!!ملک میں بڑھتا ہوا مِس انفارمیشن اور ڈِس انفارمیشن کا کھیل

سی اے اے اور الیکٹورل بانڈز جیسے مسائل ملک کی سالمیت کے لیے نقصان دہ

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بھارت کو گمراہ کن معلومات میں اضافے کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے:جرمنی رپورٹ
اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن کے تازہ ترین تخمینوں پر مبنی ڈیٹا جسے ورلڈ میٹر انفو نے شائع کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے کل 234 ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب میں بھارت 2023 میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ یہ ڈیٹا اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی امور کے محکمہ، آبادی ڈویژن کی طرف سے اعداد و شمار کی وضاحت پیش کرتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا کی پانچ سب سے زیادہ آبادی والے ممالک پاکستان، انڈونیشیا، امریکہ، چین اور بھارت ہیں جن میں بھارت کی آبادی 2023 کے اعداد و شمار کی روشنی میں 1,428,627,663 ہوگئی ہے جبکہ چین کی آبادی 1,425,671,352 ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے ملک کی آبادی چین سے 29.56 لاکھ زیادہ ہو چکی ہے۔ آج سے چند سال پہلے تک چین کی آبادی سب سے زیادہ تھی لیکن اب بھارت آگے نکل گیا ہے۔ وہیں آبادی میں سب سے اوپر آنے والے جن پانچ ممالک کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کا دنیا کی آبادی میں تناسب کچھ اس طرح ہے۔پاکستان 2.99 فیصد، انڈونیشیا 3.45فیصد، امریکہ 4.23فیصد، چین 17.72فیصد اور بھارت 17.76فیصد۔ان اعداد و شمار کی روشنی میں بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی الوقت دنیا میں بھارت نہ صرف سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کے اہم ممالک اس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں بلکہ اس میں موجود 28 صوبے اور 8 یونین ٹیریٹریز (مرکز کے زیر انتظام علاقے) کی مختلف النوع ثقافت، معاشرت، تمدن اور مذاہب پر مبنی معاشرہ بھی دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہ بات بھی غالباً آپ کے علم میں ہوگی کہ دنیا کے 234 ممالک میں سے صرف چار ایسے ممالک ہیں جن میں ہندوستانی موجود نہیں ہیں۔ ان میں جنوبی یورپ کا ایک ملک اور مشرقی افریقہ کے تین ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے تمام ہی ممالک میں ہندوستانی موجود ہیں یعنی ان کی تہذیب، کلچر، زبان اور مذہب بیرونی ممالک کے لوگوں کو متعارف کروانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں رونما ہونے والے حادثات اور واقعات بھی دنیا کو کبھی مثبت تو کبھی منفی انداز میں سوچنے پر مجبور کرتے ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فی الوقت یہاں کیا چل رہا ہے اور دنیا کس طرح ان واقعات کو دیکھ رہی ہے۔
ابھی ہم دو واقعات کا تذکرہ کریں گے جس سے تمام ہندوستانی بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر متاثر ہیں اور یہ دو واقعات اس وقت اکثریت کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہے ہیں۔ ان میں ایک واقعہ سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) جیسے قانون کے نفاذ سے متعلق ہے تو دوسرا الیکٹورل بانڈز کا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون CAA) 2019) کے قوانین کو نافذ کر دیا گیا ہے، جس سے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر دستاویزی غیر مسلم تارکین وطن کو فاسٹ ٹریک شہریت کی اجازت دی گئی ہے۔ تاخیر کی وجہ گزشتہ سالوں میں بڑے پیمانے پر مظاہروں اور کووِڈ-19 وبائی مرض کو قرار دیا گیا ہے۔ ان قوانین کا اطلاق ان علاقوں پر نہیں ہوتا جو آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل ہیں یا ان ریاستوں پر جن کا اندرون لائن پرمٹ نظام (inner-line permit regim) ہے، جبکہ حکومت انسانی اور تاریخی بنیادوں پر CAA کا دفاع کرتی ہے۔ اور انتخابی بانڈز اسکیم جسے الیکٹورل بانڈ اسکیم بھی کہا جاتا ہے، اس پر پابندی لگانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ فوری اور طویل مدتی نقطہ نظر سے کافی اہم ہے۔ اس فیصلے کا نہ صرف سیاسی جماعتوں کو ملنے والے عطیات اور اس کے طریقوں پر فوری اثر پڑے گا بلکہ اس نے سیاست میں شفافیت اور جمہوریت میں عوام کے حق میں معلومات کی اہمیت کو بھی واضح کر دیا ہے۔ یہ اسکیم 2؍ جنوری 2018 کو بی جے پی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے لائی گئی تھی جس پر شروع سے ہی اعتراض کیا جا رہا تھا اور کئی بار اس کی خامیوں کی طرف نشان دہی بھی کی گئی تھی۔ مگر مودی حکومت معترضین کو خاطر میں لانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھی اور ہمیشہ اسکیم کا دفاع کرتی رہی۔ حالانکہ اس اسکیم میں سیاسی جماعتوں کو فنڈ دینے کے عمل میں غیر شفافیت کا عنصر آغاز ہی سے جھلک رہا تھا۔ اس میں کارپوریشنوں اور افراد کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) سے الیکٹورل بانڈز خرید کر سیاسی پارٹیوں کو گم نام طریقے سے رقم عطیہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مودی حکومت نے اس اسکیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے مختلف قوانین جیسے عوامی نمائندہ ایکٹ 1951، کمپنی ایکٹ 2013، انکم ٹیکس ایکٹ 1961 اور ایف سی آر اے 2010 میں ترمیم کی تھی۔ ترمیم سے قبل کسی بھی کمپنی کو اپنے منافع کی زیادہ سے زیادہ حد 7.5 فیصد ہی بطور بانڈز عطیہ کرنے کی اجازت تھی مگر اس میں ترمیم کر کے اس کی حد بڑھا کر منافع کا سو فیصد عطیہ کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد جہاں ملک کا انصاف پسند طبقہ اور طلباء تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور ملک کا مذہبی اور سنجیدہ طبقہ اس امتیازی سلوک کرنے والے قانون کے نفاذ پر گہرے تشویش کا اظہار کر رہا ہے وہیں کیرالا کے مفتی شیخ ابوبکر احمد نے بھی اس متنازعہ اور امتیازی سلوک کرنے والے قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی ساکھ کو داغ دار کرنے اور شمولیت اور تکثیریت کی اقدار کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا، میں مرکزی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ CAA پر اپنے موقف پر نظر ثانی کرے اور اس تفرقہ انگیز قانون سازی کو واپس لینے کے لیے اقدامات کرے۔ مسلم رہنماؤں نے سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون) کے خلاف ایک مشترکہ پریس بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات سے عین قبل اس قانون کے نفاذ کا اعلان کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب انتخابی فائدے حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ناپسندیدہ عمل اور قابل مذمت فیصلہ ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی شقیں متعارف کرائی گئی ہیں جو ہندوستانی آئین میں درج مساوات اور سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں میں مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر افراد کے درمیان امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 2 کی (b) شق کا اندراج کر کے تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی یا عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان میں سے جو دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ تارکین وطن جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر اس ایکٹ میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے جس سے شہریوں میں مساوی حقوق کے اصول کو شدید دھچکا لگا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔ وہیں سپریم کورٹ نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 (سی اے اے) پر روک لگانے کے لیے داخل عرض داشتوں پر سماعت سے اتفاق کرتے ہوئے اس کے لیے 19؍ مارچ 2024 کی تاریخ مقرر کی ہے۔ سینئر وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے روبرو اس مسئلے کی اہمیت کا ذکر کیا جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اگلے ہفتے سماعت کے لیے درج کر دیا جائے گا اور 19؍ مارچ کی تاریخ مقرر کی۔واضح رہے کہ 2019 سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی دو سو سے زیادہ عرض داشتوں میں سی اے اے کی مختلف دفعات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سی اے اے کو دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا لیکن مرکزی حکومت نے پیر کو اس کے نافذ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ جس کے بعد ایک بار پھر سے ملک کے انصاف پسند طبقوں میں بے چینی اور تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے۔
دوسری جانب الیکٹورل بانڈز متعارف کرانے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کی سیاست میں استعمال ہونے والی غیر قانونی دولت کا راستہ روکا جا سکے لیکن ان بانڈز کے اجرا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے اور اس اقدام کو ’جمہوریت میں بگاڑ‘ سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ انتخابات پر نظر رکھنے والی تنظیم، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے مطابق 2019 میں ملک کی سات بڑی سیاسی جماعتوں کو ملنے والی فنڈنگ کا 62 فیصد حصہ الیکٹورل بانڈز سے آیا تھا۔ اے ڈی آر کے مطابق گزشتہ چھ برسوں کی آڈٹ رپورٹس سے انکشاف ہوا ہے کہ اس دوران بی جے پی کو 65 ارب روپے بطور چندہ ملے ہیں جبکہ کانگریس کو 11 ارب روپے سے زائد، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کو 10 ارب سے زائد ملے ہیں۔ وہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) واحد پارٹی ہے جس نے الیکٹورل بانڈز سے چندہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نیلم مہاجن کہتی ہیں کہ جب تمام تفصیلات منظر عام پر آجائیں گی تو اس کی روشنی میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ بی جے پی جو شفافیت کی بات کرتی تھی خود اس کا دامن صاف نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے اَپ لوڈ کیے گئے الیکٹورل بانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز اور میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ اپریل 2019 سے جنوری 2024 تک بانڈ کے سر فہرست خریدار رہے ہیں، جنہوں نے بالترتیب 1368 کروڑ اور 980 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دونوں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ (آئی ٹی) کے نشانے پر رہ چکے ہیں۔ بی بی سی نیوز بیورو کی رپورٹ کی روشنی میں فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز نامی کمپنی کے مالک سنٹیاگو مارٹن ہیں جو بھارت میں ’لاٹری کنگ‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں میں الیکٹورل بانڈز کے ذریعے متعدد سیاسی جماعتوں کو بھاری امداد دی ہے۔
2013 میں مارٹن کی اہلیہ کے خلاف جعلی دستاویزات بنا کر کالے دھن کو سفید کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اسی برس لیما روز نے تمل ناڈو میں ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جو آگے جا کر بی جے پی کی اتحادی پارٹی بن گئی۔
اس پوری گفتگو کے ساتھ ہی DW یعنی ڈوئچے ویلے (Deutsche Welle) جرمنی کی یہ رپورٹ بھی سامنے رکھیے جس میں ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت ان ملکوں میں سر فہرست ہے جنہیں غلط اور گمراہ کن معلومات میں اضافے کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف حکم راں جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر "مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن” کا غیر معمولی استعمال کرتی ہیں۔ رپورٹ جو کہ عالمی خطرات کو سمجھنے کے حوالے سے ورلڈ اکنامک فورم کی پہل کا حصہ ہے، کا مقصد بڑے خطرات کی نشان دہی کرنا اور ان سے نمٹنے کے ممکنہ طریقوں کا پتہ لگانا ہے۔ یہ دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ ہزار ماہرین کی آراء کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ یعنی ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں کذب، جھوٹ اور فریب کا گھناؤنا جال ہر چہار جانب پھیلا ہوا ہے اور اس جال میں ہر وہ شخص بہت آسانی کے ساتھ پھنس سکتا ہے جو تصدیق کے بغیر خبر کو لے اڑے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بلا تصدیق خبروں کو نہ پھیلائیں اور نہ ہی ایسی چیزوں کے پھیلانے کا ذریعہ بنیں جس سے سماج میں دراڑ پیدا ہو، جو معاشرے کو منتشر کرنے کا ذریعہ بنے اور جس سے ملک کمزور ہوجائے۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اہل اقتدار یا اقتدار کی خواہش رکھنے والوں میں کس پر بھروسہ کیا جائے اور کسے آئندہ مسائل کے حل کے لیے توجہ کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔
***

 

***

 ڈوئچے ویلے (Deutsche Welle) جرمنی کی یہ رپورٹ بھی سامنے رکھیے جس میں ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت ان ملکوں میں سر فہرست ہے جنہیں غلط اور گمراہ کن معلومات میں اضافے کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب بھارت میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف حکم راں جماعت ہی نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی وقتی سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر "مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن” کا غیر معمولی استعمال کرتی ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024