مولانا حفیظ الرحمن اعظمی مرحوم
کسی کسی کو کبھی کبھی میری کوئی نہ کوئی تحریر پسند آتی ہے تو وہ میرے اساتذہ کے نام چاہتے ہیں۔ اس کا مختصر جواب اس کتاب کے ’’حرف اعتراف‘‘ میں تحریر ہے، لیکن ایک نام جو بہت اہم ہے چھوٹ گیا۔ اس کا تذکرہ میرا قرض بھی ہے اور فرض بھی۔ عربی میں کہتے ہیں: من علمک حرفا فھو معلمک۔ ’’جس نے تمہیں ایک حرف بھی سکھایا وہ تمہارا استاذ ہے‘‘، جب کہ محمد مسلم صاحب بھوپالی کی سرپرستی میں میں نے کئی ماہ گزارے۔ آپ روزنامہ ’دعوت‘ دلی کے مدیر اعلیٰ تھے۔ آپ کی زیر نگرانی ایک ٹیم تھی جس میں مولانا محمد سلمان ندوی، محمد سلیمان اعظمی، محمد صغیر بیدار بھوپالی اور شکیل انور صاحب حیدرآبادی کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ مسلم صاحب کی نظر کرم سب پر رہتی تھی، اور میرا حسن ظن ہے کہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی رہتی تھی، کیوں کہ میں نیا تھا، کام میں کچا اور عمر میں بچہ تھا۔ آپ نے مجھے بہت کچھ سکھانے کی کوشش فرمائی۔ ایک انگریزی مجلہ کا مضمون اردو میں ترجمے کے لے دیا،میں اس کا قابل نہیں تھا، مگر آپ کے اصرار کے آگے میری ایک نہ چلی۔ جوں توں کرکے بادل ناخواستہ دے دیا۔ آپ نے پتا نہیں، کتنی اصلاح اور کانٹ چھانٹ کے بعد اسے اشاعت کے لائق بنادیا۔
بدنام رفیع اس وقت کے ایک مشہور افسانہ نگار تھے۔ ان کے مضامین اور افسانے ترقی پسند جرائد و مجلات کی زینت ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک اصلاحی ناول ’ہوتی ہے سحر پیدا‘ تبصرہ کے لیے روانہ کیا۔ مسلم صاحب نے یہ سخت امتحان کا کام میرے حوالے فرمایا۔ امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے میں نے ناول کئی بار پڑھ کر ڈکشنریوں کی مدد سے زبان و بیان کی کچھ اغلاط نکال لیں۔ ماہر القادری صاحب کے انداز میں پہلا رخ لکھ کر خوبیاں گنائیں اور دوسرے رخ میں کم زوریاں دکھائیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ مسلم صاحب نظر ثانی کرکے میری بھی اصلاح فرمائیں گے مگر آپ نے اسے جوں کا توں شائع کرکے میرا اعتماد بڑھایا۔ پھر تو کئی ایک نئی کتابیں مجھے اس کام کے لیے دینے لگے۔ ساٹھ سال پرانی بات ہے۔ کتابوں کےنام ذہن سے نکل گئے۔ صرف حافظ فاروق بانسپوری کا ایک دیوان یاد رہ گیا۔
آپ کی ہمت افزائی اور حوصلہ فرمائی میرے بہت کام آئی۔ آپ بڑی نیکیوں کے مالک تھے۔ آپ کی خوبیاں اور قربانیاں احباب پر ظاہر تھیں۔ بہت سارے دکھ اور غم سایے کی طرح آپ کے ہم رکاب تھے۔ صحت خراب تھی، گھر کی اقتصادی حالت صبر آزما تھی، قوم و ملت کی زبوں حالی کا درد ان سب سے ماسوا تھا۔ اندر سے گھل رہےتھے مگر ہر ایک سے کھل کر ملتے اور آپ کا دل آویز متبسم چہرہ پریشانی کا پردہ دار ہوتا۔ دفتر میں لوگ آپ کی شخصیت کا تدکرہ ایک افسانوی کردار کی طرح کرتے۔ سر سے پیر تک آپ کے لباس کی قیمت ایک روپیہ بتاتے کہ آپ قطر روڈسے استعمال شدہ قمیض پاجامہ، ٹوپی وغیرہ خرید لیتے ہیں۔ تن پر ممکن ہے ایک روپیے کا لباس رہتا ہو، مگر من بڑا دھنی اور غنی تھا۔ اسی لباس میں آپ پارلیمنٹ میں خصوصی اجلاس میں دھڑلے سے پہنچ جاتے، ایم پی کے گھرو ںمیں آمد و رفت رکھتے، دفتر میں آنے والے لکھ پتی، کروڑ پتی کا استقبال فرماتے۔ مرعوب ہونا تو آپ کی سرشت اور ڈکشنری میں تھا ہی نہیں۔ کئی مسلم ممبروں کی قیام گاہوں پر تشریف لے جاتے۔ کشمیر کے عبدالرحمن صاحب اور امروہہ کے ایک ممبر کے یہاں کبھی مجھے بھی ہم راہ لے جاتے۔ عبدالرحمن صاحب تجرد کی زندگی بسر کرتے تھے۔ امروہہ کے ممبر کے پاس تشریف لے جاتے تو ان کے گھر کی خواتین بھی آپ سے استفادے کی خاطر شریک مجلس ہوجاتیں اور سوال پر سوال کیے جاتیں۔ پیشانی پر ہاتھوں کا چھجا جمائے گھنٹوں باتیں کرتے چلے جاتے، کیا مجال جو ایک منٹ کے لیے بھی گردن اونچی کریں اور نگاہ اوپر اٹھائیں۔
آپ کا ظرف و تحمل بڑا اونچا تھا۔ خدمت خلق کا حلقہ، مخلوق کسی بھی مذہب کی ہو، بہت وسیع تھا۔ واقعات کئی ایک ہیں۔ طویل بھی اور سننے والوں کو شرم سار بھی کرنے والے۔ کئی لاوارث ارتھیوں کو آپ نے کندھا دیا۔
دعوت کے خاص خاص مضامین کی پروف ریڈنگ بھی میرے ذمے تھی، جس میں مسلم صاحب کا اداریہ بھی شامل ہوتا۔ ایک دن میں اداریہ میں ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘ لکھکر اصلاح جڑی دکہ ’’دھوبی کا کتا‘‘ نہیں ’’گدھا‘‘ کیوں کہ جنوب میں ایسے ہی بولا جاتا ہے اس پر بھی آپ مسکرا کر رہ گئے۔
میں کرسی پر بیٹھ کر پروف پڑھ رہا ہوتا ۔ آپ پیچھے کی جانب سے چپکے سے تشریف لاتے۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے دونوں کندھوں کو دباکر پکڑلیتے کہ میں کھڑا ہونے کی کوشش نہ کروں۔ دکھ بھرے اندازمیں سوال پر سوال کیے جاتے۔ مزاج کیسا ہے؟ گھر سے خط آیا؟ سب خیریت ہے؟ کھانے کے لیے پیسے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ میں اکتا جاتا اور ان سب سوالات کی وجہ دریافت کرتا تو فرماتے ’’کل کے اخبار میں کچھ غلطیاں رہ گئیں تھیں‘‘ میں حیران کہ آپ کی جگہ کوئی بھی چیف ہوتا ، دفتر میں حاضر ہونے کا حکم دیتا اور سخت تنبیہ کرتا اور آئندہ نہ دہرانے کی تاکید کرتا۔
ایسی ناقابل فراموش بے شمار یادیں ہیں۔ دلی چھوڑتے ہوئے مجھے سب سے بڑا دکھ مسلم صاحب جیسے شفیق مہربان سے دور جانے کا تھا۔
دلی چھوڑنے کے بعد آپ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر ملاقات میں اپ کی شفقت اور تبسم میں کوئی فرق نہ دیکھا۔ سنہ 1964-65میں ملک فیصل نے ہندوستان کے چھ صحافیوں کو مدعو فرمایا تو ان میں مسلم صاحب بھی تھے۔ ملک نے سب کو ہفتہ بھر میزبانی کا کچھ خرچ دیا تو مسلم صاحب نے اسے غنیمت جان کر حج کی نیت فرمالی ، حالاں کہ حج میں دو ایک ماہ سے زیادہ مدت باقی تھی۔ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی کچھ ضرورت مندوں کو تلاش کرکے اپنی محدود رقم سے ان کی مدد فرمائی۔
میں انہیں یونی ورسٹی میں اپنے کمرے لے گیا۔ سوچ رہا تھا کہ مسلم صاحب، جو ہمیشہ مجھے خوش دیکھنا چاہتے تھے، میرے ٹھاٹ باٹ سے آپ کو دلی مسرت ہوگی، لیکن آپ کا چہرہ مرجھا گیا۔ میں نے پوچھا کیوں کیا بات ہے افسوس کے ساتھ فرمایا ’’آپ واپس ہوکر وہ کام نہیں کرسکیں گے جو یہاں آنے سے پہلے کیا کرتے تھے‘‘
ترے صوفے ہیں، فرنگی، ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
مسلم صاحب کے ظاہر اور سراپا کا حال آپ نے پڑھ لیا۔ ان میں کوئی مقناطیسی کشش ضرور تھی کہ چھوٹے بڑے سب ان سے ملنے کے مشتاق رہتے اور جو مل لیتے وہ دوبارہ ملنے کے لیے بے قرار رہتے۔ سفر حج کا میں نے ذکر کیا۔ اس سال شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ (1905-1982) بھی آئے ہوئے تھے۔ مسلم صاحب نے ان سے دو ایک ملاقاتیں کیا کیں کہ ان کا نمائندہ آپ کو مدعو کرنے کے لیے وقت بے وقت آجاتا، اور آپ کو ہم راہ لے جاتا۔ اسی حج میں امیر جماعت اسلامی مولانا ابواللیث اصلاحی (1913-1990) بھی تھے۔ فرمانے لگے۔ ’’مسلم صاحب ! ذرا احتیاط برتیے۔ کوئی ہندوستانی صحافی دیکھ لے گا تو اخبار میں سرخی جڑدے گا کہ مسلم صاحب ’فنا فی الشیخ‘ ہوگئے ہیں‘‘۔
مسجد نبوی میں آپ چالیس نمازوں کی پابندی کرنا چاہتے تھے۔ میں نے شیخ البانیؒ کی تحقیق سنائی کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ پھر تو آپ نے مدینہ کی ایک ایک آباد ، غیر آباد مسجد میں ایک ایک وقت کی نماز شروع کردی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ہم مسجد نبوی کے باہر کھڑے ہوئے تھے۔ ہجوم میں ایک نورانی چہرہ نظر آگیا۔ آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے کہا ہمارے حدیث کے استاذ پاکستان کے شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلویؒ ہیں۔ سوال کیا : وہی تو نہیں جنہوں نے جماعت اسلامی کے خلاف ایک رسالہ لکھا تھا ؟ میں نے لا علمی کا اظہار تو فرمایا ’’اگر وہی ہیں توان سے ضرور ملاقات کرنا چاہیے۔ کیوں کہ بیس پچیس سالوں میں جماعت کے خلاف جتنابھی لکھا گیا، ان میں بس یہ ایک رسالے میں کچھ معقولیت تھی‘‘۔ ہم حافظ صاحب کے قریب پہنچ گئے۔ مصافحہ کے بعد مسلم صاحب نے رسالہ کے بارے میں سوال کیا تو حافظ صاحب نے اثبات میں جواب دیا۔ کئی باتوں کے ساتھ چالیس نمازوں کا سوال بھی پوچھا تو حافظ صاحب نے کھڑے کھڑے حدیث کی کتابوں کا حوالہ دے کر پڑھنے کو صحیح قرار دیا۔ مسلم صاحب نے مجھے دیکھا۔ میں نے سر نیچا کرلیا۔ فرمایا: ’’چلو اچھا ہوا اس بہانے مدینہ کی ہر مسجد میں نماز کی سعادت حاصل ہوگئی۔ میدان خندق کی مسجد فتح میں میں نے اسلام کے غلبے کے لیے بڑی دعائیں کیں۔ اللہ قبول فرمائے‘‘
میں نے اس سے پہلے بھی لکھا کہ مدینہ منورہ کی چار سالہ زندگی میں مختلف عناوین پر مضامین بھیجے لگا تھا اشاعت سے پہلے بہ غور آپ انہیں پڑھتے تھے اور اپنی خصوصی توجہ، حسن نظر اورذوق جمیل سے مناسب حذف و اضافے کے ذریعے بے جان جملوں میں جان ڈال دیتے تھے۔ مدینہ منورہ کے قبرستان، بقیع پر میرے ایک مضمون میں ’’سترہ ہزار صحابہ اور اہل بیت کی ایک بڑی تعداد یہاں آسودہ خاک ہے لکھ کر میں نے غالب کا شعر ؎مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے یہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
لکھا تو شعر میں ”لیئم‘‘ کی جگہ خالی چھوڑدی کہ مدینہ کی بابرکت زمین کو لیئم کہنے کی جرات نہ ہوسکتی تھی۔ مضمون شائع ہوکر آیا تو دیکھا کہ مصرع اس طرح درج تھا’’مقدور ہوتو خاک مدینہ سے پوچھ لوں ایک اورمضمون میں لکھا تھا کہ ہم نے اپنا ملکی پاجامہ چھوڑ کر سعودی جامہ اپنالیا پھر یہ شعر لکھا:
بناکر سعودی کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل حرم دیکھتے ہیں
مسلم صاحب نے ’’اہل کرم‘‘ کو ’’اہل حرم‘‘ بناکر شعر کو واقعے سے قریب بنادیا۔ ایسی کئی ایک اصلاحات میری بات میں ، میری ذات میں، میری عادت میں، میرے خیالات میں اور میرے معمولات میں لانے کی کوشش کی، لیکن وہ آوا کہاں جو اپنی فطرت بدلنے پر آمادہ ہوجائے۔
سید قطب ؒ کی شہادت پر ایک مقالہ میں نے دارالسلام عمر آباد سے بھیجا۔ کافی انتظار کے بعد بھی شائع نہیں ہوا تو ذرا سخت لہجے میں خط لکھ دیا۔ فوراً جواب ملا ، ملاحظ ہو:
۲۳ستمبر ۱۹۶۷
بسم اللہ
برادر عزیز! السلام علیکم
سید قطبؒ پر آپ کا مضمون یہاں نہیں پہنچا۔ آپ کے خط میں افسردگی اور تلخی جھلک رہی ہے جس کا اثر مجھ پر بھی پڑا اور میرے سامنے آ پ کا بجھا اور مرجھایا ہوا چہرہ آگیا، جو آپ کے اصل چہرے سے بالکل مختلف تھا۔
اس کا کچھ نہ کچھ سبب میں بھی ہوا ہوں، جس کے لیے معافی کا خواست گار ہوں، بہتر گا آپ نقل بھیج دیں۔ امید ہے کہ آپ اچھی طرح ہوں گے۔
والسلام مخلص
محمد مسلم
میری والدہ کا انتقال ہوا تو انہیں خبر دی۔ جواب میں فرمایا: ’’والد کا انتقال ہوا تو آپ بہت چھوٹے تھے۔ اب والدہ کے انتقال پر آپ کو یتیمی کا پورا احساس ہوا ہوگا‘‘
مسلم صاحب 1986میں شاید اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ دنیا کے ظاہری عیش آپ نے کم دیکھے۔ لیکن زمانے سے آپ کو کوئی رنج تھا اور نہ شکوہ۔ خالی ہاتھ جیے۔ دل بڑا غنی تھا۔ اپنے لیے نہیں دوسروں کی امداد اور راحت رسانی کے لیے تڑپتے رہے ۔ اولاد کے سکھ اور آرام کے لیے مادی ذرائع نہ چھوڑے ، مگر دعاوں اورنیک تمناوں کا ایک ڈھیر چھوڑگئے۔ ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کور کسر نہیں اٹھا رکھی۔ زبان حال سے ہی سہی یہ وصیت ضرور کی ہوگی:
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
بزرگوں کی نیکیاں اور قربانیاں کبھی ضائع اور رائیگاں نہیں جاتیں۔ ماہانہ 135روپے تنخواہ والا چیف ایڈیٹرکثیر العیال اور مفلوک الحال دنیا سے گیا، مگر بچوں کی تعلیم و تربیت اور شراف و نیکی کا ایسا سبق دے کر گیا کہ آج ان کی اولاد جامعہ نگر دلی میں بڑی خوش حال اور آسودہ زندگی گزار رہی ہے۔ فقیر باپ کی یادوں اور امانتوں سے اپنے سینوں کو آباد رکھی ہوئی ہے۔ نیک اطوار والد بزرگ دار کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لیے ان کے مکان کو محمد مسلم میموریل لائبریری بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
صرف بڑے صاحب زادے محمد اسلم، جو ہمارے دور میں والد کا ظہرانہ لایا کرتے تھے، ملک سے باہر شاید امریکہ میں مقیم ہیں۔ بقیہ سب دلی میں شمع وفا روشن کیے ہوئے ہیں۔ صاحب زادے اطہر مسلم ، والد مرحوم کے ادارے اور کالم خبر و نظر کو کتابی شکل میں شائع کرنے جارہے ہیں۔ میری یہ معلومات محترم سید شکیل انور صاحب کی فراہم کردہ ہیں۔ ذرا پرانی ہیں یعنی نومبر 2013کی۔ اس کے بعد ان ہونہاروں نے اپنے مثالی باپ کی روشن یادوں کے کتنے چراغ جلائے اور جلارہے ہیں، افسوس کہ میں اس سے بے خبر ہوں۔ مخلص مسلم کے لیے اولاد یہ سب کچھ کررہی ہے تو ان کا خالق و مالک کیا کا انعام و اکرام سے نواز رہا ہوگا اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے!
1973میں مسلم صاحب نے ’’مجلس مشاورت‘‘ کی قدر آور شخصیتوں کے ساتھ سارے ملک کا دورہ فرمایا۔ عمرآباد بھی تشریف لائے۔ وفد کے اعزاز میں شان دار دستر خوان بچھا۔ وفد کے ارکان دعوت میں تشریف لے گئے اور مسلم صاحب میرے غریب خانے تشریف لائے اور ماحضر تناول فرمایا۔ مری بچیوں سے بات چیت کی اور ایک رقم ان کی نذر فرما کر معذرت کرنے لگے کہ آپ لوگوں کے لیے میں اپنے ہم راہ کچھ نہیں لاسکا۔ پھر واپس ہوکر وفد کے ارکان سے جاملے۔ یہی میری آپ سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد میری آنکھوں نے اپنے آپ کو نہیں دیکھا، مگر میرے دل و دماغ آپ کی خوش گوار یادوں، نرالی باتوں اور بے لوث خدمات کی ایک طویل فہرست کے روشن نقوش سے آباد ہیں۔
اللہ تعالیٰ احباب و رفقا کے دلوں کو بھی آپ کی یاد سے آباد رکھے اور اولاد و احفاد کے لیے آپ کا نقش قدم راستہ بن جائے۔ آمین یا رب العالمین
کہتے دیتی ہے شوخی نقش پاکی
ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی
***
***
زیر نظر مضمون مولانا حفیظ الرحمن اعظمی مرحوم نے سہ روزہ دعوت کےمدیر محمد مسلم مرحوم کی وفات کے بعد تحریر کیا تھا۔ اس میں انہوں نے جہاں مسلم صاحب کی زیر ادارت اپنی صحافت کا ذکر کیا ہے وہیں مرحوم کے ساتھ اپنی رفاقت کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں رقم کی ہیں جن سے خود ان کی اپنی شخصیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس مناسبت سے یہ مضمون قارئین کی نذ ر ہے جسے وہ مولانا اعظمی کے طرز نگارش کے ایک نمونے کے طورپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ (مدیر)
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 جون تا 18 جون 2022