کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف پورے ہندوستان میں مسلم خواتین نے کیا احتجاج
نئی دہلی، فروری 15: کرناٹک میں حجاب پر پابندی سے متعلق واقعے نے پورے ملک میں شدید اثرات مرتب کیے جس کے سبب دہلی، اتر پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، بنگال اور کشمیر سمیت پورے ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔
حجاب کے حق میں مظاہرے کرنے والی مسلم خواتین نے دیگر کمیونٹیز کے آزادی پسندوں کے ساتھ حجاب پر پابندی کو اپنی مذہبی آزادی کے حق پر براہ راست حملہ قرار دیا۔
کالج جانے والی مسلم لڑکیوں کی طرف سے حجاب پہننے کا معاملہ اس وقت ایک بڑے بین الاقوامی اور قومی سطح پر اٹھا جب زعفرانی شالیں اور کپڑے پہنے دائیں بازو کے شدت پسند گروہوں نے کرناٹک کے مختلف تعلیمی کیمپس میں حجاب پہننے والی مسلم لڑکیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔
مسلم کمیونٹی کے عمائدین اور دانشوروں نے دائیں بازو کے مظاہرے کو دہشت گردی کا آلہ کار قرار دیا ہے جس کا مقصد مسلم اقلیتوں کے مذہبی حقوق پر حملہ کرنا ہے۔
کرناٹک کے منڈیا میں پی ای ایس کالج کی طالبہ مسکان خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد یہ مسئلہ بین الاقوامی سرخیوں میں آگیا۔
اس واقعے نے وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والی بی جے پی حکومت اور کرناٹک کی ریاستی حکومت کی بین الاقوامی مذمت کو جنم دیا۔ بی جے پی دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔ بی جے پی کے زیادہ تر لیڈروں کا پس منظر آر ایس ایس کا ہے جن میں پی ایم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ شامل ہیں۔ وہ عوامی طور پر آر ایس ایس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
دہلی میں سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (SFI) کے بائیں بازو کے کئی کارکنوں کو جمعہ کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ کرناٹک میں حجاب کے تنازع پر مسلم طالبات کی حمایت میں احتجاج کر رہے تھے۔
کشمیر میں برقع پوش خواتین انوکھے انداز میں حجاب کی حمایت میں نکل آئیں۔ انھوں نے سرینگر میں کشمیر یونیورسٹی کے باہر حجاب پہننے والی طالبات کو پھول پیش کیے۔ برقع پوش خواتین میں سے ایک نے کہا ’’یہ حجاب پہننے والوں کی تعریف کرنے کا اشارہ ہے۔ حجاب پہننا ہمارا حق اور ہمارا وقار ہے۔ یہ ہماری شناخت بھی ہے۔‘‘
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین (جے این یو ایس یو) کی صدر آئشے گھوش سمیت دیگر کو دہلی پولیس نے حراست میں لے لیا۔ اس کے علاوہ بھگت سنگھ چھاتر ایکتا منچ، ایس آئی او اور دیگر طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے پانچ کارکنوں کے خلاف دہلی پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے جنھوں نے دہلی یونیورسٹی میں چھتر مارگ پر احتجاج کیا تھا۔ نئی دہلی کے چانکیہ پوری میں واقع کرناٹک بھون میں احتجاج کی کال دیے جانے کے بعد 50 سے زائد طلباء کو حراست میں لے لیا گیا۔
طلبا کے مطابق یہ کارروائی سی اے اے-این آر سی احتجاج کے دوران پولیس کے کریک ڈاؤن کی یاد دلاتی ہے۔
دریں اثنا مغربی بنگال میں ایک اسکول کے پرنسپل نے مبینہ طور پر ایک طالب علم سے کہا کہ وہ اسکول کے کیمپس کے اندر حجاب نہ پہنے۔ یہ واقعہ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے سوتی علاقے میں پیش آیا۔ اس کے بعد مقامی لوگوں نے اسکول کے سامنے زبردست احتجاج کیا اور مذہبی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے ناکہ بندی کردی۔
دریں اثناء کولکاتا کی عالیہ یونیورسٹی میں حجاب کے حامی مظاہرے ہوئے، جو ریاستی حکومت کے ماتحت ایک خود مختار یونیورسٹی ہے جہاں طلبا نے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔
بنگال اماموں کی ایسوسی ایشن نے حجاب پر پابندی کی مذمت کی اور کرناٹک حکومت کے اس فیصلے کو سخت اور غیر انسانی قرار دیا جس کا مقصد خود غرض سیاسی فائدے کے حصول کے لیے سماج کو تقسیم کرنا ہے۔
ادھر مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں حجاب میں ملبوس لڑکیوں نے حجاب پہن کر انوکھے انداز میں احتجاج کیا اور مذہبی آزادی کے حق کا پیغام عام کرنے کے لیے فٹ بال اور کرکٹ کھیلی۔