مودی حکومت کے 8سال:معاشی سست رفتاری اور لاقانونیت کے نام
جمہوری اقدار کا انحطاط۔ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں 90فیصد اضافہ
نور اللہ جاوید
فلاحی اسکیمات کا محدود اثر۔’اچھے دن‘ کا وعدہ وکاس کی گنگا بہانے کے دعووں میں گم
وزیرا عظم نریندرمودی وزارت عظمی پر گزشتہ8سالوں سے متمکن ہیں،یہ عرصہ کسی بھی حکومت کی یا پھر سربراہ کی کامیابی و ناکامی کا جائزہ لینے کے لیےکافی ہے ۔مگر وزیر اعظم نریندر مودی کی شخصیت کا کرشمہ ہے کہ ان کی حکومت کے کام کاج، ملک کی ترقیاتی انڈیکس اور گزشتہ انتخابات میں عوام سے کیے گئے وعدوں اور ان کے ذریعہ شروع کیے گئے پروجیکٹوں کے نتائج کارڈکا تجزیہ اور محاسبہ کرنے کے بجائے وزیر اعظم کی مقبولیت کے پیرا گراف پر نیوز چینلوں پرسروے دکھائے جارہے ہیں یا پھر اس موضوع پرمباحثے ہورہے ہیں ۔ ان چینلوں اور وزیر اعظم مودی کے حامیوں و مداحوں کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جب امریکی ایجنسیاں ہندوستان میں اقلیتوں کی صورت حال اور پریس کی آزادی اور غربت کی شرح پر رپورٹ پیش کرتی ہیں تو اس کو ہندوستان کی دشمنی کا جامہ پہنا کر کر مسترد کردیا جاتا ہے کہ مودی نہیں بلکہ ہندوستان کے خلاف سازش قرار دیا جاتا ہے۔مگر جب ان ہی ملک دشمن ایجنسیوں میں سے کوئی وزیرا عظم مودی کی مقبولیت سے متعلق کوئی سروے دکھاتی ہے تو مداح سرا مودی اور ہندوستانی میڈیا کی اکثریت اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ حال ہی میں ایک غیر معروف امریکی کنسلٹ فارم ’’مورننگ کنسلٹ ‘‘کا ایک سروے اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔تمام نیوز چینلوں اور اخبارات نے اس کو اہتمام سے شائع کیا ہے۔ امریکی ایجنسی کے سروے کے مطابق پوری دنیا میں نریندر مودی سب سے مقبول لیڈر ہیں انہیں 72فیصد عوام پسند کرتے ہیں جب کہ صرف 21فیصد عوام ناپسند کرتے ہیں۔اس فارم نے واضح نہیں کیا ہے انہوں نے یہ مفروضہ کن بنیادوں پر قائم کیا ہے اور دنیا کے کن ممالک میں سروے کرکے اس نتیجے کو اخذ کیا ہے۔
نوٹ بندی کی وجہ سے معاشی مشکلات ، جلد بازی اور ناقص طریقے سے جی ایس ٹی کے نفاذ کے نتیجے میں ملک کی معیشت کا دیوالیہ پن، بینکنگ سسٹم کی سست رفتاری ، اچانک لاک ڈاون ،7ملین افراد کو بے یارو مدگا چھوڑ دیا جانا ،کورونا کی پہلی لہر کے باوجود ہیلتھ سسٹم کے سدھار کی طرف اقدامات نہیں کیے جانے کی وجہ سے دوسری لہر میں ملک بھر میں اسپتالوں کے باہر لمبی لمبی قطار ،تڑپتے بیمار، اپنی آنکھوں کے سامنے اپنوں کو تڑپتے دیکھنے کے دلخراش مناظر۔ دریائے گنگا میں تیرتی ہوئی لاشیں ، ویکسین پروگرام میں تاخیر،زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی ناراضگی اور احتجاج اور اب بے تحاشامہنگائی مار کے باوجود اگر مودی کی شخصیت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور بی جے پی ان کے چہرے کی بنیاد پر لگاتار انتخابات جیت رہی ہے تو یہ یقیناً اس کو وزیر اعظم مودی کی کرشماتی شخصیت کا ہی نتیجہ قرار دیا جاناچاہیے۔مگر سوال یہ ہے کہ اتنی ساری ناکامیوں کے باوجود مودی کی شخصیت کا کرشمہ سر چڑھ کر کیوں بول رہا ہے؟ اس سوال کا معروضی انداز میں تجزیہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ کسی بھی حکومت کی حسن کارکردگی کا پیمانہ صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ، کثیرلسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں انتخابات جیتنے کے کئی اور حربے ہوتے ہیں ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جمہوری نظام میں جب ساری توجہ اور فوکس جب ایک شخصیت پر مرکوز ہوجائے تو ملک تیزی سے فاشزم کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ایسے میں یہ سوال بھی لازمی ہے کہ کیا ہندوستان میں، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوری نظام ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جمہوری نظام زوال پذیر ہے؟ اگر ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟چوں کہ موقع وزیر اعظم مودی کی قیادت والی حکومت کی 8ویں سالگرہ کا ہے اس لیے مذکورہ بالا سوالات سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان نعروں اور وعدوں کا تجزیہ کیا جائے جن کی بنیاد پر نریندر مودی ملک کے سب بڑے عہدہ پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔وزیر اعظم مودی کے 8سالہ دور اقتدار میں ملک کی معاشی، سماجی اور معاشرتی صورت حال کاجائزہ لینا ضروری ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل اور مابعد ملک کے معمارو ں نے ’’آئیڈیا آف انڈیا ‘‘کے تحت بین المذاہب اخوت و بھائی چارہ ، ہم آہنگی اور مساوات، یکساں مواقع ، عدلیہ ،پریس ،اظہار خیال اور مذہبی آزادی کو ہندوستان کے آئین کا بنیادی حصہ بنایا۔ چناں چہ کسی بھی حکومت کی کامیابی و ناکامی کا تجزیہ کرنے والے عموما اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
کسی بھی ملک کے عوام کا اتحاد ، سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارہ ملک کی معاشی نمو سے کہیں زیادہ اہم ہے۔معاشی نمو میں اتار چڑھاو معمول سی بات ہے ۔ داخلی اور خارجی عوامل کی بنیادوں پر معاشی نمو میں اتار چڑھاو ہوتے رہے ہیں ۔معاشی نمو میں کمی آنے کے بعد اس کی بلندی کے امکانات باقی رہتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے صیحی سمت میں اقدمات کیے جائیں۔ اگر ملک کا اتحاد تقسیم کی راہ پر گامزن ہوجائے اور بھائی چارہ و مساوات ختم ہوجائے تو ملک نہ صرف سماجی طور پر بکھراو کا شکار ہوگا بلکہ معاشی دیوالیہ پن کا بھی شکار بھی ہو گا اور عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔جب ایک مرتبہ ملک کے عوام تقسیم ہوجاتے ہیں تو ان کو متحد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے۔چناں چہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ناگیندر کمار شرما کہتے ہیں کہ’’ دنیا کا کوئی بھی ملک اندرونی خلفشار کا شکار ہوتا ہے تو غیر ملکی سرمایہ کاروں میں اپنی سرمایہ کاری کو لے کر عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ وہ سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ میں لگائے گئے پیسے کو بھی نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے مارکیٹ میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے، اس سے پوری معیشت کو شدید پریشانی اور خطرہ لاحق ہوجاتی ہے۔بدقسمی سے اس وقت ہندوستان اسی راہ پر گامزن ہے اور یہ انتہائی تشویش ناک ہے ۔ہندوستانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔عدم اعتماد کی فضا تیزی سے پھیل رہی ہے۔اگر مختلف معاشروں کے درمیان تصادم پر قابو نہیں پایا گیا تو اندیشے ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری سے خوف زدہ ہوں۔اس لیے ہندوستان کو اس طرح کی سہولیات کا سامنا نہ ہو اس کے لیےضروری ہے مختلف معاشروں کے درمیان تصادم کو روکا جائے اورمرکزوریاستی حکومت دونوں اس کے لیے خصوصی کوشش کرنی چاہیے۔
’’8سالہ دور اقتدار اور آئیڈیا آف انڈیا‘‘
2013میں وزارت عظمی کا امیدوار بننے کے بعد نریندر مودی نے گجرات کے وزیرا علیٰ کی شبیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔12سال تک گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے اپنی دو شبیہ بنائی تھیں۔ایک شبیہ ان کی گجرات قتل عام کے بعد مسلم مخالف لیڈر کے طور پر بنی،12سالوں تک انہوں نے اپنی اس شبیہ کو انتخابی کامیابی کا ذریعہ بنایا۔مگر اس کے ساتھ انہوں نے اپنی ایک’’ صنعت نواز اور ترقی پسندلیڈر ‘‘ کی بھی شیبہ بنائی ۔گجرات میں ہیومن ڈیولپمنٹ کی جوبھی صورت ہو مگر ملک بھرمیں یہ پرچار کیا گیا ان کے دور اقتدار میں گجرات نے بے مثال ترقی کی ہے۔’’گجرات ماڈل‘‘ کا ایک مفروضہ قائم کیا گیا۔چناں چہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ او ر ’’اچھے دن آئیں گے ‘‘کا نعرہ اپنے آپ میں ایک کشش رکھتا تھا۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے کہا گیا وہ ایک مرتبہ مودی جی پر یقین رکھیں، انہوں نے مسلمانوں کوپیغام دیا کہ وہ مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں ۔2014میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی جب پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں داخل ہورہے تھے تو انہوں نے پارلیمنٹ کے صدر دروازے کو سجدہ کرتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ گرچہ ان کا خاص نظریات والی پارٹی سے تعلق ہے مگر ان کے لیےسب زیادہ اہم ’’جمہوریت کایہ مندر ‘‘ہے۔مگرسوال یہ ہے کہ گزشتہ 8سالوں میں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اور جمہوری نظام حکومت کے تقاضے پر مودی حکومت کھری اتری ہے یا نہیں ہے؟ گاندھی جی نے ہندوستان کا جوتصور اتحاد، سلامتی اور مساوات کا جو تصور پیش کیا تھااس میں اضافہ ہوا ہے یا پھر حالات پہلے سے بدتر ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے مودی حکومت کی 8سالہ کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔مختلف غیر سرکاری ایجنسیوں اور اداروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مودی دور حکومت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں 90فیصد اضافہ ہوا ہے۔29فروری 2022کو ’’جینوسائیڈ واچ‘‘ کے بانی صدر گریگوری اسٹینٹن نے انگریزی نیوز پورٹل ’’دی وائر‘‘ کے لیےمشہور صحافی کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے وضاحت کی کہ’ ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی کے نمایاں آثار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ نسل کشی ہٹلر کے طرز پر یہودیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کی طرح ہو بلکہ یہ ہجومی تشدد کی شکل میں ہوگی اور دھیرے دھیرے یہ اکثریتی طبقہ کے شعور کا یہ حصہ بن جائے گا۔ اعداد و شمار سٹینٹن کے اندیشے و خطرات کی تصدیق کرتی ہیں ۔دہلی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ایکٹ ناو فار ہارمنی اینڈ ڈیموکریسی (انہد) نے گجرات فسادات کے 20سال مکمل ہونے پر ’’ Hate Grips the Nation‘‘کے نام سے ایک کتاب شائع کی ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف خطرنات حدتک نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2014سے 2022تک 878واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں 54فیصد نفرت انگیز بیانات اور 64فیصد نفرت انگیز تشدد کے واقعات شامل ہیں۔ سب سے زیادہ 2017میں نفرت انگیز واقعات رونما ہوئے ہیں ۔نفرت انگیز تقاریر اور تشدد میں شامل ہونے والوں میں سے بیشتر کا تعلق حکمراں جماعت بی جے پی سے رہا ہے۔انہد کی حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ نفرت انگیز تقاریراور نفرت انگیز جرائم مسلمانوں کے خلاف 73.3فیصد اور عیسائیوں کے خلاف 26.7فیصد رونما ہوئے ہیں ۔ان میں مسلمانوں کے خلاف 61.6فیصد نفرت انگیز تقاریر ہے اور 38.4فیصد نفرت انگیز جرائم ہیں۔
اس رپورٹ کا تجزیہ کرنے سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آتی ہے ہر سال نفرت انگیز تقاریر کے مقابلے نفرت انگیز جرائم کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے ۔ اس کے باوجود عدالتیں اور پولیس انتظامیہ نفرت انگیز بیانات کا نوٹس لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دہلی کی عدالت نے تو مضحکہ خیز انداز میں کہہ دیا کہ اگر کوئی مسکراتے ہوئے نفرت انگیز بیانات دیتا ہے تو اس کو جرم میں شمار نہیں کیا جاے گا ۔مسلمانوں کے علاوہ عیسائی طبقے کوبھی اپنی آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں سے زیادہ نفرت پر مبنی جرائم کا سامنا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014 سے 2019 تک، سیاست دانوں کی تقاریر میں فرقہ وارانہ منافرت کی دعوت میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہندوستانی معاشرے میں اقلیت مخالف تشدد کی لہر پیدا ہوئی۔۔دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والے یتی نرسنگھا نند، بی جے پی لیڈران کی شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے خلاف پر امن انداز میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات کے نتیجے میں فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تین چوتھائی مسلمان تھے۔
بین الاقوامی جریدہ ’’دی اکانومسٹ ‘‘نے ہندوستان میں اقلیتوں کی صورت حال پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ نریندر مودی کی حکومت اقلیتوں کے خلاف مشترکہ اور وسیع پیمانے پر جارحیت کو نظر انداز کر رہی ہے اور بعض اوقات حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے۔ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہندو ووٹوں کو مضبوط کرنے کے لیے تیزی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور تشدد کا سہارا لے رہی ہے تاکہ ذات پات یا نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہندو معاشرے کو متحد کرکے اس کا فائدہ حاصل کیا جائے‘‘۔ دی اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مرکز کے اشارے پر پولیس نے مذہبی ساخت، یا نفرت انگیز جرائم کی تعداد جیسے اعدادوشمار کو رپورٹ کرنا بند کر دیا ہے۔
ماہر اقتصادیات اور صحافی مہر شرما کہتے ہیں کہ بی جے پی ’’فرقہ وارانہ نفرت کی آگ سے کھیل رہی ہے’’ تاکہ سست رفتاری کی شکار معیشت اور کوویڈ 19 وبائی امراض کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔یہ صورت حال صرف دسیوں لاکھوں اقلیتوں کے تحفظ کے لیےسنگین نہیں ہے بلکہ ہندوستان کا لبرل اقدارسے تعلق بھی ختم ہوسکتا ہے اور اس کی بھاری قیمت ملک کو چکانی ہوگی ۔
اسکالر اور سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر اپوروا آنند ’’ہفتہ روز دعوت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مودی حکومت کے خوش کن نعروں پر یقین رکھنے والے خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ہم سب نے پہلے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ مودی کی قیادت میں اگر بی جے پی کی حکومت بنتی ہے تو اس کی ملک کو بڑی قیمت چکانی ہوگی۔آج جس طریقے سے ملک تقسیم کا شکار ہے وہ صورت حال 1947میں بھی تھے۔ان کے عزائم و منصوبے پہلے سے ہی واضح تھے ۔اس کے باوجود لوگوں نے ان پر یقین رکھا۔
ملک میں جو صورت حال ہیں اس پر قابو پانا مودی کے لیےکوئی مشکل نہیں ہے کیوں کہ افسرشاہی پر کنٹرول اور اپنے مطابق انہیں چلانے کی صلاحیت وزیرا عظم مودی میں اتم درجے میں موجود ہے۔مگران کے خلاف اقدامات کرنے کے بجائے وہ مکمل طور پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ اس پر سوالات اٹھنے لازمی ہیں۔
مودی کی فلاحی اسکیمیں اوراس کے اثرات
وزیرا عظم نریندر مودی اور ان کی قیادت میں بی جے پی کی کامیابی میں یقینا ہندتو اور جارحانہ قوم پرستی کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر مودی جنہیں گجرات میں 12 سال اقتدار میں رہنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ صرف جذباتی نعرے اور موہومہ ’’قابل فخر ماضی کی بازیافت‘‘ کی بنیاد پر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے ہیں۔ مودی کی سیاست سے اختلافات کیے جاسکتے ہیں اور ان کی پولرائزیشن کی سیاست کو مسترد جاسکتا ہے مگر اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا انہیں عوام سے جڑنے کا ہنر معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طریقے سے عوام کے دلوں پر دستک دی جاسکتی ہے ۔چناں چہ 2014میں اقتدار سنبھالنے کے بعد فوری طور انہوں نے جن دھن یوجنا کے تحت بینکوں میں آسانی سے لاکھوں ہندوستانی شہریوں کے اکاؤنٹ کھلوائے ۔اس سے بینکوں کو بڑی رقم مل گئی ،اس کے بعد انہوں نے گاندھی جینتی کے موقع پر سوچھ بھارت مہم کی شروعات کی ۔اس کے علاوہ پردھان منتری آواس یوجنا، سوبھاگیہ یوجنا، اجوالایوجنا، آیوشمان بھارت، نل جل یوجنا ،پردھان منتری فصل یوجنا، یہ وہ اسکیمیں ہیں جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑا ہے۔ اگرچہ ان میں کئی ایسی اسکیمیں ہیں جس کی شروعات گزشتہ حکومتوں کے دور میں شروع ہوگئی تھی مگر مودی جی خاصیت یہ ہے کہ وہ ری پیکیجنگ کے ماہر ہیں ۔انہیں اپنی اسکیموں کا پرچار کرنا آتا ہے۔جس میں کانگریس ہمیشہ پیچھے رہی ہے۔
اجولا یوجانا کے نام پر فریب
مذکورہ بالا تمام اسکیموں کی کامیابی و ناکامی کاان صفحات تجزیہ ممکن نہیں ہے ۔اجول یوجنا مودی حکومت کی قیادت والی حکومت کی وہ اسکیم جس کا سب سے زیادہ پرچار کیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا ہے یہ اسکیم نہ صرف خواتین کو دھوئیں سے نجات دلائی بلکہ اس اسکیم کی وجہ سے خواتین امپاورڈ بھی ہوئی ہیں ۔2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے صاف ایندھن کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے اتر پردیش کے ضلع بلیا سے اجولا اسکیم کا آغاز کیا۔ اسکیم کا ابتدائی ہدف غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے پانچ کروڑ گھرانوں میں ایل پی جی کنکشن تقسیم کرنا تھا۔حکومت نے دسمبر 2020 کی آخری تاریخ سے قبل اس ہدف کو بڑھا کر آٹھ کروڑ گھرانوں تک پہنچا دیا اس سال مارچ میں پارلیمنٹ میں حکومت نے دعویٰ کیا کہ اجولا یوجنا کے تحت جو ہدف مقرر کیے گئے تھے ان کو حکومت نے مکمل کرلیا ہے۔حکومت نے اس اسکیم کی شروعات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس سے 89فیصد گیس کے استعمال میں اضافہ ہوگا مگر حال میں کی گئی ایک سروے کے مطابق 22 ریاستوں میں صرف 20فیصد گیس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔جن گھروں میں گیس ہے ضروری نہیں ہے کہ وہاں اس کا استعمال بھی ہورہا ہو۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سرو ے کی حالیہ رپورٹ ایک مختلف کہانی بیان کرتی ہے۔ پہلے دور میں مرکزی حکومت نے 22 ریاستوں کی تفصیلات جاری کی ہیں جو 2015-16 سے 2019-20 تک صاف کھانا پکانے والے ایندھن کے حقیقی استعمال میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ بہار میں، مثال کے طور پر37.8فیصدگھرانے (شہری اور دیہی) کھانا پکانے کا صاف ایندھن استعمال کرتے ہیں، سروے نوٹ کرتا ہے۔2015-16 میں، اسکیم شروع ہونے سے پہلے، پچھلے سروے کے مطابق، ریاست میں تقریباً 17% گھرانے کھانا پکانے کے صاف ایندھن کا استعمال کر رہے تھے۔ دوسری ریاستیں جو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے پہلے راؤنڈ میں سامنے آئی ہیں ان میں بھی اسی طرح کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اجولا اسکیم کے آغاز سے ہی ماہرین اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ تقسیم شدہ ایل پی جی سلنڈر اس جوش و جذبے کے ساتھ استعمال نہیں کیے جا رہے ہیں جس طرح پہلی بار کیے گئے تھے، اس سے اسکیم کا اصل مقصد ختم ہو جائے گا۔ ان بیانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت باقاعدگی سے اسکیم کے استفادہ کنندگان کے ذریعہ ایل پی جی سلنڈروں کی ری فلنگ کے اعدادوشمار شیئر کرتی ہے۔مدراس اسکول آف اکنامکس کے کے ایس کوی کمار حکومت کے اس دعویٰ پر سوال کھڑا کرتے ہیں کہ ری فلنگ کے جو اعداد و شمار مرکزی حکومت پیش کر رہی ہے، وہ سپلائرز کی طرف سے آتے ہیں مگر اجوالا اسکیم کی کامیابی کا پتہ لگانے کے لیے صارف کی طرف سے ڈیٹا کی بھی ضرورت ہے۔دیہی گھرانوں میں ایل پی جی سلنڈر کے استعمال میں کمی کی کئی وجوہات ہیں ۔سب سے پہلے، ملک کے زیادہ تر گھرانے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں لکڑی، چپس، فصل کی باقیات اور گوبر کے کیک کو کھانا پکانے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے لیے تقریباً مفت دستیاب ہیں۔دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے سبسڈی پر سلنڈر دینا بند کر دیا۔ براہ راست فائدہ کی منتقلی کے تحت، اب لوگوں کو پہلے سلنڈر کو بھرنا پڑتا ہے اور پھر سبسڈی کی رقم بعد میں ان کے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے۔وہ بھی بہت ہی معمولی ہے۔اس وقت ایل پی جی سلنڈر کی ری فلنگ کی قیمت لگ بھگ926روپے ہے جب کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں تقریباً 220 ملین افراد32 روپے یومیہ سے بھی کم آمدنی میں زندگی گزارتے ہیں۔ تقریباً 44 ملین خاندان4,800 ماہانہ روپے سے بھی کم زندگی گزار تے ہیں۔کوویڈ اور لاک ڈاون نے آمدنی کو متاثر کیا ہے ایسے میں 900 روپے خرچ کرنا ایک بہت بڑا معاشی بوجھ ہے جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے۔کم وبیش یہی صورت حال آیوشمان بھارت کی اسکیم کی ہے۔ 8کروڑ افراد کو ہیلتھ کارڈ جاری کیے گئے مگر اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد محض 3کروڑ ہے۔اسی طرح پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا پر ماہرین نے سوال کھڑے کیے ہیں ۔ماہرین کے مطابق اس اسکیم کا کسانوں سے زیادہ مودی نواز کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔سوچھ بھارت مشن کا حشر بھی دیگر یوجناوں کی طرح ہوا ہے۔2017سے لے کر اب تک 300افراد کی نالی صفائی کے دوران موت ہوئی ہے۔جبکہ اس اسکیم کی شروعات کرتے وقت کہا گیا تھا اس مشن کے تحت سروں پر گندگی ڈھونے کو ختم کردیا جائے گا ۔اسی طرح ملک میں کوئی بھی ایسا گھر نہیں ہوگا جہاں بیت الخلا نہ ہو۔اس ہدف کے مکمل ہونے پر اب تک کوئی آزادانہ سروے سامنے نہیں آسکا ہے۔
حکومت کی فلاحی اسکیمیں خزانے پر بوجھ ثابت ہورہی ہے چنانچہ وزارت خزانہ میں اخراجات کے سکریٹری ٹی وی سوماناتھن نے فروری میں ایک انٹریو میں کہا تھا کہ حکومت نے حکومت کے اسپانسرڈ 131 اسکیموں کی نشاندہی کی ہے جس کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی جس میں وزارت تعلیم اور وزارت زراعت کی اسکیمیں سب سے زیادہ ہیں ۔اس کے علاوہ فلاحی اسکیموں کے نام پر لوگوں کو لبھانے کی کوشش پر جہاں ناقدین سوال اٹھارہے ہیں وہیں نیتی آیوگ نے بھی اپنی سفارشات میں فلاحی اسکیموں کو کم کرنے کی سفارش کی ہے۔اٹل بہاری واجپئی حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے یشونت سنہا نے، جو مودی سے اختلافات کی وجہ سے پارٹی چھوڑ چکے ہیں اپنے ایک انٹریو میں کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں نئی سرمایہ کاری نہیں آرہی ہے معیشت سست روی کی شکار ہے اس لیے فلاحی اسکیموں پر زیادہ رقم خرچ کرنا کوئی دانش مندانہ قدم نہیں ہے اس سے ملک کی معیشت پر بوجھ پڑے گا۔
مودی دور حکومت میں ملک کی معاشی حالت
2014میں جب نریندر مودی نے ملک کے 24ویں وزیراعظم کے طور پر ملک کا اقتدار سنبھالا تھا اس وقت دنیا عالمی کسابازار ی کے دور سے گزررہی تھی، خام تیل کی قیمتیں ریکارڈ بلندیوں پرتھیں ۔ افراط زر مسلسل دوہرے ہندسوں میں تھا، مالیاتی خسارہ بلند تھا، سرمایہ کاری سست روی کی شکار تھی۔اس کی وجہ سے روزگار کے مواقع کم ہوگئے تھے مگر مودی کی خوش نصیبی تھی کہ ان کے اقتدار سنبھالنے کے چند مہینے بعد ہی عالمی کساد بازاری قابو می آئی، خام تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی آئی۔اس صورت حال کو مودی نے اپنی خوش نصیبی سے تعبیر کیا تھا۔اس کے نتیجے میں پہلے ہی سال (مالی سال 15) میں شرح نمو 6.4 فیصد سے بڑھ کر 7.4 فیصد ہو گیا، افراط زر 9.38 فیصد سے کم ہوکر5.83 فیصد تک پہنچ گیا، اور مالیاتی خسارے میں 3فیصد کمی آئی ۔خام تیل کی قیمتوں میں کمی آئی، افراط زر پر بیرونی دباؤ اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ میں کمی کی وجہ سے حکومت کو معیشت کو بہتر طریقے سے سنبھالنے میں مدد ملی۔اس کی وجہ سے ملک اگلے چند سالوں تک ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔تاہم نومبر 2016 میں نوٹ بندی کے حیران کن اعلان نے معیشت کو متاثر کردیا، بالخصوص غیر منظم سیکٹر اور چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتیں متاثر ہوگئیں اور اس کا اثر واضح طور پر جی ڈی پی کی نمو میں ظاہر ہوا۔ مالی سال 17اور مالی سال 20 کے درمیان، جی ڈی پی کی شرح نمو صرف 5.7 فیصد رہی۔ اسی درمیان جلدبازی میں جی ایس ٹی کے نفاذ نے رہی سہی کسر پوری کردی۔مودی ان اقدامات کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ ان میں قوت فیصلہ کی صلاحیت ہے جو اقدامات کانگریس سالوں کی بحث و مباحثہ کے بعد بھی نافذ کرنے کی سکت نہیں رکھتی اس کو وہ آسانی سے کرلیتے ہیں ۔مگر مودی کے قوت فیصلے کی وجہ سے مالی سال 20 20میں شرح نمو 3.8 فیصد کی تشویشناک سطح پر آ گئی ۔ معیشت کو رفتار دینے اور صنعت کاروں کے نقصانات کو کم کرنے کے لیےحکومت کی طرف سے اعلان کردہ اقدامات جیسے کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی نے خزانے کو مزید نقصان پہنچایا۔ مالیاتی خسارہ مالی سال 20 میں4.7 فیصد تک واپس آ گیا۔2020 کے اوائل میں کورونا وبائی کے پھیلنے کے بعد بے مثال معاشی چیلنجز سامنے آئے۔ ملک کو تکنیکی کساد بازاری میں ڈالا گیا، افراط زر میں اچانک اضافہ دیکھا گیا اور مالیاتی خسارہ شدید دباؤ میں آ گیا۔لاک ڈاون کے ختم ہونے کورونا وبا پر قابو پانے کے بعد امید کی جارہی تھی معیشت رفتار پکڑے گی اور حالات بہتر ہوں گے مگر روس۔یوکرین جنگ نے سپلائی چین کو متاثر کردیا اور اس کا سیدھا اثر ملک کی معیشت پر پڑا۔اس کی وجہ سے مہنگائی میں خطرناک حدتک اضافہ ہوا ہے۔ان حالات سے نمٹنا مودی کے لیےایک بڑا چیلبج ہے۔
2014میں وزیرا عظم مودی نے ہر سال دو کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔مگرنئی نوکری دینے کے بجائے گزشتہ پانچ سالوں میں 2.5کروڑ ملازمتیں گھٹی ہیں ۔2017تک روزگار کی شرح 46فیصد تھی جو گھٹ کر 40فیصد رہ گئی ہے۔ہندوستان میں اس وقت 90کروڑ افراد روزگار کے اہل ہیں جس میں سے نصف نے روزگار کی امید ہی ترک کردی ہے۔خواتین میں سب سے زیادہ ملازمتوں کی کمی آئی ہے ۔حکومت کی ہی رپورٹ کے مطابق صرف 9فیصد خواتین کے پاس ملازمت رہ گئی ہے۔خود کو اسٹیشن پر چائے فروخت کرنے والے کے طور پر پیش کرنے والے نریندرمودی کی قیادت والی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ گزشتہ حکومت کے مقابلے ان کے دور میں لوگوں کی آمدنی میں 73فیصد کا اضافہ ہوا ۔اس سے لوگوں کی حالت بہتر ہوئی مگر دوسری طرف ملک میں عدم مساوات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔’’ورلڈ انکوالیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں آزادی کے بعد سے ہی دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور عدم مساوات میں بتدریج کمی آرہی تھی مگر حالیہ برسوں میں ملک ایک بار پھر نوآبادیاتی دور کی طرح عدم مساوات کے دور میں پہنچ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک کی 5فیصد دولت صرف 6فیصد افراد کے پاس ہے۔اس میں سے ایک فیصد کے پاس ملک کی 33فیصد دولت ہے 50فیصد افراد کے پاس 13فیصد دولت ہے۔ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور ملک کی دولت کا چند ہاتھوں میں سمیٹنے کے نہ صرف معاشی اثرات ہوتے ہیں بلکہ سماجی اور سیاسی اثرات بھی ہوتے ہیں ۔زرعی قوانین اور تحویل اراضی قوانین کو اسی تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔
مودی حکومت-2 کے بڑے سیاسی فیصلے اور اس کے اثرات
2019میں پہلے سے زیادہ عوامی لہر میں اقتدار میں آنے کے بعد خود اعتمادی میں اضافہ ہونا لازمی تھا۔اپوزیشن پست ہوچکی تھی اور اس کے پاس مقابلہ کرنے کے لیےکچھ بھی نہیں تھا۔چناں چہ 2019مئی میں دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد طلاق ثلاثہ کے خلاف قانونی سازی کی گئی ،یہ پرچار کیا گیا یہ فیصلہ مسلم خواتین کو راحت پہنچانے والا ہے جبکہ یہ دستور کی بنیادی حقوق کے ساتھ چھیڑ خانی تھی۔ دستور میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔اسی طرح اگست میں جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات 370کو سنسنی خیز حالات پیدا کرتے ہوئے ختم کردیا گیا۔اس کے لیےپہلے اسمبلی کو تحلیل کیا گیا ، جموں و کشمیر سے لداخ کو علیحدہ کیا اور اس کے بعد پارلیمنٹ سے قانون پاس کردیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دفعہ 370کی منسوخی بی جے پی کا دیرینہ ایجنڈا رہا ہے۔مگر سوال بی جے پی کا نہیں بلکہ سوال ملک کی سالمیت اور اتحاد کا ہے۔قانونی طور پر ضروری تھا کہ اس اقدام کے لیےجموں و کشمیر کی اسمبلی کو اعتماد میں لیا جاتا مگر اس سے بچنے کے لیےپہلے ہی اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اس قانون کی منسوخی سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوا ؟ قانون کی منسوخی کے وقت پارلیمنٹ میں حکمراں جماعت نے کہا تھا کہ اس قانون کی منسوخی سے جموں و کشمیر کی ہندوستان سے انسلاک میں مضبوطی آئے گی ، سرمایہ کاری کے امکانات میں اضافہ ہوگا اور کشمیری پنڈت اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے کشمیر کے ایشوز کو حل کرنے اور ہندو پاک کے درمیان بہتر تعلقات کے لیےکوشاں سماجی کارکن اوپی شاہ جنہوں نے حال ہی In Pursiit of Peace: Improving Indo-Pak Relationsکتاب مرتب کی ہے، کہتے ہیں کہ 370کی منسوخی سے مثبت اثرات تو نہیں منفی اثرات ہی سامنے آئے ہیں۔جموں و کشمیر کا ہندوستان کا انسلاک 2019میں نہیں بلکہ 1947میں ہوا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر پرہندوستان کی پکڑ مضبوط ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ہی وقت گزرنے کے ساتھ 370بھی غیر موثر ہورہی تھی ۔جیسا کہ جس وقت یہ قانون بن رہا تھا اس وقت پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ یہ قانون خود بخود غیر موثر ہوجائے گی۔سری نگر میں ملک کے تمام بڑے ہوٹلوں کے برانچ ہیں ۔اسی طرح جی ایس ٹی ملک کے دیگر ریاستوں کی طرح جموں و کشمیر بھی نافذ ہوا تھا۔کشمیری عوام کی مزاحمت میں بھی کمی آرہی تھی ۔مگر اچانک 370کی منسوخی سے کشمیر کے عوام کے اعتماد میں کمی آئی اس کی وجہ سے مہینوں اسکول و کالج اور کاروباری سرگرمیاں بند رہی جس کا اثر ملک کی معیشت پر بڑا۔علاوہ ازیں کشمیری پنڈت تو وادی میں جاکر آباد نہیں ہوئے مگر جو رہ گئے تھے وہ اب وہاں سے آنا چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جوحالات رونما ہوئے ہیں اور جس طرح سے ٹارگٹ کلنگ کی جاری ہے اس نے اس اندیشے میں اضافہ کردیا ہے کہ کہیں کشمیر ایک بار پھر 90کی دہائی کے حالات میں نہ پہنچ جائے۔
2019میں مودی حکومت نے جو دوسراسب سے بڑا فیصلہ کیا وہ شہریت ترمیمی ایکٹ تھا۔اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی بنیادوں پر مظالم کے شکار اقلیتوں کو، جن میں ہندو، سکھ، بدھشٹ، عیسائی شامل ہیں، ہندوستانی شہر یت دینے کا انتظام ہے۔یہ قانون آزاد ہندوستان کا پہلا قانون ہے جومذہبی تفریق کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔پارلیمنٹ میں اس قانون کو پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ اس کرونالوجی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔پہلے یہ قانون بناہے اس کے بعد ملک بھر میں آسام کے طرز پر این آرسی کو نافذ کیا جائے گا۔وزیر داخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ کا پارلیمنٹ کے فلور پر یہ بیان کافی اہمیت کا حامل کا تھا ۔اس کے نتیجے میں ملک بھرمیں احتجاج کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔’’شاہین باغ ‘‘کا تاریخی احتجاج اسی قانون کے رد عمل تھا۔سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس اشوک گنگولی کہتے ہیں کہ اس قانون سازی کا مقصد بنگال میں حکومت حاصل کرنا تھا کیوں کہ بنگال میں 100اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں متوا سماج موثر ہیں۔1970کے بعد بڑی تعداد میں دلت طبقہ متوا سماج ہجرت کرکے ہندوستان میں آباد ہوا۔بنگال کے شمالی 24پرگنہ، جنوبی 24پرگنہ، ندیا ، ہگلی اور ہوڑہ ضلع میں ان کی بڑی تعداد ہے۔ان کی ایک بڑی آبادی شہریت کی منتظر ہے۔مگر اس قانون کو نافذ ہوئے تین سال بیت گئے ہیں اب تک اس قانون کا نفاذ دور کی بات اب تک اس کے اصول و ضوابط بھی طے نہیں ہوئے چنانچہ اس فیصلے کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ سے 2021کے بنگال اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کونقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2019کے پارلیمانی انتخابات میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نام پر بی جے پی نے بنگائوں، بارک پور، رانا گھاٹ اور ہگلی لوک سبھا جیسی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی مگر اب صورت حال یہ ہے کہ بنگائوں سے ممبر پارلیمنٹ شانتانو ٹھاکر جو متواج سماج کی سربراہ بڑی ماں کے پوتے ہیں مرکز میں وزیر بننے کے باوجود ناراض ہیں اور باغیانہ تیور اپنائے ہوئے ہیں۔
***
***
دریائے گنگا میں تیرتی ہوئی لاشیں ، ویکسین پروگرام میں تاخیر،زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی ناراضگی اور احتجاج اور اب بے تحاشامہنگائی مار کے باوجود اگر مودی کی شخصیت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے اور بی جے پی ان کے چہرے کی بنیاد پر لگاتار انتخابات جیت رہی ہے تو یہ یقیناً اس کو وزیر اعظم مودی کی کرشماتی شخصیت کا ہی نتیجہ قرار دیا جاناچاہیے۔مگر سوال یہ ہے کہ اتنی ساری ناکامیوں کے باوجود مودی کی شخصیت کا کرشمہ سر چڑھ کر کیوں بول رہا ہے؟ اس سوال کا معروضی انداز میں تجزیہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ کسی بھی حکومت کی حسن کارکردگی کا پیمانہ صرف انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ، کثیرلسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں انتخابات جیتنے کے کئی اور حربے ہوتے ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 جون تا 18 جون 2022