اداریہ

’’مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو‘‘

جب ذہنوں میں نفرت بھری ہو تو انسان کا ذہن مثبت رخ پر کام ہی نہیں کر سکتا۔ اس کی یہ منفی ذہنیت ہر معاملے کو اپنے رنگ سے دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہے اور بالآخر وہ کسی تعمیری کام کے قابل نہیں رہ جاتا۔ ہمارے ملک کے ایک طبقے کی ذہنیت کچھ اسی طرح کی بن گئی ہے۔ گزشتہ دنوں صوبہ اتر پردیش کے ضلع بریلی کے ایک گاوں کے سرکاری اسکول میں علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ‘بچے کی دعا’ پر پیدا ہونے والا تنازعہ بھی اسی کیفیت کا ایک نمونہ ہے۔ اقبال نے یہ نظم 1908ء میں لکھی تھی، اپنے موضوع، اسلوب، انداز بیان اور ڈکشن کی وجہ سے یہ نظم بچوں اور بڑوں دونوں میں کافی مقبول ہوئی۔ ایک طویل عرصے سے یہ نظم مختلف سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں دعا کے طور بچوں سے پڑھوائی جاتی ہے۔ لیکن جو لوگ ملک میں نفرت اور دشمنی کے ماحول کو فروغ دے کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کر رہے ہیں انہیں اس دعا اور اس میں استعمال کردہ الفاظ میں بھی تبدیلی مذہب کی "سازش” نظر آگئی اور انہوں نے ایک بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ بریلی کے متعلقہ اسکول میں ہر روز کی طرح صبح کی اسمبلی کے موقع پر بچے جب اقبال کی یہ نظم پڑھ رہے تھے، اس کی ویڈیو کسی ذریعے سے سوشل میڈیا پر عام ہو گئی۔ اس ویڈیو میں بچے اقبال کی مذکورہ نظم کا وہ مصرعہ پڑھ رہے تھے جس میں دعا کی گئی ہے کہ میرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو۔ بس کیا تھا ان مخصوص ذہنیت کے لوگوں نے جیسے ہی اللہ کا لفظ سنا، ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ اسکول کے اساتذہ بچوں سے زبردستی یہ دعا پڑھوا رہے ہیں، اس دعا کے ذریعے بچوں کا مذہب تبدیل کرنے کی سازش چل رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ وشو ہندو پریشد کے ذمہ داروں نے ایک جانب محکمہ تعلیم میں شکایت کی اور دوسری جانب متعلقہ پولیس تھانے میں ایف آئی آر درج کروادی۔ اتر پردیش حکومت کو تو اس طرح کے مواقع کی جیسے تلاش رہتی ہے، وہ فوری حرکت میں آگئی اور متعلقہ استاد کو خدمات سے برطرف کر دیا گیا جنہیں پولیس نے گرفتار بھی کرلیا جب کہ پرنسپل کو، جو اس وقت رخصت پر تھیں معطل کر دیا گیا۔ حالاں کہ مذکورہ ٹیچر کا کہنا ہے کہ یہ نظم اسکول کے نصاب میں شامل ہے اور صبح کی دعا کے موقع پر یہ دعا پڑھائی جاتی رہی ہے۔ محکمہ تعلیم، اتر پردیش کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ صبح کی اسمبلی کے موقع پر جو چیزیں لازم ہیں یہ نظم ان میں شامل نہیں ہے اس لیے اس کا پڑھنا ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ وشو ہندو پریشد کے جن افراد نے اس نظم کے پڑھنے پر شکایت کی ہے انہوں نے الزام لگایا ہے یہ اس نظم کے ذریعے ہندووں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نظم کا تعلق نہ تو مذہب سے ہے اور نہ کسی خاص طبقے کی اس میں نمائندگی کی گئی ہے بلکہ ایک معصوم بچے کی زبان سے ایک اچھی اور لوگوں کو فیض پہنچانے والی زندگی کی دعا مانگی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور بات جو قارئین کے لیے دل چسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ اقبال نے یہ دعا انگریزی کے ایک شاعر میٹیلڈ بیتھم ایڈورڈس کی مشہور نظم ‘اے چائلڈ ہائم’ سے متاثر ہو کر اسے اردو کا روپ عطا کیا تھا۔ لیکن مسلمانوں سے نفرت اور تعصب نے انہیں ہر معاملے کو اسی عینک سے دیکھنے کا عادی بنا دیا ہے۔ چنانچہ ایسے ہر واقعہ کو وہ ملک کا، ہندو قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالاں کہ اس وقت ہمارا ملک غربت، بے روزگاری، سست معاشی ترقی، رشوت خوری، اخلاقی بگاڑ اور ان جیسے بے شمار سماجی مسائل کا شکار ہے۔ لیکن ایک نفرت کا علم بردار طبقہ ان تمام حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ سے ہٹا کر انہیں اقبال کی نظم یا فلموں کے گانوں کی طرف موڑ رہا ہے تاکہ عوام انہی میں غرق رہیں اور مقتدر طبقہ اقتدار کے مزے لوٹتا رہے۔
عوام سیاست کے اس ناپاک کھیل کو جتنی جلد سمجھ لیں ان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہو گا۔