’’مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی تبلیغی تحریک‘‘
بانی تبلیغی جماعت کی شخصیت اور ان کی تحریک کے مزاج کو سمجھنے میں معاون ایک کتاب
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
معصوم مرآدابادی اتنے معصوم نہیں جس قدر نام سے معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایسی ایسی دل پذیر فکر انگیز اور چشم کشا کتابیں لکھ ڈالی ہیں یا مرتب کر ڈالی ہیں کہ بس۔ یعنی اہل علم وادب کے لیے باعث سر خوشی ودانائی۔ دنیا کا ذہن اگر تہہ و بالا نہیں ہوتا ہے اور متلاطم نہیں ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اب دنیا کتابیں پڑھتی نہیں ہے، موبائل میں اپنی گردن ڈال کر سوتی رہتی ہے، کچھ معلومات جمع ہوجاتی ہیں لیکن علم کے موتی ہاتھ نہیں آتے فکر میں کوئی بھونچال نہیں آتا ہے۔ مولانا الیاس کی شخصیت پر پڑے دبیز پردے اس کتاب سے اٹھ سکتے ہیں لیکن کتابیں پڑھنے والے تو پہلے پیدا ہوں۔
مولانا الیاس کی تحریک تبلیغ عصر حاضر کی سب سے بڑی اسلامی اصلاحی تحریک ہے۔ مولانا الیاس کے بارے میں مولانا عبدالملک جامعی نے جو کچھ دیکھا اور لکھا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مولانا عبدالملک جامعی تبلیغ کے بنیاد گزاروں میں ہیں۔ مولانا الیاس کی مقناطیسی شخصیت کا خاکہ مولانا عبدالملک جامعی کے قلم سے بہت پرکشش ہے۔ یہ خاکہ یعنی یہ کتاب معصوم مرادآبادی کی یافت اور دریافت ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں بھی ایسی شخصیتیں ہو سکتی ہیں جو نمونہ اسلاف ہوں، جن کی زندگی عبادت اور دین کے لیے قربانی میں صحابہ کرام کی زندگی کے طرز کی ہو۔ آدمی چاہے سو فی صد اتفاق نہ کرے لیکن غیر معمولی شخصیت کے حالات کو ضرور جاننے کی کوشش کرنی چاہیے، اس میں تمام نفع ہے اس سے فائدہ بہت ہے اور کسی بھی اعتبار سے یہ خسارہ کا سودا نہیں اور وقت کا زیاں بھی نہیں ہے۔ جو شخص ایک مہینہ میں پچاس بار سے زیادہ قرآن پڑھے اور ختم کردے، زندگی میں لوگ اس کی صورت دیکھنے آسکتے ہیں اور اس کی زیارت کے لیے ہزاروں لوگ ٹکٹ خرید سکتے ہیں کیونکہ ایسی شخصیتیں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ مولانا الیاس کے انتقال کے بعد ان کی سیرت پڑھنے والے بھی ہزاروں میں ہو سکتے ہیں۔ معصوم مرادآبادی کی اس تصنیف لطیف کے شائقین کی تعداد بھی اگر ہزاروں میں نہیں تو سیکڑوں میں ضرور ہونے چاہیے، اگر نہ ہوں تو پھر اردو والوں کی بے ذوقی اور بد مذاقی کا ماتم کرنا چاہیے۔ انگریزی میں کوئی کتاب چھپتی ہے تو اس کے قارئین ہزاروں میں ہوتے ہیں اور کبھی اس سے بھی زیادہ، لیکن اردو جو آہستہ آہستہ مسلمانوں کی زبان بنتی جا رہی ہے اس پر دوسروں کا جور وستم تو ہے ہی اپنوں کا ’’کرم‘‘ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اردو مسلمانوں سے اپنی زبان بے زبانی سے کہتی ہو گی اور فریاد کرتی ہو گی ’’تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے‘‘ اس کتاب کا ماحول عام کتابوں سے مختلف ہے، مولانا عبدالملک جامعی نے اپنی اس خود نوشت میں لکھا ہے کہ جو شخص نظام الدین کی بنگلہ والی مسجد میں داخل ہو جاتا وہ محسوس کرتا ہے کہ باہر کی حدت وحرارت اور تاب وتپش کے ماحول سے کسی ایر کنڈیشنڈ گھر میں داخل ہو گیا ہے، وہ محسوس کرتا کہ وہ ایمان واخلاق کے ماحول میں پہنچ گیا ہے، ایسے ماحول میں جس میں صحابہ کرام یا اولیاء اللہ اور بزرگان دین رہتے ہیں۔
مولانا عبدالملک جامعی کا تاثر یہ ہے کہ مولانا الیاس نادر الوجود انسانوں میں سے ایک تھے۔ ایسا انسان جو صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتا ہے پھر صدیوں تک ویسا کوئی انسان نہیں پیدا ہوتا۔ پوری کتاب میں مولانا الیاس کی تبلیغی تحریک کا رنگ وآہنگ ہے اور قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ مولانا الیاس یا مولانا یوسف کے دور میں نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں ہے اور ایمان افروز ماحول میں سانس لے رہا ہے۔ ہم وہ جملے نقل کر رہے ہیں جن میں نظام الدین کی فضاوں کی باز گشت سنائی دیتی ہے اور جن سے تبلیغی جماعت کے مزاج کو سمجھنا آسان ہوتا ہے۔
’’جب اس کام کے لیے نکلو تو اس کام کے سوا کچھ اور مت کرو‘‘۔
’’ اگر کوئی پابندی سے تہجد پڑھے گا ناغہ نہیں کرے گا وہ بغیر حساب کے جنت میں جائے گا‘‘۔
’’ تبلیغ کے چھ نمبر امہات الدین ہیں اور مہمات الاسلام ہیں‘‘۔
’’ یہ سمجھنا کہ یہ کام میری وجہ سے ہو رہا ہے شیطنت ہے شیطنت‘‘ ، ’’فرض نماز کے بعد دعا مانگو کامیابی کے لیے اور اس سے کام نہ چلے تو جنگل میں نکل جانا اور وہاں چیخیں مار مار کر رونا‘‘۔
’’ مخلوق سے اپنا رشنہ توڑتے جاو اور خالق سے اپنا رشتہ جوڑتے جاو‘‘
’’عورت آگ ہے آگ، آگ سے بچو، آنکھیں نیچی رکھو‘‘
ہم نے کچھ جملے اس لیے نقل کیے ہیں تاکہ کتاب کے ماحول اور اس کی فضا کا اندازہ ہو سکے، کیونکہ مولانا الیاس کی شخصیت کا یہ خاکہ جس نے لکھا ہے وہ مولانا الیاس سے بے حد قریب تھا رفیق کار تھا اور تبلیغ کا مزاج شناس تھا، اس لیے تبلیغ سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ کتاب نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہے جو فکر ونظر کو تبدیل کر کے رکھ دے گی۔
پوری کتاب میں نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد کی فضا ہے جہاں بیٹھ کر اکابر تبلیغ بھارت میں اور پھر پوری دنیا میں تبلیغ کا نظام چلاتے تھے۔ دین کو مزاج میں راسخ کرنے کا نظام اور سنتوں کی پیروی کا نظام عبادات او روحانیت کا نظام اور یہ ماحول اس قدر متاثر کن اور روح نواز تھا کہ بھارت اور بیرون ملک کے علماء اور مفکرین اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے۔ مولانا مودودی، مولانا منظور نعمانی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی جیسے مشاہیر علم وادب اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ مولانا مودودی نے تحریک کی تعریف اور تعارف میں ترجمان القرآن میں مضمون لکھا، مولانا علی میاں نے مولانا الیاس کی سوانح لکھی، گویا سب اسی زلف کے اسیر ہوئے، لیکن زیادہ تر لوگوں نے بعد میں عملی طور سے اس تحریک سے وابستگی ختم کر دی۔
اس تحریک کی غیر معمولی کامیابی کی وجہ اللہ کی ذات پر یقین کی دعوت ہے۔ یہ مرد خدا کا وہ یقین ہے جو نقطہ پرکار حق ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ وہم و طلسم ومجاز ہے۔ سارا مجاہدہ اسی لیے کرایا جاتا ہے، اللہ سے زندہ تعلق پیدا کرایا جاتا ہے، ذکر ودعا کا مزاج بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تحریک عوامی مقبولیت کے باوجود صف اول کے علماء اور دانشوروں کو زیادہ متوجہ نہیں کرسکی۔ اس تحریک میں ایمان کی حلاوت تھی روحانی آسودگی کا سامان تھا سوز وساز رومی موجود تھا لیکن عقلیت نہیں تھی، فکر کی بلندی نہیں تھی، پیچ وتاب رازی کا فقدان تھا۔ جن لوگوں کو صرف سوز دروں کی ضرورت تھی روحانیت کی خواہش تھی، قلب کی نورانیت میں جو بہت کشش محسوس کرتے تھے، یعنی جن کے پاس دل تھا لیکن دماغ نہیں تھا علم نہیں تھا فکر کی قوت نہیں تھی، ان کے دل محزوں کو اس تبلیغی تحریک میں تسکین حاصل ہو گئی لیکن جو لوگ عقل وفکر اور تدبر کا دماغ رکھتے تھے ان کو اس تحریک سے پوری تشفی نہیں ہوئی، انہوں نے اس تحریک پر تنقیدیں تو نہیں کیں کیونکہ اس تحریک کے فائدے اظہر من الشمس تھے لیکن وہ اس تحریک سے عملا الگ ہو گئے اور علمی اور فکری کتابوں کی تصنیف میں اور دوسرے مشاغل میں مشغول ہو گئے، انہیں محسوس ہوا کہ تحریک ہر اعتبار سے جامع اور مکمل نہیں ہے، یہ عوامی تحریک ہے اور عوام کے لیے ہے، اس میں نہ فکر کی بلندی ہے نہ علم کی گہرائی ہے نہ حالات کا تجزیہ ہے نہ جہاد کا جذبہ ہے جو اسلام کا رکن ہے۔ نہ خلافت ارضی کی کوئی خواہش ہے۔ نہ حکومت واقتدار کی اہمیت ہے جو مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔ مولانا علی میاں جیسی شخصیت جنہوں نے انبیاء کے کام کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور اس موضوع پر کتابیں لکھی تھیں اور جن کی نظر پوری تاریخ اسلام پر تھی انہوں نے بھی اس تحریک سے کنارہ کشی اختیار کی، اس لیے کہ ان کا مطالعہ ان کو اس تحریک کے بارے میں پورے طور پر مطمئن نہیں کر سکا۔ مولانا سوز وساز رومی پر قناعت نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں پیچ وتاب رازی کی اہمیت بھی معلوم تھی جس کے بغیر دماغ کو اور اہل فکر کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا تھا اور جس کے لیے نئے علم کلام کی ضرورت ہر دور میں ہوتی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ مولانا علی میاں دونوں خصوصیات کے جامع تھے، رومی بھی اور رازی بھی، وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے:
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز وساز رومی کبھی پیچ وتاب رازی
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مولانا الیاس اور تبلیغی جماعت کا مفکرانہ اور جامع تعارف کرایا گیا ہے۔ لکھنے والے نے نہ اپنی آنکھیں بند کی ہیں نہ اپنے دماغ کی کھڑکیوں کو بند کیا ہے بلکہ تبلیغی کام کی پوری قدر دانی کے ساتھ انصاف کا حق ادا کیا ہے۔ لکھنے والے نے لکھا ہے کہ ہر چیز کو چھ نمبروں میں ڈھال دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے ’’بنی الاسلام علی خمس‘‘ لیکن تبلیغ سے وابستہ لوگ اسلام کے پانچ ارکان کو نہیں جانتے لیکن چھ نمبر ازبر ہیں، نوک زبان ہیں، حافظہ کا جزو ہیں۔ بڑی قطعیت کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ مولانا الیاس کی تحریک تبلیغ وہ تبلیغ نہیں ہے جو عہد صحابہ میں تھی اب تبلیغ کا مطلب ہی دوسرا ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کی اصلاح کا نام تبلیغ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ صحیح معنی سے انحراف ہے اور اصل تبلیغ کے طرف مراجعت کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ تبلیغ کے کام سے وابستہ لوگوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور ذہن وفکر کے دریچوں کو کھلا رکھنا چاہیے۔ انہیں ایک نئی آگہی کا احساس ہو گا وہ فکر ونظر میں انقلاب محسوس کریں گے۔ جو شخص یہ کتاب منگوانا چاہے وہ اس نمبر پر فون کر کے منگوا سکتا ہے ۔
9810780563
***
***
پوری کتاب میں نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد کی فضا ہے جہاں بیٹھ کر اکابر تبلیغ بھارت میں اور پھر پوری دنیا میں تبلیغ کا نظام چلاتے تھے۔ دین کو مزاج میں راسخ کرنے کا نظام اور سنتوں کی پیروی کا نظام عبادات او روحانیت کا نظام اور یہ ماحول اس قدر متاثر کن اور روح نواز تھا کہ بھارت اور بیرون ملک کے علماء اور مفکرین اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے۔ مولانا مودودی، مولانا منظور نعمانی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی جیسے مشاہیر علم وادب اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ مولانا مودودی نے تحریک کی تعریف اور تعارف میں ترجمان القرآن میں مضمون لکھا۔ مولانا علی میاں نے مولانا الیاس کی سوانح لکھی، گویا سب اسی زلف کے اسیر ہوئے، لیکن زیادہ تر لوگوں نے بعد میں عملی طور سے اس تحریک سے وابستگی ختم کر دی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022