!کتاب :’جلا وطن‘۔جس کے ہر لفظ سے لہو ٹپکتا ہے۔۔۔ ۔

غازی سہیل خان

چند سال پہلے ’’جہلم بہتا رہا‘‘ نام کی ایک کتاب خرید لی تو ایک دن میں پڑھ ڈالا۔ انتہائی دلچسپ اور معلوماتی لگی۔ الفاظ اور جملوں کو بڑی خوبصورتی سے لکھا گیا ہے جس کے جملوں اور الفاظ کا تسلسل قاری پر اپنی مضبوط پکڑ بنائے رکھتا ہے، اسی کو دیکھتے ہوئے راقم نے کتاب کے مصنف کے متعلق چند دوستوں سے استفسار کیا اور معلوم کرنے پر پتا چلا کہ’’ خالق پرویز ‘‘ کا تعلق بارہمولہ سے ہے، اور ان کا شمار کشمیر کے بڑے ادباء اور شعرا میں ہوتا ہے ۔ایک خیر خواہ نے کہا کہ ان کی ایک اور کتاب ’’جلا وطن‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے لیکن وہ آج مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ بہر حال بڑے انتظار کے بعد 2023ء میں مذکورہ کتاب جو پہلے دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی اب ایک ہی جلد میں شائع ہوئی اور میں نے پڑھ لی۔
جلا وطن محترم خالق پرویز کی زندگی کی لرزہ خیز داستان ہے ۔یقین کریں کہ دوران مطالعہ قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔یہ کتاب موصوف کی 1957میں جبراً کشمیر سے جلا وطنی کی روداد پیش کرتی ہے۔ جلا وطن کی دلدوز واردات کے علاوہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خالق صاحب کی یہ سوانح حیات بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر کی تاریخ بھی ہے۔انتہائی دلچسپ اور عبرت انگیز واقعات کو بڑی ہی خوبصوتی سے ضبطِ تحریر میں لایا ہے۔ مذکورہ کتاب پر ہی ایک مبصر نے لکھا ہے کہ ’’یہ ایک ایسا سفر نامہ ہے جو محض ایک فرد کی زندگی کی کہانی نہیں ہے بلکہ کشمیر کی تاریخ کا ایسا باب ہے جس کے ہر لفظ سے آنسو اور لہو کے قطرے ٹپکتے ہیں ۔زبان سلیس اور سادہ ہے اور ہر واقعہ کا بیان بغیر کسی بناوٹ اور تصنع کے پیش کیا گیا ہے ۔‘‘ ( راجہ نذر بونیاری صفحہ 597)ہر ایک صفحہ اور واقعہ کے بعد قاری میں اگلا واقعہ پڑھنے تک بے قراری رہتی ہے ۔مصنف نے واقعات اور جملوں میں غضب کا تسلسل اور ربط قائم کیا ہے جو قاری کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرتا ہے، واقعات میں تسلسل، روانی اور سادگی پہ مجھے رشک آ رہا ہے ۔اپنی جلا وطنی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’25؍جنوری 1957کی لمبی اور ٹھنڈی رات مجھے’ کشمیر پولٹیکل کانفرنس‘ کے صدر دفتر واقع لال چوک سے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔اس گرفتاری کے نتیجے میں ملک بدری کی سزا نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا، میں دم واپسیں تک اسے بھول نہیں سکتا ہوں۔جلا وطن کے اس حادثے میں میرے ساتھ کیا کیا واقعات پیش آئے ،وہ اتنے خوش آئند ،حیران کُن ،سبق آموز اور لرزا دینے والے سلسلے تھے کہ آج تین دہائیاں گزرنے کے باوجود میں محض اپنی یاد داشت کے حوالوں سے انہیں قلم بند کر رہا ہوں تاکہ قارئین کرام میرے ساتھ پیش آنے والے حادثات، واقعات اور حالات کی کڑیوں سے زندگی کے مختلف رنگوں کو دیکھ کر حقیقتوں کا ادراک کر سکیں ‘‘۔( صفحہ 12)
مصنف موصوف کے مطابق انہیں ایک سیاسی جماعت ’پولٹیکل کانفرنس‘ کے ساتھ وابستگی کی بنا پر اس وقت کے بدنام زمانہ پولیس افسر قادر گاندربلی نے جلا وطن کر دیا تھا ،اس افسر کے مظالم اور انٹروگیشن کے نت نئے طریقے سنتے ہی انسان کی روح کانپ اُٹھتی ہے لکھتے ہیں کہ ’’میں آج پہلی بار اس بدنام زمانہ پولیس افسر کو دیکھ رہا تھاجس کے انٹروگیشن کے طریقے اتنے کربناک اور ہتک آمیز ہوتے تھے کہ انسان ان کا مردانہ وار مقابل کرنے کے بجائے موت کو ترجیح دینے لگتا ،برقی رو کے جھٹکے دینا، جسم پر گرم استری پھیرنا ،گرم آلو منہ کے اندر ٹھونسنا اور ننگے سر پر جگ کے ذریعے اُبلتے ہوئے پانی کی دھار ڈالنا اس کا عام معمول تھا ۔یہ سزائیں دیتے وقت اس کے منہ سے ایسی گالیاں ابل پڑتی تھیں جن کو کسی نے آج تک سُنا اور نہ آئندہ سننے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ‘‘۔(صفحہ 16) ایسے میں مصنف موصوف کو اوڑی مظفرآباد روڈ جس کو اس دور میں جہلم ویلی روڈ کہا جاتا تھا دو ساتھیوں کے ساتھ سرحد کے اُلس پار جبراًدھکیل دیا گیا۔یہ جلا وطنی کا سفر اوڑی سے مظفرآباد تک کا ایسا سمجھ لیں کہ موت کے منہ سے بچ کے تین افراد پر مشتمل یہ گروپ منزل نا مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ منزلِ نا مقصود میں اس لیے کہہ رہاہوں کہ مصنف موصوف میرے خیال میں ذہناً اور قلباً نہ تو کشمیر کی سیاست میں حصہ لینا چاہتے تھے اور نہ ہی اس قسم کی سختی اور اس پار جانے کا کوئی شوق تھا۔ بہر کیف اس سفر کی منظر کشی جس انداز سے خالق صاحب نے کی ہے وہ کوئی عام قلم کار یا ادیب نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں یہ خالق صاحب کا ہی خاصہ ہے کہ قاری پڑھتے وقت ایسا محسوس کرتا ہے جیسے اُس کی آنکھوں کے سامنے کوئی ویڈو ریل چل رہی ہے یا وہ بھی مصنف موصوف کے ساتھ اس جلا وطنی میں بنفس نفیس شامل ہے۔ چند واقعات کو پڑھتے پڑھتے میں اتنا کھو جاتا کہ اچانک کسی اور ہی دنیا میں چلا جاتا پھر اپنے آپ کو جھٹکتے ہوئے اپنے حواس کو قابو میں کرتے ہوئے جب میں اپنی دنیا میں آتا تو شکر کرتا کہ میں ہتھیلی پر سر رکھنے والے خالق صاحب کے ساتھ سفر میں نہیں ہوں ۔ جس جماعت سے وابستگی کی بنا پر انہیں جلا وطن کیا گیا تھا اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’کشمیر پولیٹکل کانفرنس کا قیام دراصل مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کی اس قیادت سے اُبھر آیا تھا جن کو ہندوستان کے الحاق سے سیاسی طور پر اتفاق نہ تھا ۔اس پارٹی میں وہ لوگ بھی آ گئے جو مسلم کانفرنس سے تعلق تو رکھتے تھے مگر جس کی صف اول کی ساری قیادت کو شیخ محمد عبداللہ نے پاکستان جانے پر مجبور کر دیا تھا۔شیخ محمد عبداللہ نے ریاست میں مسلم کانفرنس کا اثر و نفوذ ختم کرنے کے لیے چودھری غلام عباس اور میر واعظ کشمیر مولانا محمد یوسف شاہ جیسی مقتدر ہستیوں کو ریاست سے بھاگ جانے پر مجبور کر دیا جس کے باعث عملی طور پر ریاست میں مسلم کانفرنس کا وجود ختم ہو گیا ۔۔۔۔۔۔!(صفحہ 103 )اس اقتباس سے قارئین کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ سیاسی رسا کشی کے سبب کشمیر میں لیڈروں کا بھی بٹوارہ ہوگیا۔اس طرح سے کتاب کا پہلا حصہ 300 صفحات پر اختتام پذیر ہو جاتا ہے اور دوسرا حصہ جس میں’ تختہ دار کا طواف ‘عنوان کے تحت ہفتہ روزہ’ احتساب‘ کے مدیر اعلیٰ الف میم آزاد نے کتاب کے متعلق لکھا ہے کہ ’’خالق پرویز کی سرگزشت ’ جلا وطن ‘کو محض ایک معروف ادیب و شاعر، مصنف یا انشاء پرداز کی آپ بیتی کہنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کا کینوس وسعتوں کا وہ جہاں نمایاں کیے ہوئے ہے جہاں کسی فرد یا افراد کو نہیں بلکہ ایک پوری قوم کو اپنی جائز خواہشات کے ساتھ ساتھ جسم و جان سمیت تختہ دار کا طواف کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ‘‘۔( صفحہ 302)اسی دوسرے حصے کے پیش لفظ میں خالق پرویز صاحب کتاب کو تیار کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’اس کتاب کی تیاری میں پہلی جلد کی طرح بھی میرے کرم فرماؤں اور دوستوں کی آراء اور مفید مشورے میرے ہمدم اور ہمقدم رہے ،اُن میں میرا بیٹا میر احسان لائق ستائش ہے، جس نے سیاسی واقعات کے رونما ہونے والی تاریخوں کا درست ڈیٹا اور چنندہ موضوعات کے تعین میں میری مدد کی۔ سہیل بشیر کار کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے بارہمولہ کے تعلق سے کچھ ایسے واقعات یاد دلائے جن کا میں اگرچہ خود بھی شاہد تھا لیکن مسودہ لکھتے وقت قلم کی زد میں نہیں آ ئے تھے‘‘( صفحہ 310)
کشمیر کی تاریخ کے متعلق کھٹے میٹھے واقعات کے ساتھ پاکستان میں ان کے ساتھ کیا کچھ اچھا اور برا ہوا دونوں طرح کے واقعات انتہائی ماہرانہ انداز میں کتاب میں درج کیے گئے ہیں۔ وہیں ان واقعات کو پڑھ کے ایک قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر کسی ملک میں حکومتیں اپنے اپنے مفادات کے مطابق ہی فیصلے صادر کرتی ہیں یا کوئی بھی عمل انجام دینا ہو تو پہلے اپنے مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، انسانوں کے دکھ درد اور غم کی اہمیت ان مفادات کے سامنے اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔وہیں مقبول بٹ کے ساتھ ملاقات اور تعلقات کو بھی کتاب میں درج کیا ہے ۔ وادی کرنا سے سرحد پار کر کے چند دنوں کے لیے کشمیر آنے کے سخت ترین سفر کی روداد بھی بیان کی ہے ۔اسی طرح سے کشمیر میں کچھ اہم ترین واقعات کا ذکر کیا ہے جس میں مقبول بٹ کا کشمیر آنا، جیل سے فرار ہونا اور پھر پھانسی پانا، گنگا ہائی جیکنگ، مسلم متحدہ محاذ کا الیکشن وغیرہ جیسے واقعات کی اصل سے پردہ سرکانے کی بہترین کوشش کی ہے ۔ اسی طرح سے کم و بیش سات سال کے بعد پاکستان سے وطن واپسی کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے اور واپسی کے بعد کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ بڑے دل گردے والوں کی صفت ہی ہو سکتی ہے اور خالق صاحب کو بھی اسی صفت سے متصف پایا گیا۔چونکہ مصنف موصوف کا تعلق بارہمولہ سے ہے، اسی تناظر میں بارہمولہ کے جغرافیے، وہاں کے لوگ، گلی اور محلوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی خاص طور سے مولانا حبیب اللہ مرحوم کے دعوتی طریقہ کار اور ادارہ فلاح دارین کا ذکر خیر بھی شامل کتاب ہے ۔خالق صاحب نے اخبار ِ کمراز کے نام سے ایک اخبار بارہمولہ سے شائع کیا جس میں عوام کے جذبات و احساسات کی خوب ترجمانی ہوتی تھی پھر حسب توقع انہیں وہ اخبار بند کرنا پڑا ۔مجموعی طور پر مصنف موصوف نے اپنی گرفتاری سے لے کر 1993ء تک کے واقعات کو اپنی کتاب میں پیش کیا ہے ۔اور کتاب کے آخر پر اسی کتاب پر چند ادباء اور صحافیوں کے تبصرے اور تجزیے شامل کیے گئے ہیں ۔
کتاب میں منظر نگاری اور شخصیات کی ایسی تصویریں کھینچی گئی ہیں کہ انسان سوچنے لگتا ہے اگر مذکورہ انسان میرے سامنے آ جائے میں فوراً اسے پہچان لوں گا ۔وہیں انتہائی خوبصورت اصطلاحات اور ٹھیٹھ اردو کا استعمال کیا ہے، انگریزی الفاظ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے ۔ہر ایک واقعہ کو غیر جانب داری سے سُپردِ قرطاس کیا گیاہے ۔میرے نزدیک خالق صاحب نے بے لاگ طریقے سے ایک غیر جانب دار مورخ کا رول ادا کیا ہے ۔جس کے لیے میں انہیں مبارکباد دیتا ہوں ۔کتاب اے کیو پبلیکیشنز ،نئی دلی نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کی ہے ۔سرورق پر آگ اُگلتے پہاڑوں کی تصویر کشمیر کی لہو رنگ داستان کی خوب عکاسی کر رہی ہے۔ وہیں بیک کور پر خالق پرویز صاحب کی بزرگی میں بھی معصوم صورت قارئین سے بہت کچھ کہہ جاتی ہے ۔ان سب کے باوجود مکمل کتاب پڑھنے کے بعد میں مصنف موصوف کے فکر و نظریہ کو نہیں سمجھ سکا۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ خالق صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی مذکورہ پولیٹیکل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اتفاقاً سری نگر میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہو کے جلا وطن کر دیے گئے تھے ۔مزید کتاب کے مطالعہ کے بعد لگا کہ مصنف موصوف جس بنا پر جلا وطن ہوئے ہیں وہ اس مسئلہ کے متعلق کنفیوژن کا شکار ہیں یعنی کوئی واضح نظریہ ان کے اندر میں نے نہیں پایا اور ان کی تصنیف اور قربانیاں مصنف کی فکر سے میل کھاتی مجھے محسوس نہیں ہوئیں ۔بلکہ چند جگہوں پہ مجھے مایوسی بھی ہوئی کہ اتنی بڑی قربانی اور ہر پل موت کے منہ سے بندہ نکل کے آتا ہے اس کے باوجود بھی یہ کسی کنفیوژن کا شکار ہو۔ جب کسی کو کوئی مصیبت اور آزمائش آتی ہے اگر کوئی کسی پاکیزہ فکر سے وابستہ ہو تو وہ مطمئن ہوتا ہے لیکن خالق صاحب مجھے خاصے غیر مطمئن لگے ،جس کے سبب باشعورقاری بھی کچھ اور سوچنے پر مجبور ہو جاتاہے ۔تاہم اس کے باوجود محترم خالق صاحب کی قربانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے جذبے ،ہمت اور حو صلے کی داد دینے میں کنجوسی کرنا میرے نزدیک مصنف کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔
الغرض کتاب کشمیر کے تاریخی واقعات کو ایک ویڈیو فلم کی طرح پیش کرتی ہے۔ آپ ایسا محسوس کریں گے کہ آپ کوئی فلم دیکھ رہے ہیں ۔کتاب کی قیمت ذرا زیادہ لگی تاہم میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ قارئین کو کتاب پڑھنے سے کشمیر کی تاریخ کے عبرتناک واقعات کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا ۔میں چاہوں گا کہ ہر کوئی اس کتاب کو خرید کر پڑھنے کی کوشش کرے ،کتاب سری نگر مائسمہ میں دستیاب ہے ۔
رابطہ :۔7006715103

 

***

 کشمیر کی تاریخ کے متعلق کھٹے میٹھے واقعات کے ساتھ پاکستان میں ان کے ساتھ کیا کچھ اچھا اور برا ہوا دونوں طرح کے واقعات انتہائی ماہرانہ انداز میں کتاب میں درج کیے گئے ہیں۔ وہیں ان واقعات کو پڑھ کے ایک قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر کسی ملک میں حکومتیں اپنے اپنے مفادات کے مطابق ہی فیصلے صادر کرتی ہیں یا کوئی بھی عمل انجام دینا ہو تو پہلے اپنے مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، انسانوں کے دکھ درد اور غم کی اہمیت ان مفادات کے سامنے اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024