’ہمیں ایسی ترقی نہیں چاہیے جس میں ہمارے پرسکون ماحول و یہاں کی قدیم روایات کو نقصان پہنچے۔۔۔ ‘

2014 سے ہی بڑھی ہے پریشانی، ترقی کے نام پر دیا جارہا ہے دھوکہ

افروز عالم ساحل

مرکزی حکومت لکشدیپ میں اپنے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کے ذریعے لکشدیپ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتی ہے، کیونکہ مرکزی حکومت مانتی ہے کہ گزشتہ 70 برسوں میں وہاں کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن لکشدیپ کے مقامی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں یہاں ایسی ترقی نہیں چاہیے جس میں ہمارے پر سکون ماحول اور یہاں کی قدیم روایات کو نقصان پہنچے، ہمیں یہاں ایسی ترقی نہیں چاہیئے، جس ترقی میں ہمارے کلچر و تہذیب کی کوئی اہمیت نہ ہو۔

ہفت روزہ دعوت نے لکشدیپ کے نوجوانوں سے بات چیت کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ لکشدیپ کی ترقی کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم میں آخر کہاں مسائل ہیں؟

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں شاہ نواز احمد نامی نوجوان نے کہا کہ یہاں کوویڈ نہیں کے برابر تھا لیکن پرفل پٹیل نے آتے ہی کوویڈ کی تمام پابندیاں ختم کیں جس کی وجہ سے کوویڈ یہاں تیزی سے پھیلا اور ہمارے 30 سے زائد لوگ فوت ہو گئے۔

لکشدیپ کی ترقی کے سوال پر شاہ نواز احمد نے خود سوال کیا کہ کہیں آپ نے ایسی ترقی دیکھی ہے جہاں اسپتال میں آپ کی حالت خراب ہونے پر علاج کے لیے آپ کو کسی بڑے اسپتال جانے سے روک دیا جائے؟ نہیں دیکھی تو آپ لکشدیپ میں آ کر دیکھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل نے لکشدیپ سے کیرالا کے کوچی جانے والی ہوائی ایمبولینسوں کے نقل وحرکت پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ نئے آرڈر کے مطابق مریضوں کو کوچی منتقل کرنے کے لیے لکشدیپ کی چوتھی کمیٹی کی اجازت درکار ہے، وہی فیصلہ کرے گی کہ مریض کو ہوائی جہاز میں منتقل کیا جائے یا نہیں۔ پرفل پٹیل کے اس آرڈر نے لوگوں کو علاج کے لیے کوچی پہنچنے کے لیے 16 گھنٹے طویل پانی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

شاہ نواز احمد کے مطابق لکشدیپ میں کوئی بڑا اسپتال نہیں ہے، ایسے میں جب کوئی شدید طور پر بیمار پڑتا ہے تو ایمرجنسی میں اسے کوچی لے جایا جاتا ہے۔

کیرالا کے ضلع کنور میں رہ کر ماسٹر ڈگری تک کی پڑھائی کر چکے افضل حسین تنگل نے سوال کیا کہ کیا ترقی کے نام پر ہمیں ہمارے ہی گھروں سے نکال دیا جائے گا؟ ہماری عبادت گاہوں کو توڑ دیا جائے گا؟ نجکاری کے نام پر یہاں کے نوجوانوں کی نوکریاں چھین لی جائیں گی؟ ہمارے کہیں آنے جانے یا کھانے پینے پر پابندی لگا دی جائے گی؟ ہم سے ہماری زمینیں چھین کر دوسروں کو فروخت کردی جائیں گی؟ اگر ترقی اسی کا نام ہے تو پھر لکشدیپ کے لوگوں کو ایسی ترقی نہیں چاہیے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کو ملک کے باقی حصوں کے ترقی کے بارے میں سوچنا چاہیے، ہماری 65 ہزار کی آبادی جس حال میں بھی ہے خوش ہے۔ حکومت ترقی کے نام پر ہمارے کلچر وتہذیب پر حملہ کرنا بند کر دے۔ دراصل ترقی کے نام پر حکومت ہمیں ختم کر دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اسی منصوبہ کے تحت یہاں کی خبروں کو ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ملک کا کوئی میڈیا یہاں نہیں ہے۔ جس علاقے میں بھی پرفل پٹیل کی مخالفت میں یہاں کے مقامی لوگ مظاہرہ کرتے ہیں، وہاں انٹرنیٹ سروس بند کر دی جاتی ہے۔

ایک طویل گفتگو میں افضل بتاتے ہیں کہ ترقی کے نام پر یہاں کی انتظامیہ کاوارتی کے مقام پر دو مسجدوں کو مسمار کرنے کی تیاری میں ہے۔ پہلی مسجد ’کاوارتی ایڈمنسٹریشن بلڈنگ سے 25میٹر کی دوری پر ہے، اس کے ساتھ قبرستان بھی ہے۔ وہیں کاوارتی کے اندرا گاندھی اسپتال سے قریب کی مسجد بھی نشانے پر ہے۔ دونوں ہی وقف کی مساجد ہیں اور اس کو ترقی کے نام پر توڑنے کا حکم متولی تک پہنچا دیا گیا ہے۔ افضل حسین تنگل لکشدیپ کے اندروتھ علاقے کے رہنے والے ہیں۔

2014 سے ہی بڑھی ہے پریشانی

لکشدیپ کے مقامی لوگوں کے مطابق ساری پریشانی سال 2014 سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ سال 2015 کے اپریل مہینے میں یہاں کے سرکاری دفتروں سے اچانک نکال دیے گئے ملازمین اس وقت کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر کے جمہوریت مخالف اقدام کے خلاف ۳۰ دنوں تک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔ تب وہاں کے رکن پارلیمنٹ محمد فیصل پی پی نے اس معاملے کو لوک سبھا میں اٹھایا تھا اور مطالبہ کیا تھا لکشدیپ میں اسمبلی قائم کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ لکشدیپ میں رکن پارلیمنٹ اور پنچایت ممبران کی مقامی انتظامیہ میں کوئی حصہ داری نہیں ہے اور مقامی انتظامیہ پوری طرح سے ایڈمنسٹریٹر پر منحصر ہے۔ صفر جرم والے ایک یونین علاقے کو ایک ایڈمنسٹریٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا اور گورننس میں مقامی نمائندگی کو کوئی جگہ نہیں دینا مناسب نہیں ہے۔ اسی لیے میں لکشدیپ میں اسمبلی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔

یہی نہیں، سال 2017 کے 18 جولائی کو محمد فیصل نے یہ سوال لوک سبھا میں تحریری طور پر بھی پوچھا تھا، لیکن تب داخلی امور کے وزیر مملکت ہنس راج گنگا رام اہیر نے صاف طور پر کہا کہ لکشدیپ میں اسمبلی کی تشکیل کے لیے حکومت کی پاس کوئی تجویز نہیں ہے۔

ترقی کے نام پر دھوکہ

آپ کو جان کر حیرانی ہو گی کہ نومبر 2017 میں اس وقت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے دہلی میں یہ اعلان کیا کہ آئس لینڈ ڈیولپمنٹ ایجنسی (آئی ڈی اے) نے لکشدیپ میں معاش کو بہتر بنانے، سیاحت کو فروغ دینے اور ٹونا فشنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مینیکوائے جزیرے میں ایرپورٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تب کہا گیا تھا کہ 31 دسمبر 2021 تک یہ ایرپورٹ تیار بن کر تیار ہو جائے گا لیکن حالت یہ ہے کہ لکشدیپ کے مقامی لوگوں کو اس کی دور دور تک خبر نہیں ہے۔

17 ستمبر 2018 کو لوک سبھا میں پونم مہاجن کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں تحریری طور پر بتایا گیا کہ لکشدیپ کے مینیکوائے جزیرے پر ہندوستانی فضائیہ کے تعاون سے دفاعی اور سِول دونوں مقاصد کے لیے ایک ایرپورٹ بنائے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور مختلف جزیروں میں سمندری جہازوں کے تعارف کے لیے لاگون کی نشاندہی کی گئی ہے لیکن جب اس سے متعلق 5ستمبر2019کو لکشدیپ کے رکن پارلیمنٹ محمد فیصل نے لوک سبھا میں سوال پوچھا تب تحریری طور پر بتایا گیا کہ وزارت سِول ایوی ایشن یا ایرپورٹ اتھارٹی آف انڈیا کے ذریعہ منیکوئی جزیرے میں کسی قسم کے ہوائی اڈے تعمیر کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔