این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابیں

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے...

محمد عارف اقبال

اُترپردیش بورڈ اور این سی ای آرٹی (NCERT) کی نصابی کتابوں میں جو تبدیلیاں کی جارہی ہیں، گزشتہ کئی دنوں سے ملک اور بیرون ملک میں اس تشویشناک صورت حال پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نصابی کتابوں کی تیاری جو کہ ماہرین تعلیم کی نگرانی میں کی جاتی ہے، کیا سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے کوئی حکومت خود سے نصاب کو تبدیل کرنے کی مجاز ہے۔ ضرورتاً یا طلبا کے مفاد میں نصاب میں تبدیلیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ لیکن ’ہندوتوا‘ کے عزائم کے لیے سیاسی نوعیت کی تبدیلیاں بھارت کی تاریخی حیثیت پر ایک بدنما داغ ہی خیال کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بالخصوص 2014 کے بعد بھارت میں زمینی سطح پر جو ناگفتہ بہ حالات پیدا کیے جارہے ہیں، کیا ہمارے دانشور اس سے ناواقف ہیں۔ اس وقت جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کی تیاری زوروں پر ہے۔ لہٰذا مورخین، دانشوران اور برسر اقتدار حکمراں مخالف جماعتیں اپنی بیان بازی سے ماحول کو جس قدر بھی گرم کرتے رہیں، مرکزی حکومت یا بی جے پی کی ریاستی حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ یہ کام طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے لیکن جمہوریت کا ڈنکا بجانے والے صرف اپنا احتجاج درج کرنے میں ہی یقین رکھتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔ بقول اختر جمال عثمانی 2017 میں مہاراشٹر کے تعلیمی نصاب سے مغلوں کی تاریخ کو ہٹایا جاچکا ہے۔ کپل سبل نے اپنے ٹویٹ پر طنزیہ لکھا ہے کہ نریندر مودی کے مطابق جدید بھارت کی تاریخ 2014 میں وزیر اعظم بننے کے بعد شروع ہونی چاہیے۔ انڈین ایکسپریس نے بھی کتابوں میں کی گئی تبدیلیوں کے حوالے سے تفصیلی معلومات دی ہیں (انقلاب 6 اپریل 2023)۔ موجودہ قومی میڈیا نے NCERT کی نصابی کتابوں کے بارے میں جو معلومات مہیا کی ہیں ان میں مغلیہ عہد کی تاریخ کو نصاب سے مکمل طور پر خارج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب نے اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنا ردّعمل ظاہر کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایمریٹس اور قرونِ وسطیٰ کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ این سی ای آرٹی کے نصاب کی کتابوں سے مغلیہ دور کی تاریخ کے متعلق ابواب کو ہٹانے سے مغلیہ تاریخ کے بارے میں لوگوں کا علم صفر ہوجائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ سے تاج محل کے بارے میں پوچھا جائے گا تو آپ کہیں گے کہ ہم نہیں جانتے، ہم نے مغلوں کی تاریخ نہیں پڑھی ہے۔
پروفیسر اپوروانند نے ’دی وائر‘ کو انٹرویو کے دوران جو کچھ کہا وہ بی جے پی کی مرکزی حکومت یا ریاستی حکومتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ ’ہندتو‘ جب ’ہندو راشٹر‘ کا ہدف طے کرلے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا جبکہ وہ قوتِ نافذہ کے ساتھ برسر اقتدار ہو۔ پروفیسر اپوروانند کے بقول ’’… جو تصویر آر ایس ایس پیش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اسے مان لیں وہ دراصل ’ہندو بھارت‘ کی تصویر ہے، اس میں کوئی باہری علامت یعنی کوئی ایسی پہچان جس سے مسلم، عیسائی اور کوئی تہذیبی علامت نظر آئے، اسے قبول نہیں ہے۔ ان کا جو ’بھارت‘ ہے وہ صرف ہندو علامتوں سے بنا ہوا ہے اور ہندتو کی ان کی اپنی جو تشریح ہے، اس کے مطابق بنا ہوا ہے۔ اس لیے جب اس تصویر میں تاج محل آتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہاں پہلے ’رام مندر‘ تھا۔ اسی طرح قطب مینار، لال قلعہ اور جامع مسجد سے متعلق بھی ان کی اپنی توضیحات ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی گرہ ہے جس سے یہ باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ساری چیزیں ہندوئوں نے بنوائی ہیں، مسلمانوں نے اس پر اپنا رنگ ڈال دیا ہے۔‘‘ 
معروف دانشور اور دہلی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر اپوروانند مزید کہتے ہیں:
’’… آرایس ایس کا خیال ہے کہ جو دماغ بنتا ہے وہ اسکولوں میں بنتا ہے۔ اور اس میں ایک حد تک سچائی بھی ہے۔ آرایس ایس کے زیراہتمام چلنے والے سرسوتی ششومندر سے نکلنے والے طلبا سے آپ بات کریں تو آپ ماضی اور حال سے متعلق ان کا شعور بالکل مختلف پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 1977 میں بھی نصابی کتابوں کے حوالے سے بحث چلی تھی۔ پھر جب یہ اٹل بہاری واجپئی کے دور اقتدار میں آئے تب بھی انہوں نے نصاب کو اپنے انداز میں بدلنے کی کوشش کی اور اب ایک بار پھر وہی کام ہو رہا ہے۔‘‘ 
روزنامہ انقلاب (9 اپریل 2023) کے مطابق ملک بھر کی معروف بھارت ی اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے 250 سے زیادہ مورخین کی جانب سے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCERT) کی نصابی کتابوں میں کی گئی تبدیلیوں کے خلاف ایک بیان جاری کیا گیا ہے۔ ان تبدیلیوں میں این سی ای آرٹی نے گجرات میں 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات، نکسلی تحریک اور دلت ادیبوں کے ذکر سمیت مغلوں کی تاریخ کے تمام ابواب کو بھی ہٹادیا ہے۔
روزنامہ The Hindu کے مطابق ’’جن لوگوں نے ان تبدیلیوں کے خلاف بیانات جاری کیے ہیں ان میں اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف حیدرآباد کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی اور امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’این سی ای آرٹی‘ کا 12 ویں جماعت کے لیے تاریخ کی نصابی کتابوں سے مواد ہٹانے کا حالیہ فیصلہ گہری تشویش کا باعث ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ:
’’نظرثانی شدہ ایڈیشن میں جہاں مغلوں کے باب کو ہٹا دیاگیا ہے وہیں وجے نگر سلطنت کے باب کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس کا اخراج بھارت کے ماضی کے بارے میں ایک غلط فہمی پر مبنی وسیع فرقہ وارانہ سوچ کو بےنقاب کرتا ہے کہ حکمرانوں کا مذہب اس وقت کا غالب مذہب تھا۔ یہ ’ہندو دَور‘ مسلم دور کے ایک بہت ہی مشکل نظریہ کی طرف لے جانے والا ہے۔‘‘ 
واضح ہو کہ تاریخ کے اس نصاب میں گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو پونے سے تعلق رکھنے والے ایک برہمن کے طور پر بیان کرنے والا ایک حوالہ بھی چھوڑ دیا گیا ہے جس نے ایک ہندو بنیاد پرست اخبار کو ایڈٹ کرتے ہوئے گاندھی کو ’مسلمانوں کی خوشامد‘ کرنے والا قرار دیا تھا۔ نصاب سے گاندھی کے قتل میں ہندو بنیاد پرستوں کے کردار کا ذکر بھی ہٹا دیا گیا ہے۔
اسی طرح یوپی بورڈ کی گیارہویں کلاس کی کتابوں سے اسلام کا آغاز، عروج اور توسیع، تہذیبوں میں تصادم اور صنعتی انقلاب جیسے مضامین بھی نصاب سے خارج کردیے گئے ہیں۔ اب طالب علم مغل سلطنت کی تاریخ سے ناآشنا رہیں گے۔ سوشلسٹ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹیوں کے عروج کی داستان اور آزادی کے بعد کانگریس کے دور حکومت کو بھی نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ تین جلدوں میں بشیرالدین احمد کی کتاب ’واقعات دارالحکومت (1760 صفحات، مع 224 نقشہ جات اور تصاویر)‘ جسے اردو اکادمی، دہلی برسوں سے چھاپ رہی ہے، اس کی اشاعت بھی ممنوع قرار دی جائے۔ ’ہندتو‘ کے متوالے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم (مولانا) ابوالکلام آزاد کا نام بھی گیارہویں جماعت کی سیاسیات کی نئی کتاب سے بطور حوالہ خارج کردیا گیا ہے۔
خرد کا نام جنوں پڑگیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
(حسرت موہانی)
***

 

***

 ’’… جو تصویر آر ایس ایس پیش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اسے مان لیں وہ دراصل ’ہندو بھارت‘ کی تصویر ہے، اس میں کوئی باہری علامت یعنی کوئی ایسی پہچان جس سے مسلم، عیسائی اور کوئی تہذیبی علامت نظر آئے، اسے قبول نہیں ہے۔ ان کا جو ’بھارت‘ ہے وہ صرف ہندو علامتوں سے بنا ہوا ہے اور ہندتو کی ان کی اپنی جو تشریح ہے، اس کے مطابق بنا ہوا ہے۔ اس لیے جب اس تصویر میں تاج محل آتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہاں پہلے ’رام مندر‘ تھا۔ اسی طرح قطب مینار، لال قلعہ اور جامع مسجد سے متعلق بھی ان کی اپنی توضیحات ہیں۔ یہ ایک نفسیاتی گرہ ہے جس سے یہ باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ساری چیزیں ہندوئوں نے بنوائی ہیں، مسلمانوں نے اس پر اپنا رنگ ڈال دیا ہے۔‘‘ 
(پروفیسر اپوروانند )


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023