ شراب پر خرچ کرتی ہیں۔تاہم مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے ایک رکن نے شراب پر پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے دلیل دی کہ امریکہ اور مدراس دونوں جگہ اس طرح کی ممانعتیں ناکام اور مہنگی ثابت ہوئی ہیں اور بہت سے لوگ شراب پیتے رہے جب کہ ریاست نے پابندی کو توڑنے والوں کو قید کرنے پر اضافی اخراجات اٹھائے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے دعوی کیا کہ پابندی شہریوں کی ذاتی آزادی کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ آدیواسی برادری کے ایک رکن نے دلیل دی کہ شراب پر پابندی آدیواسیوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔چاول سے تیار ہونے والی بیئر کی ایک مذہبی اہمیت ہے۔
مسودہ سازی کمیٹی کے چیئرمین نے اسمبلی کو یاد دلاتے ہوئے ان دلائل کا جواب دیا کہ آرٹیکل 38اور آرٹیکل 47 ہدایتی قوانین کا حصہ ہے۔حکومتیں تمام حالات کا جائزہ لینے کےبعد پابندی عائد کریں ۔ آدیواسی برادری کے ممبر کے ذریعہ اٹھائے گئے اعتراض کے سلسلے میں انہوں نے نوٹ کیا کہ آئین کا چھٹا شیڈول اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ضلع اور علاقائی قبائلی بورڈ کے ساتھ مشاورت کے بغیر کوئی قانون نافذ نہیں کیاجاسکتا۔آرٹیکل 47 میں حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ شہریوں کی صحت ،غذائیت اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نشیلی اشیا اور شراب پر پابندی عائد کی جائے۔ چناں چہ آزادی کے بعد گجرات ، منی پور، میزورم اور بہار میں شراب پر پابندی عائد کی گئی۔ مگر یہ تجربات بتاتے ہیں کہ پابندی کارگر نہیں ہوئی ہے۔بلکہ اس کی آڑ میں غیرقانونی شراب کی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے۔دیسی شراب اور اس سے ہونے والی اموت کو بھی اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ریاستوں میں پابندیاں ناکام کیوں ہورہی ہیں ، اس کی وجوہات کیا ہیں اس پر آگے سطور میں بات کی جائے گی مگر یہ کہنا کہ بہار جیسی ریاست میں شراب پرپابندی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے حقائق کے خلاف ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں عزم اور دیانت داری کی کمی کے باعث شراب پر پابندی کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تاہم بہار میں شراب پرپابندی کے فائدے بھی سامنے آئے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق بہار میں شراب پرپابندی کے ایک سال کے بعد ہی قتل اور گینگ ڈکیتیوں کی تعداد میں 2فیصدکمی واقع ہوئی۔فسادات کی تعداد میں 13فیصد کی کمی واقع ہوئی اور ٹریفک حادثات میں دس فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ معیشت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔دودھ کی فروخت میں دس فیصد پنیر کی فروخت میں دو سو فیصد دو پہیوں والی گاڑیوں کی فروخت میں تیس فیصد اور برقی آلات کی فروخت میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دیہاتوں میں کچے مکانات کی جگہ پختہ مکانات کی تعمیر میں تیزی آئی ہے ۔تاہم ایک سچائی یہ بھی ہے کہ شراب تک رسائی مشکل ہونے کی وجہ سے نشہ آور اشیا کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
شراب پر پابندیاں کیوں ناکام ہورہی ہیں؟
امریکی مورخ تھامس کوفی نے اپنی کتاب ’’دی لانگ تھرسٹ: پرہی بیشن اِن امریکہ ‘‘ میں 1920ءسے 1933ءکے درمیان امریکہ میں شراب پر پابندی کا ذکرکرتے ہوئےلکھا ہے کہ امریکہ میں شراب بندی کے فیصلے کو ’عظیم تجربہ‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ۔مگریہ تجربہ ناکام ہوگیا کیوں کہ ’’زہریلی شراب سے ہونے والی اموات کی شرح میں پورے ملک میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا۔ 1925ء میں شراب سے مرنے والوں کی تعداد 4,154تھی جو 1920ءمیں 14,560تک پہنچ گئی۔امریکی ماہر اقتصادیات، مارک تھورنٹن نے ’’شراب پر پابندی ایک ناکامی تھی‘‘ کے عنوان سےایک تحقیقاتی مقالہ لکھا کہ ’’یہ پابندی جرائم اور بدعنوانی کو کم کرنے، سماجی مسائل کے حل، ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے اور امریکہ میں صحت اور حفظان صحت کو بہتر بنانے کے لیے کی گئی تھی مگر ہر لحاظ سے یہ فیصلہ ناکام ہوگیا۔ تھورنٹن کی ممانعت پر تحقیق بھی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ کس طرح سنگین جرائم کی شرح میں بتدریج کمی کو غیر ارادی طور پر پابندی کی وجہ سے اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں قتل عام کی شرح میں پابندی سے پہلے کے دنوں میں 78 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
گجرات میں ریاست کی تشکیل کے بعد 1960ءسے ہی شراب پر پابندی عائد ہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح یہاں بھی آسانی سے شراب دستیاب ہے۔ناگالینڈ میں 1989ءسے شراب پر پابندی ہے مگر پڑوسی ریاست آسام میں فراہمی نے پابندی کو لاحاصل بنادیا ہے ۔ ناگالینڈ کے دیما پور سے آسام میں داخل ہونے والی سڑک پر، شراب کی دکانوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ میزورم کے ایکسائز اور نارکوٹکس کے وزیر آر لالزرلیانا نے مبینہ طور پر کہا تھا۔چونکہ پابندی سے صرف نقلی شراب کی فروخت میں اضافہ ہوتاہے، اس لیے ہم نے پابندی کو ہٹانے کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا ہے۔منی پور حکومت کی بھی کم وبیش یہی دلیل ہے۔بہار میں نیپال، بنگال ، جھارکھنڈ اوراترپردیش کی سرحد سے شراب دستیاب ہوجاتی ہے۔ ایسے میں کامیاب پابندی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔نئی دلی میں توانائی اور وسائل انسٹیٹیوٹ میں پائیداری اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں کام کرنے والے ماہر اقتصادیات ساحل پاریکھ کہتے ہیں کہ’’ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شراب پر یکسر پابندی سے ریاستوں کو اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیرالا میں جزوی طور پر شراب پر پابندی عائد ہے اس کے باوجود ریاست کو سالانہ سات ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔گجرات کو سالانہ دو سےتین ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ایکسائز کی وصولی میں بہار کو سالانہ چار ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہورہا ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شراب نوشی کے اپنے نقصانات بھی ہیں، اس سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نقصانات ہوتے ہیں ۔ماضی کے تجربات بتاتے ہیں پابندی نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس لیے شراب پر پابندی بتدریج ہونی چاہیے۔ان کے بقول قوانین اس وقت بہترین کام کرتے ہیں جب وہ اصلاحی ہوتے ہیں انتقامی قوانین زیادہ کام نہیں کرتے ہیں۔لوگوں کی ذہنیت کو راتوں رات تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور کم از کم غیر موثر پالیسیوں کے ذریعے جو انفرادی آزادی کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔اس لیے میرے خیال میں پہلے مرحلے میں شراب پر ٹیکس میں اضافہ کردیا جائے ۔اس سے شراب عام لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوجائے گی دوسرے یہ کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو الکحل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں نوجوانوں کی مدد اور ان کی کونسلنگ کے مراکز کھولنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
ماہر اقتصادیات جاوید عالم ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شراب پربتدریج پابندی کا مشورہ ناقابل عمل ہے،اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ریاستوں کا نظام شراب کے محصولات کی آمدنی پر منحصر نہیں ہے۔ریاستوں کے پاس اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے کئی راستے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکتی ہیں بلکہ شراب کی وجہ سے صحت کے مراکز پر جو بوجھ بڑھتا ہے اس سے چھٹکارا ملے گا اور صحت کے شعبے میں حکومت کے اخراجات میں کٹوتی ہوگی۔اہم بات یہ ہے کہ شراب پر پابندی کی وجہ سے غیر قانونی شراب کی فروختگی میں اضافہ اور زہریلی شراب سے اموات شراب بندی کی ناکامی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ نظام کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔زہریلی شراب سے ان ریاستوں میں بھی اموات ہوئی ہیں جہاں شراب پر پابندی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ شراب اور منشیات کے استعمال پر قومی پالیسی کی ضرورت ہے اور جب ملک بھر میں یکساں قوانین ہوں گے تب ہی پابندی کا کوئی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔چند ریاستیوں میں پابندی عائد ہو اور چند میں نہ ہو تو اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔سسٹم کی سست روی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ گجرات میں 1999ءسے 2009ءکے درمیان شراب پرپاپندی کی خلاف ورزی کرنے کے کل 80ہزار مقدمات درج ہوئے جن میں سے صرف نو فیصد کو سزا سنائی گئی۔ظاہرہے کہ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کویقین ہے کہ پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر اگر قانون کی زد میں آبھی گئے تو بھی کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوگا
عالمی سطح پرمنشیات کے کاروبار میں اضافہ
دنیا کے بیشتر ممالک میں نشیلی اشیاء پر پابندی عائد ہے ، اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق منشیات کی عالمی تجارت کی مالیت 650 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
ظاہر ہے کہ طاقتور گروپ جن کی سیاست میں پہنچ ہے ان کی مدد کے بغیر یہ غیر قانونی کاروبار اس طرح پھل پھول نہیں سکتا۔
بھارت میں منشیات پر قابو پانے کے لیے مستقل ایک آزاد ایجنسی ہے مگر رپورٹیں بتاتی ہیں کہ بھارت میں سال بہ سال منشیات استعمال کرنے والوں میں تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔آل انڈیا میڈیکل سائنس کےذریعہ نیشنل ڈرگ ڈیپینڈنس ٹریٹمنٹ سنٹرکی رپورٹ کے مطابق 2004ءمیں بیس سے تیس ہزار افراد اوپیڈ استعمال کرتے تھے مگر 2018ءمیں استعمال کرنے والوں کی تعداد 2.3کروڑ ہوگئی ہے ۔2004ءمیں افیون استعمال کرنے والوں کی تعداد بیس ہزار اور ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد نو ہزار تھی مگر محض بارہ سال بعد یعنی 2018ءمیں ہیروئین اور افیون کا استعمال کرنے والوں کی تعداد ڈھائی لاکھ ہوگئی۔
پنجاب کی ریاستی حکومت نے 2015ء میں منشیات کے استعمال کا ایک مطالعہ شروع کرایا تھا جس نے پایا گیا کہ ریاست میں دو لاکھ تیس ہزار افراد منشیات کے استعمال کرنے والے تھے۔ یعنی ریاست میں ہر ایک لاکھ افراد میں 836 منشیات استعمال کرنے والے ہیں۔ سماجی انصاف اور بااختیار بنانے کی وزارت کے مطابق قومی سطح پر ہر ایک لاکھ آبادی پر دو سو پچاس افراد نشہ کی لت کا شکار ہیں۔
بھارت میں، بھنگ، ہیروئن اور افیون سب سے زیادہ استعمال ہونے والی منشیات ہیں لیکن میتھمفیٹامین کا بھی استعمال زیادہ ہونے لگا ہے۔ منشیات کے انجیکشن لگانے والوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ ہے، لیکن غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پچاس لاکھ ایک درست اعداد و شمار ہیں۔2019ء میں بھارت میں مادوں کے استعمال کی حد اور طرز پر قومی سروے کے مطابق، ملک کی تقریباً 2.1فیصد آبادیعنی 2.62کروڑ افرادافیون کا استعمال کرتے ہیں۔ جس میں افیون (یا اس کی مختلف شکلیں جیسے پوست کی بھوسی جسے ڈوڈا/پھکی کہا جاتا ہے) شامل ہیں۔ ہیروئن، اور فارماسیوٹیکل اوپیئڈز) استعمال کرنے والے شامل ہیں۔ 2019ء کے قومی سروے نے یہ بھی دکھایا کہ 10-75 سال کی عمر کے تقریباً 2.6فیصد ہندوستانی (3.1 کروڑ افراد) بھنگ، گانجہ اور چرس استعمال کرتے ہیں۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک میں پچھلی دہائی میں منشیات کے استعمال اور شراب کی لت کی وجہ سے خودکشیوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ سال 2015ء میں خودکشی کے 3,347واقعات رپورٹ ہوئے اور 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 7,860 ہو گئی۔
نشہ خوری اور منشیات کےنفسیاتی اثرات
ثقافی اقدار میں تبدیلی، تعلیم اور روزگار کے مواقع میں سخت مقابلہ آرائی ، خاندان پر معاشی بوجھ، والدین کی عدم توجہی ، تنہائی کے احساسات کی وجہ سے بچے آسانی سے منشیاتی گروہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاپولیشن کونسل، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور پیکارڈ فاؤنڈیشن کے ذریعہ پروجیکٹ کے تحت جمع کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 19-15سال کے درمیان کے لڑکے منشیات کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ منشیات کے استعمال کا اثر نوعمروں کی نفسیاتی صحت پر سب سے زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے رویے میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آتی ہیں، جن میں موڈ کی خرابی، ڈپریشن، اضطراب، سوچ کی خرابی جیسے شیزوفرینیا، نیز شخصیت کے امراض جیسے غیر سماجی شخصیت وعادت شامل ہے۔ جوانی میں تمباکو (نیکوٹین) کا استعمال دماغ کی نشوونما پر طویل مدتی خطرہ پیدا کرتا ہے کیونکہ نکوٹین Synapses کے بننے کے طریقے کو تبدیل کرتا ہے جو توجہ اور سیکھنے کو کنٹرول کرنے والے حصوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تقریباً پچیس سال کی عمر تک دماغ کی نشوونما جاری رہتی ہے اور جوانی کے دوران دماغ کی نشوونما مکمل نہیں ہوتی اور تمباکو کے دھوئیں کے نقصان دہ اثرات کا شکار ہو جاتا ہے۔ منشیات کے استعمال کے اسباب میں دوستوں، خاندان یا رشتہ داروں کے ساتھ جھگڑے کے ساتھ ساتھ حادثات اور صحت کی شدید خرابیاں بھی شامل ہیں، جن میں سے کچھ نے اپنی ملازمتیں بھی کھو دی ہیں یا خراب کارکردگی کی وجہ سے اسکول چھوڑ نے پر مجبور گئے ہیں۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تین فیصد نوجوان جنہوں نے منشیات کا استعمال کیا ہے وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے جیسے چھوٹی موٹی چوری، سرکاری اور پرائیوٹ املاک میں توڑ پھوڑ جیسے جرائم شامل ہیں ۔گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی کے مطابق، صرف 2017 میں غیر قانونی منشیات کے استعمال کی وجہ سےدنیا بھر میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے ۔جب کہ بھارت میں یہ تعداد ایک اندازے کے مطابق بائیس ہزار تھی۔ان حالات میں والدین اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔بچوں کو تنہائی کی طرف نہ دھکیلیں ، بچوں کی نگرانی کریں، ان کی عادات پر توجہ دیں ۔معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کے آس پاس غیر قانونی کاروبار کو فروغ ہونے نہ دیں ۔
اس حقیقت کا ادارک بھی ضروری ہے کہ بری عادت جب لت میں تبدیل ہوجاتی ہے اس وقت یہ بیماری بن جاتی ہے۔بیماری کا شکار افرادسے نفرت نہیں بلکہ مخلصانہ انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ نشے سے متعلق زیادہ تر لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ عادی افراد کے پاس انتخاب ہوتا ہے۔ حقیقت میں، یہ ایک دائمی عارضہ ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ نشہ کرنے والا یہ جاننے کے باوجود کہ نشہ سے اس کی صحت کو نقصان پہنچے گا مگر وہ نتائج کی پروا کیے بغیر اس کا استعمال کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ عادی وہ مریض ہوتا ہے جو اپنی عادت کا اس قدر غلام بن جاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ ایسے فرد کو صحت یاب ہونے کے لیے پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔منشیات کی لت نہ صرف نشہ کرنے والوں کو متاثر کرتی ہے بلکہ خاندانوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ خاندان کے افراد کو سماجی نتائج، ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بہت زیادہ مالی بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ اس سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور اکثر ارکان بے بس یا افسردہ ہوجاتے ہیں۔ایسے معاملات میں جہاں عادی فرد، خاندان کا واحد کمانے والا ہوتا ہے اور گھر کا پیسہ منشیات پر خرچ ہوتا ہے اور خاندان کے افراد کو اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔
(نوراللہ جاوید صحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)
[email protected]
فون:8777308904

 

***

 ثقافی اقدار میں تبدیلی، تعلیم اور روزگار کے مواقع میں سخت مقابلہ آرائی ، خاندان پر معاشی بوجھ، والدین کی عدم توجہی ، تنہائی کے احساسات کی وجہ سے بچے آسانی سے منشیاتی گروہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔پاپولیشن کونسل، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور پیکارڈ فاؤنڈیشن کے ذریعہ پروجیکٹ کے تحت جمع کردہ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ 19-15سال کے درمیان کے لڑکے منشیات کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ منشیات کے استعمال کا اثر نوعمروں کی نفسیاتی صحت پر سب سے زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے رویے میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آتی ہیں، جن میں موڈ کی خرابی، ڈپریشن، اضطراب، سوچ کی خرابی جیسے شیزوفرینیا، نیز شخصیت کے امراض جیسے غیر سماجی شخصیت وعادت شامل ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023