مالیاتی خسارہ 3.5لاکھ کروڑ روپے ۔روزگار کی حالت مزید ابتر
غربت اور بے روزگاری دور نہ ہو تو جی ڈی پی میں اضافہ بے معنی
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
مالیاتی خسارہ (fiscal deficit) جون سہ ماہی میں سالانہ ہدف کے 21.2 فیصد تک ہو گیا ہے جو گزشتہ سال اس مدت میں 18.2 فیصد تھا۔ مالیاتی خسارہ دراصل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی آمدنی کتنی ہوئی اور خرچ کتنا ہوا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکومت کتنی مقروض ہے اور اس میں اضافہ معیشت کے لیے بہتر نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح مالیاتی خسارہ حکومت کے کل اخراجات اور آمدنی بذریعہ ٹیکس کا فرق ہے۔ حقیقتاً مالیاتی خسارہ 2022-23 کی پہلی سہ ماہی کے آخر میں 351 لاکھ کروڑ روپے رہا۔ مارچ 2023 کے مالی سال کے آخر تک ملک کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 6.4 فیصد رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ سال 6.71 فیصد تھا۔ کنٹرولر جنرل کے ذریعے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 تک مرکز کی حصولیابی 5,96,040 کروڑ روپے تھی جو بجٹ کے اندازہ کا 26.1 فیصد تھا۔ ایک سال قبل اسی مدت میں حاصل شدہ بجٹ کا اندازہ 27.7 فیصد تھا۔ ہماری حکومت کے ذریعے جون سہ ماہی میں کیے گئے کل اخراجات 9,47,911 کروڑ روپے جو بجٹ کے تخمینہ کا 24 فیصد تھا۔ 2022-23 کے لیے حکومت کو مالیاتی خسارہ 16,61,196 کروڑ روپے رہنے کا تخمینہ ہے۔ ساتھ ہی ایک اچھی خبر ہے کہ آٹھ بنیادی صنعتوں کی پیداوار 12.7 فیصد رہی۔ مئی کی 19.3 فیصد اضافہ کے مقابلے میں اس میں 6.6 فیصد کی تنزلی درج کی گئی۔ جون 2021 میں ان صنعتوں میں بہتری 94 فیصد رہی۔ آٹھ اہم شعبوں میں خام تیل، کوئلہ، قدرتی گیس، ریفائنری پروڈکٹس، اسٹیل، بجلی، سیمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں خام تیل، کوئلہ، قدرتی گیس، ریفائنری پروڈکٹس، اسٹیل، بجلی اور سیمنٹ میں بالترتیب کوئلہ میں 31.1 فیصد ریفائنری پروڈکٹس میں 15تا5 فیصد، سیمنٹ میں 19.4 فیصد اور بجلی کی پیداوار میں 15.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ ہفتہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ میں 1152 ڈالر کی تنزلی رہی۔ آر بی آئی کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 22 جولائی کے ہفتہ میں ملک کے غیر ملکی زر مبادلہ کا ذخیرہ گھٹ کر 571.56 ارب ڈالر رہ گیا تھا۔ اس سے قبل 15 جولائی کے آخر تک یہ ذخیرہ 7.541 ارب ڈالر سے گھٹ کر 572.712 ارب ڈالر رہ گیا تھا۔ اس طرح مالیاتی خسارہ (fiscal deficit)کو قابو میں رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر لگنے والے ٹیکس میں کٹوتی کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بڑھنے والے دباو کے مد نظر مرکزی حکومت کو سرکاری سبسیڈیوں کا نظم بہتر طریقہ سے کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ حکومت نے 23 مئی کو مہنگائی کے مد نظر پٹرول پر ریونیو 8 روپے فی لیٹر اور ڈیزل پر 6 روپے فی لیٹر کم کر دیا تھا۔ اس سے سرکاری خزانہ کو ایک لاکھ کروڑ کے نقصان کا اندازہ ہے۔ اس طرح اپریل میں مرکزی حکومت نے جاریہ مالی سال کے 6 ماہ کے لیے ڈی پی اے کے ساتھ فاسفوٹک اور پوٹاش (پی اینڈ کے) کھادوں کے لیے 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سبسیڈی کو منظوری دی تھی۔ اس کے علاوہ پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا (پی ایم جی کے وائی) کو 80 کروڑ لوگوں کو مفت اناج کی امداد کو ستمبر 2022 تک چھ ماہ کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ ان دونوں منصوبوں سے مالیاتی خسارہ (fiscal deficit) اور زیادہ ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھارت کے پاس ضروری وسائل ہیں اور حکومت مالی سال کے لیے مالیاتی خسارہ ،جی ڈی پی کو 6.4 فیصد تک ہی رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ ادھر حکومت عالمی بازار میں خام تیل کی اونچی قیمتوں سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ فی الحال حکومت اپنی طلب کا 85 فیصد تیل درآمد کرتی ہے۔ روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے خام تیل کے ساتھ کموڈیٹی کی قیمتیں اونچی سطح پر چل رہی ہیں اور اس سے مالیاتی خسارہ پر کافی دباو بڑھا ہے۔
چند ہفتوں میں معیشت پر دوسری سہ ماہی رپورٹ آئے گی جس میں حکومت اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہے گی کہ بھارت وہ ملک ہے جس کی معیشت دنیا بھر کے ممالک کے مقابلے بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر اصل حقیقت کیا ہے؟ اس معاشی ترقی سے عوام الناس کو کیا مل رہا ہے۔ ان کا میعار زندگی میں کس طرح کی تبدیلی آرہی ہے؟ کیا اس معاشی ترقی سے عام لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گا؟ ہمارا ملک تمام لوگوں کی سالانہ فی کس آمدنی کے معاملہ میں اپنے پڑوسی ممالک سے پیچھے ہے۔ 22.4 کروڑ لوگ غربت کی نچلی سطح پر ہیں اور بھکمری کا شکار ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چند سالوں سے عوام کا مطالبہ ہے کہ انہیں پبلک سیکٹر میں با عزت روزگار ملے جہاں آمدنی بھی بہتر ہو اور ملازمت کی سلامتی بھی ہو۔ ہمارے ملک میں جی ڈی پی کی بہتری سے اصلاً اوسط شہریوں کے لیے اچھا روزگار اور اچھی آمدنی میسر ہو۔ آر بی آئی کے شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق نجی اور منظم سیکٹرس میںروزگار کی دستیابی 1980 سے 1990 کے دہائی میں ایک فیصد جی ڈی پی میں گروتھ سے کم از کم دو لاکھ نئے روزگار پیدا ہوتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت کی جی ڈی پی گروتھ 14 فیصد رہنے سے 28 لاکھ نئے روزگار پیدا ہوتے تھے۔ 1990 سے 2000 کی دہائی کے درمیان جی ڈی پی کے ایک فیصد بڑھنے سے کم از کم ایک لاکھ نئے روزگار پیدا ہوتے تھے۔ جبکہ 2000تا2010 کے درمیان یہ محض 52000 رہ گئے۔ جی ڈی پی میں اضافہ منصوبہ سازوں اور سیاست دانوں کے موجودہ جمہوری ڈھانچہ میں بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے مگر جی ڈی پی میں اضافہ اور بہتری سے عام لوگوں کی معاشی خوشحالی اور باوقار عزت دار روزگار دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جی ڈی پی میں بہتری اور منظم سیکٹرس میں روزگار کی حالت کے باہمی تعلق میں بڑی کمزوری دیکھی جا رہی ہے اس لیے جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ نوجوانوں کو روزگار بھی اسی تناسب سے میسر ہو اور نتیجتاً آمدنی بڑھے۔ ایسی حالت چار دہائی قبل بالکل نہیں تھی اب تو سیاسی شعبدہ بازی کے لیے جی ڈی پی گروتھ کے ڈاٹا کو اچھالا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنے راشٹر کے وشو گرو ہونے پر خوب اچھلیں اور فخر کریں خواہ پیٹ میں دانہ تک نہ ہو۔ نوبل انعام یافتہ سائمن کرنیٹس کے مطابق جی ڈی پی کی بہتری کو معاشی بہتری سے ضرور ناپا جاتا ہے تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ سماجی خوشحالی کا پیمانہ نہیں ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف معاشی بہتری کے معاملے میں اس ملک کو جیتنے والوں کے زمرے میں رکھتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی معیشت عوام الناس میں خوشحالی اور سماجی تحرّک میں اضافہ نہ کرے تو وہ اکثر سیاسی بے چینی کا باعث بنتی ہے اور ملک میں چاہے وہ ایک جمہوریت ہی کیوں نہ ہو، احتجاج اور بے چینی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ جی ڈی پی میں اضافے کی بات لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کہی جاتی ہے جو خطرناک اشاریے ہوتے ہیں۔ اس میں غلط وعدے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس سے لوگوں کے اندر سماجی مشکلات خطرناک حد تک در آتی ہیں اس لیے بھارتی رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معیشت کی بہتری اور جی ڈی پی کے اضافہ سے ملک میں عوامی خوشحالی لائیں۔
حکومت کی نفرت کی کاشت کاری سے عوام الناس فسادی اور خونی بن رہے ہیں۔ مضبوط معیشت کے لیے فرقہ وارانہ ہم آہنگی انتہائی ضروری ہے۔ گزشتہ ہفتہ چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں منعقدہ آل انڈیا پروفیشنل کانگریس (اے آئی پی سی) کی پانچویں قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھورام راجن نے کہا کہ اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کر دے گی اور اندرونی خلفشار پیدا کرے گی۔ ہر مذہب کا جوہر ہر ایک میں اچھائی تلاش کرتا ہے۔ فی الحال ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی پالیسی پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم ابھی سری لنکا جیسے حالات سے کافی دور ہیں اگر ہم اس راستے پر چلیں گے تو بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2022