ضمنی انتخابی نتائج کا پیغام

مغربی بنگال میں بی جے پی کے دن لد گئے

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

مہاراسٹر میں ہنومان چالیسا کی سیاست کام نہ آئی۔بہاراور چھتیس گڑھ نے بھی مایوس کیا
راشٹریہ سویم سیوک (خادم) سنگھ (آر ایس ایس) جب سے راشٹریہ شاسک (حاکم) سنگھ میں تبدیل ہوا سیاست کا آوا ہی بدل گیا۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اقتدار عوام کی خدمت کرنے کا ذریعہ تھا۔ انتخابی عمل اقتدار حاصل کرنے کا وسیلہ تھا۔ اس لیے سیاستدانوں کا زیادہ وقت عوام کے مسائل حل کرنے میں صرف ہوتا تھا اور اس کا ایک قلیل حصہ انتخابی مہم کی نذر ہوجاتا تھا۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اقتدار کا حصول و قیام سیاسی زندگی کا مقصد حقیقی بن گیاہے ۔ اس لیے فی الحال سارا وقت انتخابی مہم میں لگانے کی تعریف و توصیف ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کو جز وقتی سیاست کاطعنہ دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کی مانند دن رات انتخابی موڈ میں رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس طرز فکر کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ ہر انتخابی نتیجہ اگلے الیکشن کی تیاری بن چکا ہے۔ اترپردیش میں کامیابی کے فوراً بعد جب وزیراعظم اپنے آبائی صوبہ گجرات کے دورے پر جاتے ہیں تو لوگ اسے سال کے اواخر میں منعقد ہونے والے ریاستی الیکشن سے جوڑ کر ان کی ستائش کرتے ہیں اور بڑے فخر سے کہا جاتا ہے یہ 24X7 انتخابی مہم ہے۔ بگاڑ کی اس کیفیت کو حالی نے یوں بیان کیا تھا ؎
غرض عیب کیجے بیاں اپنے کیا کیاکہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
ملک کے سارے نامور سیاسی مبصرین اس انتخابی جنون کا مقابلہ کرنے کی خاطر ایسے ہی پاگل پن کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ بی جے پی کو شکست دینے کی خاطر وہ ہر سیاسی جماعت کو شب و روز صرف اور صرف الیکشن جیتنے کے چکر میں پڑے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قومی مسائل اور عوام کے فلاح و بہبود سے اقتدار و سیاست کا رشتہ پوری طرح ٹوٹ چکا ہے گویا ان میں تین طلاق ہوچکی ہے۔ قومی سیاست پر اس کا سب سے برا اثر یہ پڑے گا کہ کل جب بی جے پی اقتدار سے محروم ہوجائے گی تب بھی لوگ اسی چکر میں پڑے رہیں گے۔ سیاستداں اس بات کو بھول چکے ہوں گے کہ سیاست کا مقصد کیا ہے اور اقتدار کس لیے حاصل کیا جاتا ہے؟ مودی اور شاہ کی ذہنی غلامی نے ایک ناپسندیدہ شئے کو سیاست کی مرغوب ترین خصوصیت بنادیا ہے۔ انتخابی عمل عیارانہ و مکارانہ جوڑ توڑ اور جھوٹے وعدے و کھوکھلے نعروں کی نذر ہوچکا ہے اور اس کیفیت پر یہ شعر صادق آتاہے ؎
تھا جوناخُوب، بتدریج وہی خُوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
قومی انتخابات کے درمیان صوبائی اور ضمنی الیکشن بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں کبھی بی جے پی فتح سے ہمکنار ہوجاتی ہے تو کبھی اس کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کا رویہ بہت دلچسپ بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ بی جے پی اگر جیت جائے تو قومی میڈیا میں انتخابی تنائج کے سواکچھ نظر ہی نہیں آتا اور ہار جائے تو انتخابی نتائج دکھائی ہی نہیں دیتے یعنی خبر دینے کی رسم ادا کردینے کے بعد خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ عظیم تر(مالی) مصالح کے پیش نظر ان پر کوئی تبصرہ اور مباحثہ وغیرہ کرنے جرأت نہیں کرتا۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ ماہ پانچ صوبوں کی انتخابی نتائج اور اس ماہ سامنے آنے والے چار صوبوں کے پانچ نتیجے ہیں۔ پچھلے مہینے جن پانچ ریاستوں میں ریاستی انتخاب ہوئے ان میں منی پور اور گوا کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ باقی تین میں سے دو ریاستوں میں بی جے پی جیت گئی اور ایک میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے باوجود وہ ذرائع ابلاغ پر چھا گئی۔
پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بی جے پی کی کراری شکست کے مقابلے اترپردیش کی فتح بھی پھیکی تھی کیونکہ یوپی میں بی جے پی اپنی گزشتہ کامیابی سے بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ اتراکھنڈ کی جیت پر وزیر اعلیٰ کی شکست کا کلنک لگا ہوا تھا اور اس ہارے ہوئے کھلاڑی کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بناکر بی جے پی نے تسلیم کرلیا کہ اس کے پاس ریاست کا نظم و نسق چلانے کی خاطر پشکر سنگھ دھامی سے بہتر رہنما موجود نہیں ہے۔ اترپردیش میں الیکشن ہارنے والے کیشو پرشاد موریہ کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا پیغام بھی قحط الرجال ہی کا ثبوت ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کو ناقابلِ تسخیر سیاسی جماعت کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایک ایسا ماحول بنایا گیا گویا بی جے پی نے اگلا قومی انتخاب جیت لیا ہو حالانکہ دلی ابھی دور ہے بقول شاعر ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اسمبلی انتخابات کے بعد ایک مہینے کے اندر ملک کے چار صوبوں میں منعقد ہونے والے انتخابات نے بی جے پی کو دن دہاڑے تارے دکھا دیے اور اس کی نیند اڑا دی۔ بی جے پی کو یہ اندازہ تو ہر گز نہیں رہا ہوگا کہ اس طرح اس کا سوپڑا صاف ہوجائے گا۔ اس بار رام نومی کے بہانے ملک میں خوب نفرت انگیزی کی گئی مگر وہ تیر بہ ہدف بھی نشانہ چوک گیا۔ یہ انتخابات چار ریاستوں میں پانچ سیٹوں پر ہوئے۔ ان میں سے ایک لوک سبھا سیٹ تھی اور چار اسمبلی کی نشستیں تھیں۔ پارلیمانی نشست آسنسول کی تھی جو بی جے پی کے سابق وزیر بابل سپریو کے استعفیٰ سے خالی ہوئی تھی۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کے لیے اس نشست کی تاریخی حیثیت ہے۔ 2014کے قومی انتخاب سے قبل اس ریاست میں بی جے پی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس وقت پہلی مرتبہ بی جے پی کو دو پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی ان میں سے ایک دارجلنگ کی سیٹ اس نے اپنی حلیف گورکھا جن مکتی پارٹی کی مدد سے جیتی تھی اس لیے اپنے بل بوتے پر گویا آسنسول سے ہی کھاتہ کھلا تھا۔ وہاں سے بابل سپریو کامیاب و کامران ہوکر ایوان پارلیمان میں پہنچے تھے۔
بی جے پی نے بابل سپریو کو اس کامیابی کا انعام دے کر مرکزی وزارت سے نواز دیا۔ 2019 کے انتخاب میں پھر سے بابل سپریو نے آسنسول میں زبردست کامیابی درج کرائی لیکن اس بار بی جے پی 18؍نشستیں جیت چکی تھی ۔ فتح کے غرور میں احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے بابل سپریو سے وزارت چھین لی اوراس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بی جے پی کی رکنیت کو لات مار کے ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے۔ اس طرح آسنسول کی نشست پر انتخاب کی نوبت آن پڑی۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ممتا بنرجی ان کو پھر سے وہی نشست پر لڑاتیں لیکن جو شخص گزشتہ دو مرتبہ ٹی ایم سی کے بخیہ ادھیڑ چکا تھا رائے دہندگان کواسے ووٹ دینا مشکل ہوسکتا تھا اس لیے ممتا نے ایک بالکل نیا چہرا ’شتروگھن سنہا‘ کو میدان میں اتارا۔
شتروگھن سنہا کا سیاسی کارواں بی جے پی سے شروع کر کانگریس سے ہوتے ہوئے ٹی ایم سی میں پہنچا لیکن انہوں نے کبھی بھی فرقہ واریت کو ہوا نہیں دی۔ ممتا کا یہ داو کامیاب رہا اورشترو گھن سنہا نے تین لاکھ سے زیادہ کےفرق سے بی جے پی امیدوار کو ہرا کر غیر معمولی کامیابی درج کرائی ۔ یہاں پر ترنمول کے ووٹ کا تناسب 57 فیصد تھا جبکہ بی جے پی کو صرف 36 فیصد پر اکتفاء کرنا پڑا ۔ بی جے پی کی اس کراری شکست کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اب مغربی بنگال کے رائے دہندگان اس سے بیزار ہو چکے ہیں اور سوڈاو واٹر کے جھاگ کی مانند کمل کے اثرات زائل ہورہے ہیں ۔ ممتا بنرجی نے بی جے پی کو اس کے گڑھ میں زندہ دفن کرکے بتادیا ہے کہ اب بنگال میں اس کے دن لد گئے ۔
شتروگھن سنہا اپنے بول بچن کے لیے مشہور ہیں ۔ ان کے سیاسی مکالمہ بھی بڑی آسانی سے چھا جاتے ہیں اس لیے ایوان پارلیمان میں سنہا کی تقاریر سے نہ صرف ممتا اور ٹی ایم سی کا فائدہ ہوگا بلکہ بی جے پی کے لیے مسائل پیدا ہوں گے ۔ مہوا مترا پہلے ہی سرخیوں میں بنی رہتی ہیں اب اس میں ایک بہترین اضافہ ہوجائے گا ۔بابل سپریو جیسے آرزو مند رہنماکو اگر ممتا یوں ہی چھوڑ دیتیں تو وہ بہت جلد کہیں اور نکل جاتے اور بعید نہیں کہ بی جے پی میں لوٹ جاتے۔ ان کو پارٹی سے باندھے رکھنے کی خاطر بالی گنج اسمبلی سیٹ سے الیکشن لڑایا گیا ۔ یہ شہری حلقۂ انتخاب ہے جہاں بی جے پی کے کافی اثرات ہوا کرتے تھے ۔ پچھلے انتخاب سے قبل اشتراکیوں نے ممتا کے مظالم سے تنگ آکر ’پہلے رام پھر بام (بایاں بازو)‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے نتیجے میں اس کا ووٹ بنک بی جے پی کی جانب چلا گیا اور شاہ جی ہوا میں اڑنے لگے ۔
اسمبلی انتخاب میں ناکامی کے بعد اشتراکیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا تو انہوں نے بابل سپریو کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سی پی آئی (ایم) دوسرے نمبر پر آگئی نیز بی جے پی کو تیسرے مقام پردھکیل دیا گیا ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو اشتراکی ووٹ بی جے پی کی جھولی میں گیا تھا اب لوٹ رہا ہے اور یہ بھگوائیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بابل سپریو نے بائیں بازو کی رہنما سائرہ شاہ حلیم کو 20,228 ووٹوں کے فرق سے شکست دی جبکہ بی جے پی کے کیا گھوش کو محض 13,220 ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ ترنمول کے 50 فیصد کے مقابلےبی جے پی کو صرف 13 فیصد ووٹ ملے جبکہ سی پی ایم نے 30فیصد ووٹ حاصل کیے۔ شہر میں جہاں ہندی بولنے والوں کی کثیر تعداد رہتی ہے بی جے پی کا یہ حال ہے تو گاوں میں کیا ہوگا؟
بنگال کے بغل میں بہارہے ۔ وہاں پر بی جے پی نے اپنی نمک حرامی کی بہت بڑی قیمت چکائی۔ این ڈی اے کی ایک حلیف وکاس شیل پارٹی ہے۔ اس کے رہنما مکیش ساہنی نے جب آر جے ڈی کے کچھ لوگوں سے ملاقات کی تو بی جے پی نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کران سے وزارت چھین لی۔ اس سے آگے بڑھ کر وی آئی پی کے چاروں ارکان اسمبلی کو توڑ کر اپنے سے جوڑ لیا۔ 2020 میں وکاسیل انسان پارٹی کے ٹکٹ پر بو چاہان سے مسفر پاسوان ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے ۔اس بار مکیش ساہنی کو انتقام لینے کا موقع ملا تو انہوں نے بی جے پی کو دھول چٹا کر سبق سکھا دیا۔ وہاں سے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے امرپاسوان نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کو 35,000 سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔ آر جے ڈی امیدوار کو 82,116 ووٹ ملے، جب کہ بی جے پی کی بے بی کماری کو صرف 45,353 ووٹ پر اکتفا کرنا پڑا ۔ یہاں پر آر جے ڈی کے 49 فیصد ووٹ کے مقابلے بی جے پی کے صرف 27 فیصد ووٹ ہیں اوریہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے۔
اسی ماہ ایم ایل اسی انتخاب میں بھومی ہاروں کو ساتھ لے کر آر جے ڈی نے اپنے ارکان کی تعداد کو 2 سے بڑھا کر 6 تک پہنچا دیا تھا ۔ ان میں سے تین بھومی ہار تھے ۔ اس حکمت عملی میں مزید پیش رفت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ امرپاسوان کو اپنے والد کے تئیں ہمدرد ی کا فائدہ ملا۔ ان کی نوعمری کام آئی ۔ تیجسوی یادو نے اپنی مہم میں انوکھے انداز سے نوجوانوں کو قریب کرکے بہار کے مستقل کو روشن کرنے پر زور دیا۔ امرپاسوان پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا اس کے برعکس بی جے پی کی امیدوار بےبی کماری کا خاوند پر رشوت خوری کے لیے بدنام ہے۔ پچھلی مرتبہ بے بی کامیاب ہوئی تھیں مگر ان کی کارکردگی ناقص تھی۔ عوام کے اندران کے تئیں ناراضی تھی ۔ بہا ر میں اس بار جے ڈی یو اور بی جے پی کے درمیان تال میل کا فقدان تھا ۔ بی جے پی نے نتیش کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے بھی اپنی عدم دلچسپی سے یہ دکھا دیا کہ ان کے بغیربہار میں بی جے پی کی دال نہیں گلے گی ۔
بہار سے قریب چھتیس گڑھ کی خیر اگڑھ سیٹ پر کانگریس کی امیدوار یشودا ورما نے بی جے پی امیدوا ر کو مل سنگھ کو 20ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دے دی۔ یہاں پر بی جے پی نے بہت محنت کرکے 41 فیصد ووٹ حاصل کیے جو کسی بھی امیدوار کی کامیابی کے لیے کافی ہوتے ہیں مگر کانگریس نے 53 فیصد ووٹ لے کر اسے چت کردیا ۔ بھوپیش بگھیل نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ چوتھا ضمنی انتخاب جیتا ہے ۔ اب تو لوگ ان کا مکھوٹا پہن کر ’بگھیل ہے تو بھروسہ ہے ‘ کے نعرے لگانے لگے ہیں۔ اس سے پہلے والے ضمنی انتخاب میں کانگریس نے اجیت جوگی کے علاقہ میں سیندھ لگا کر ان کی پارٹی کو شکست دے دی تھی مگر خیرا گڑھ تو سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ کا آبائی وطن ہے۔ انہوں نے اپنی مٹی کی دہائی دے کر انتخابی مہم چلائی تھی اس لیے یہاں پر بی جے پی کو شکست دینا بہت مشکل کام تھا۔
وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے خیرا گڑھ کو ضلع بنائے جانے کے پرانے مطالبہ کو پورا کرنے کا اعلان کرکے عوام کو خوش کردیا۔ ویسے بھی بگھیل نے ایک عام کسان کی جو شبیہ بنائی ہے اس سے عوام قربت محسوس کرتے ہیں ۔ عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ان کی فلاح وبہبود کی اسکیموں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں سے زمین واپس لے کر عوام میں تقسیم کرکے انہوں نے اچھا تاثر قائم کیا ہے ۔ کسانوں سے اچھی قیمت پر ان کا مال خریدا جارہا ہے۔ قانون کی بالا دستی کے معاملے میں کافی سخت ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے رمن سنگھ کے بیٹے ابھشیک سنگھ پرنفرت انگیزی کی ایف آئی آر درج کرکے بی جے پی کو پیغام دیا کہ وہ ریاست میں فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ ایک کانگریسی رہنما کو پولیس اسٹیشن میں ہنگامہ کرنے کے الزام میں جیل بھیج دیا اور اپنے والد کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے نہیں چوکے ۔ یہ انتخابی نتیجہ ان کی مقبولیت میں اضافہ کا ثبوت ہے۔
مندرجہ بالا مشرقی صوبوں کے علاوہ مغرب کے مہاراشٹر میں بھی ایک ضمنی انتخاب ہوا ۔ کولہاپور نارتھ کی سیٹ کانگریس کے رکن اسمبلی چندرکانت جادھو کے کورونا سے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ برسراقتدار مہا وکاس اگھاڑی نے یہاں سے آنجہانی چندرکانت کی بیوہ جے شری جادھو کو ٹکٹ دیا۔ انہوں نے بی جے پی کے حمایت یافتہ امیدوار ستیہ جیت کدم کو تقریباً 19 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔اس انتخاب میں جے شری کو96 ہزار 226 ووٹ ملے جبکہ کدم کو77 ہزار 426 ووٹ حاصل ہوئے۔ جے شری کو ہمدردی کی امید تو تھی لیکن یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں پنڈھرپور کی مانند ہندوتوا کے نام پر فرقہ واریت پھیلا کر بی جے پی یہ سیٹ نہ نکال لے۔ 2014 میں اس نشست پر ستیہ جیت کدم کو شیوسینا کے راجیش شیر ساگر نے ہرایا تھا۔ اس لیے بی جے پی والے سوچ رہے تھے کہ اس بار شیوسینا کا ووٹ ان کی جھولی میں آجائے گا لیکن وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا ۔ کانگریس کا یہ اعتماد رنگ لایا کہ اس مرتبہ شیو سینک اس کو ووٹ کریں گے۔
بی جے پی نے اس نشست پر کامیابی کو اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا تھا ۔ اپنے امیدوار کو کامیاب کرنے کی خاطر اس نے سابق وزیر اعلیٰ فڈنویس سمیت پارٹی کے صدر اور کولہاپور کے رہنے والے چندرکانت پاٹل کو بھی انتخابی مہم میں جھونک دیا۔ بعد میں جب اس کو کافی نہیں سمجھا گیا تو قانون ساز کونسل میں حزب اختلاف کے رہنما پروین دریکر،پنکجا منڈے اور ممبئی سے آشیش شیلار کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ راج ٹھاکرے متوازی طور پر اپنا کام کرہی رہے تھے لیکن یہ ساری کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ مہا وکاس اگھاڑی کے رہنماوں نے جے شری جادھو کی جیت پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کولہا پور کے لوگوں نے صوبائی حکومت کے تمام طبقات کی ترقی کے لیے کیے جانے والے کاموں پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کی ہندوتوانواز تقسیم کاری اور نفرت انگیز سیاست کو خارج کر دیا ہے۔سینا رہنما سنجے راوت نے راج ٹھاکرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہنومان چالیسا کی سیاست کتنی بھی ہو لیکن رام دھنش اور ہنومان کی گداایم وی اے کے پاس ہے۔کولہا پور کے عوام نے بھونگا کو ٹھینگا دکھا دیا۔ ضمنی انتخاب کا پیغام یہی ٹھینگا ہے۔
***

 

***

 شتروگھن سنہا اپنے بول بچن کے لیے مشہور ہیں ۔ ان کے سیاسی مکالمہ بھی بڑی آسانی سے چھا جاتے ہیں اس لیے ایوان پارلیمان میں سنہا کی تقاریر سے نہ صرف ممتا اور ٹی ایم سی کا فائدہ ہوگا بلکہ بی جے پی کے لیے مسائل پیدا ہوں گے ۔ مہوا مترا پہلے ہی سرخیوں میں بنی رہتی ہیں اب اس میں ایک بہترین اضافہ ہوجائے گا ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022