’’مودی ایک نرگسیت پسند آمر‘‘: پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے بعد اپوزیشن نے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا
نئی دہلی، مئی 28: وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اتوار کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے کے چند گھنٹے بعد کانگریس نے انھیں ایک ’’نرگسیت پسند آمر‘‘ کے طور پر بیان کیا جس کے نزدیک ’’پارلیمانی طریقۂ کار سراسر حقیر‘‘ ہے۔
20 اپوزیشن جماعتوں نے افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ صدر دروپدی مرمو کے بجائے مود کا خود عمارت کا افتتاح کرنے کا فیصلہ ’’نہ صرف ایک سنگین توہین ہے بلکہ ہماری جمہوریت پر براہ راست حملہ ہے۔‘‘ انھوں نے مودی پر ہندوستان کی پہلی آدیواسی صدر کو اس اہم قومی تقریب سے دور کرنے کا الزام لگایا۔
انھوں نے ہندوتوا کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر کے یوم پیدائش پر افتتاحی تقریب کے انعقاد پر بھی تنقید کی۔
اتوار کو کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ مرمو کو اپنے آئینی فرائض کو پورا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم ’’جو شاذ و نادر ہی پارلیمنٹ میں آتے ہیں یا بحث میں مشغول ہوتے ہیں، 2023 میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کریں گے۔‘‘
رمیش نے یہ بھی کہا کہ ’’تاریخ کاروں‘‘ کی طرف سے حقائق کو گھڑنا اور میڈیا کا ڈھول پیٹنا اس سال ایک نئی نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے۔
وہ لوک سبھا کے چیمبر میں مودی کی طرف سے نصب سینگول پر تنازعہ کا حوالہ دے رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے تنازعات کی پشت پناہی کرنے کے لیے مشکوک تاریخی ذرائع کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ برطانوی وائسرائے لوئس ماؤنٹ بیٹن نے 1947 میں اقتدار کی منتقلی کی علامت کے طور پر ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو سینگول پیش کیا تھا۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ نئی عمارت کے افتتاح کو تاج پوشی کی تقریب کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار نے کہا کہ وہ اس تقریب میں شرکت نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے خوش ہیں۔ انھوں نے پوچھا ’’کیا ہم ملک کو پیچھے کی طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا یہ تقریب صرف محدود لوگوں کے لیے تھی؟‘‘
ترنمول کانگریس کے لیڈر ڈیرک اوبرائن نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ گذشتہ نو سالوں میں پارلیمنٹ کا مذاق اڑانے اور اس کی توہین میں ملوث رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’پارلیمنٹ کے آٹھ اجلاس مقررہ تاریخ سے پہلے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن کے اراکین سے بل پر ووٹ دینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ چار سال ہوچکے ہیں لیکن لوک سبھا میں اب تک کوئی ڈپٹی اسپیکر نہیں ہے۔ ہماری عظیم پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا بند کریں۔‘‘
وہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے ٹویٹر پر لکھا کہ یہ افتتاحی تقریب ’’بڑے پروپیگنڈے‘‘ کے درمیان منعقد ہوئی۔
انھوں نے مزید کہا ’’سینگول کا تعلق جاگیردارانہ بادشاہتوں، شہنشاہوں اور بادشاہوں کے دور سے ہے۔ ہندوستانی عوام نے ایسی غلامی کو اکھاڑ پھینکا اور ایک سیکولر جمہوریہ کا آغاز کیا جہاں ہر شہری برابر ہے۔ سینگول کا ایسی جمہوریت میں کوئی کردار نہیں ہے، جہاں لوگ حکومت کو منتخب کرتے ہیں۔‘‘
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ – لیننسٹ) لبریشن دیپانکر بھٹاچاریہ نے بھی مودی کے ذریعہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کو بادشاہ کی تاج پوشی کے مترادف قرار دیا۔
انھوں نے مزید کہا ’’دہلی میں خواتین پہلوانوں اور مہیلا سمان پنچایت کے لیے جمع ہونے والے دیگر شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔ جمہوریت اور آئین کی روح اور وژن پر وحشیانہ حملہ۔‘‘
دریں اثنا راشٹریہ جنتا دل کے ایک ٹوئٹ کے بعد ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا جس میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی شکل کو تابوت سے تشبیہ دی گئی ہے۔
بہار کے سابق نائب وزیر اعلی سشیل کمار مودی نے کہا کہ اس ٹویٹر پوسٹ کے ذمہ داروں پر غداری کا الزام لگایا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا ’’اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ان کے پاس دماغ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ نئی عمارت عوام کے پیسے سے بنائی گئی ہے۔‘‘
بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے کہا کہ ملک کے لوگ آپ کو 2024 میں اسی تابوت میں دفن کر دیں گے اور آپ کو جمہوریت کے نئے مندر میں داخل ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔
بعد میں راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر شکتی سنگھ یادو نے کہا کہ اس ٹویٹ میں تابوت جمہوریت کے دفن ہونے کی نمائندگی کرتا ہے۔