’خوشی‘ نے بنایا خوشیوں بھرا ماحول
’ایشیا پیسیفک ماسٹر ویٹ لفٹنگ گیمس‘ میں بھارتی مشارکہ کی نمایاں کارکردگی
دعوت نیوز ڈیسک:
جنوبی کوریا میں قدسیہ نذیر خوشی 3طلائی تمغوں (گولڈ میڈلز) سے سرفراز
’’بھارت نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے لہذا اپنے ملک کو کچھ دینے کی نیت سے میں نے مقابلہ کیا اور ایوارڈز حاصل کیے‘‘ قدسیہ نذیر
ترقیوں کے اس مسابقتی دور میں ہر کوئی بلند ترین مقام کے حصول میں کوشاں ہے اور اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں لگا ہوا ہے۔ مختلف میدانوں کی طرح کھیل میں بھی قابل ذکر مسابقہ جات منعقد کیے جاتے ہیں اور ملکی و عالمی پیمانے پر فاتحین کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ عالمی کھیلوں میں دیگر ممالک کے شانہ بشانہ وطن عزیز کے بھی منتخب کھلاڑی ساری دنیا کے سامنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اور ملک و قوم کا نام روشن کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں اور قیمتی ایوارڈز حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح بنگارپیٹ ضلع کولار، کرناٹکا کی قدسیہ نذیر عرف خوشی نے بھی پچھلے دنوں جنوبی کوریا میں منعقدہ عالمی کھیلوں کے مقابلے میں ماسٹر گیمس فیڈریشن آف انڈیا کی جانب سے حصہ لیا اور ویٹ لفٹنگ کے مقابلے میں 3 طلائی تمغے (گولڈ میڈلز) انٹرنیشنل ویٹ لفٹنگ فیڈریشن، ایشیا پیسیفک ماسٹر گیمس اور اورن چیمپئین شپ کی جانب سے حاصل کیے، جس میں 16 کھیلوں کے لیے 72 ممالک سے تقریباً 20 ہزار مشارکین شریک ہوئے تھے اور بھارت سے کل 80 مشارکین نے حصہ لیا تھا۔ان مسابقہ جات میں سے خوشی نے ویٹ لفٹنگ میں تقریباً 130 کلو گرام وزن اٹھا کر میڈلز اپنے نام کر لیے ہیں۔اس سے قبل گزشتہ سال انہوں نے بین الاقوامی سطح پر سیزرین سیکشن والی خاتون کے ذریعہ سب سے زیادہ وزن اٹھانے کا عالمی ریکارڈ (ورلڈ ریکارڈ) اپنے نام درج کیا تھا جس میں انہوں نے کل 300 کلو گرام وزن یعنی 110 کلو گرام را اسکواٹ میں 120 کلو گرام ڈیڈ لفٹ میں اور بینچ پریس میں 70 کلو گرام وزن اٹھایا تھا اور ’ورلڈ وائیڈ بک آف ریکارڈز‘ کے لیے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ اس کے علاوہ رواں سال جون کے مہینے میں یوروپین گیمس کے لیے بھی ان کا انتخاب ہو چکا ہے اور اگلے سال ’کامن ویلتھ آسٹریلیا ‘کے لیے بھی وہ منتخب ہو چکی ہیں۔ ان سارے نتائج کے پیچھے کی تفصیلات بتاتے ہوئے خوشی نے کہا کہ اللہ رب العالمین کے فضل و کرم کے بعد 8 سالہ مسلسل جدوجہد اور ان کے کوچ جناب امان اللہ صاحب کی کاوشیں ہیں جو آج یہ نتائج سب کے سامنے ہیں۔
میڈیا سے بات چیت میں قدسیہ نذیر نے حالیہ تینوں میڈلز کے حصول کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان میڈلز کو حاصل کرنے سے قبل ہی میرے دل میں ملک کے لیے کچھ نمایاں کر دکھانے کا عزم تھا۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے لہذا اپنے ملک کو کچھ دینے کی نیت سے میں نے مقابلہ کیا اور تین گولڈ میڈلز دلائے۔
انہوں نے اپنے خاندانی پس منظر کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ خود ان کے والد نیشنل ریسلر تھے، انہی کا کھلاڑیوں والا خون ان کی بھی رگوں میں دوڑ رہا ہے لہذا انہوں نے کچھ کر دکھانے کی ٹھانی اور کر دکھایا۔
قدسیہ نذیر نے تعلیمی لیاقت کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے بی کام کیا ہوا ہے اور بنگلور یونیورسٹی سے ایم بی اے بھی کیا ہے۔ وہ فی الحال کے ایس آر ٹی سی کے اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں برسر خدمت ہیں اور ان کے اسٹاف کی جانب سے بھی انہیں حدود و قیود کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ انہیں باقاعدہ مشق کرنے کے لیے وقت بھی فراہم کیا جاتا ہے اور جس دورانیے میں انہوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا اس کو غیر حاضری میں شمار نہیں کیا گیا ہے۔
قدسیہ نے اپنی کامیابی کے بعد پیغام دیتے ہوئے کہا کہ زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اللہ سے ناامید ہونا چاہیے بلکہ اس پر بھروسہ رکھتے ہوئے ہمت سے کام لیا جائے تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہر انسان بآسانی اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بھی کر سکتا ہے۔اسی طرح سارے والدین سے خطاب کرتے ہوئے قدسیہ نے کہا کہ انہیں اپنی اولاد بالخصوص بیٹیوں پر بھروسہ رکھنا چاہیے، اگر ایک مرتبہ بھی وہ بھروسہ جیت جائیں تو ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیں گی کہ جس کی کوئی نظیر نہ ملے گی۔
قدسیہ نذیر خوشی نے جو نام کمایا ہے وہ ان کی انتھک محنتوں، خود اعتمادی اور خصوصی رہنمائی کا ثمرہ ہے۔ اگر کوئی بھی لڑکی آج اپنا ہنر آزمانا چاہتی ہے اور کچھ کر دکھانا چاہتی ہے تو اس کے سامنے کئی سارے مواقع موجود ہیں وسائل بھی ہیں اور ذرائع بھی ہیں، بس ضرورت ہمت اور محنت کی ہے۔ جب یہ دو چیزیں ساتھ آجائیں تو پھر کامرانی ضرور قدم بوسی کرے گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023