قسط ۔5: بھارتی مسلمانوں کا تعلیمی ایجنڈا۔چند تجاویز
دینی مدارس کے طلبہ18 یا 19 سال کی عمر میں عالمیت کے ساتھ ساتھ بارہویں کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں
سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)
ذاتی لائبریری کا ذوق قصہ پارینہ کیوں بن گیا؟ طلبہ میں مطالعہ کا شوق پروان چڑھانے کی ضرورت
بارہویں کے امتحانات:
میٹرک کے بعد طلبہ دو سال کے وقفے سے بارہویں کے امتحانات دے سکتے ہیں۔ عالمیت کورس کرنے والے طلبہ اپنا کورس جاری رکھتے ہوئے کل پانچ مضامین میں سے دو مضامین کے امتحانات پہلے سال دے سکتے ہیں اور دومضامین کے امتحانات دوسرے سال دے سکتے ہیں۔ اس طرح طلبہ عالمیت کے ساتھ ساتھ بارہویں کاسرٹیفکیٹ 18 یا 19 سال کی عمر میں حاصل کرسکتے ہیں۔ موجودہ نظام میں مختلف بڑے مدارس سے عالمیت کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کو راست ’بی اے ‘میں داخلہ ملتا ہے۔ لیکن یہ طلبہ سائنس کے کورسوں میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب وہ طلبہ ’این آئی او ایس ‘ کے ذریعہ سائنس مضامین کو لے کر بارہویں پاس کرتے ہیں تو پھر وہ نیٹ کا امتحان دے سکتے ہیں یا پھر سائنس کے کسی بھی کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
مطالبے پر امتحان:
’این آئی او ایس‘ میں ایک اور سہولت ’مطالبے پر امتحان‘ کی ہے۔ یعنی میٹرک اور بارہویں کے سالانہ امتحانات میں پرچہ لکھنے کے بعد اگر کسی طالب علم کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ وہ کسی مضمون میں فیل ہوسکتا ہے یا اسے کم نمبرات مل سکتے ہیں تو پھر ایک مہینے بعد وہ ’مطالبے پر امتحان‘ دے سکتا ہے۔’مطالبے پر امتحان‘ دینے کا عمل ایک مضمون کے لیے بھی ہوسکتا ہے یا کئی مضامین کے لیے بھی۔ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو کسی اور بورڈ میں فراہم نہیں ہے۔ اگر ایک طالب علم تین مضامین میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کے دو مضمون رہ جاتے ہیں، جن میں وہ پاس نہیں ہوا ہے تو نتائج آنے کے ایک ماہ بعد وہ ایک مضمون کا امتحان دے سکتا ہے یا دو مہینے کے بعد اس مضمون کا امتحان دوبارہ دے سکتا ہے اور جس مضمون کا امتحان رہ گیا، تین ماہ کے بعد اچھی تیاری کے ساتھ اس کا امتحان دے سکتا ہے۔ اس طرح طلبہ مختلف وقفوں میں تمام مضامین کا امتحان دے کر اپنا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
سال میں دو بار داخلے کا موقع:
اس بورڈ میں ہر سال دو بار داخلے کا موقع آتا ہے۔ طلبہ اپنی سہولت اور حالات کے مطابق داخلہ لے سکتے ہیں۔ پہلا موقع 11 مارچ تا 31 جولائی کا ہے۔ اس کا امتحان اکتوبر اور نومبر میں ہوتا ہے۔ دوسرا موقع 15 ستمبر تا 31 جنوری ہے۔ اس کا امتحان اپریل، مئی میں ہوتا ہے۔اگر کوئی طالب علم دونوں داخلے کی تاریخوں میں فارم نہیں پُر کرسکا تو لیٹ فیس کے ساتھ بھی فارم پر کرنے کی ایک مدت دی جاتی ہے۔
’این آئی او ایس‘ کے مراکز کا قیام کیسے؟:
’این آئی او ایس‘ سے تعلیم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ طلبہ اپنے طور پر’ این آئی او ایس‘ سے رجسٹریشن کراسکتے ہیں۔ انہیں ان کے مقام سے قریب واقع’ این آئی او ایس ‘کے سنٹر سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ وہاں طالب علم کو ہفتہ میں ایک بار جانا ہوتا ہے۔ پریکٹیکل والا اگر مضمون ہے تو پریکٹیکل کرنے ہوتے ہیں۔ ورنہ وہاں کنٹیکٹ کلاسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے طلبہ اپنے مدرسے سے قریب والے سنٹر کو منتخب کرسکتے ہیں اور وہاں امتحان دے سکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ’ این آئی او ایس ‘ دینی مدارس کو بھی اب اپنا اسٹڈی سنٹر بنا رہا ہے۔ پہلے یہ بات قدرے مشکل تھی لیکن اب یہ آسان ہوچکی ہے۔ پہلے ’این آئی او ایس‘ اس اسکول یا مدرسے کو مرکز بناتا تھا جو’ سی بی ایس ای‘ سے یا پھراسٹیٹ بورڈ یا مدرسہ بورڈ سے ملحق ہوتا تھا۔ لیکن اب اگر کوئی مدرسہ’ اسٹیٹ بورڈ‘ یا ’ مدرسہ بورڈ ‘سے ملحق نہیں ہے لیکن اس کے پاس اتنی عمارت دستیاب ہے جہاں کلاسوں کا اہتمام کیا جاسکتاہے اور اس میں مدرسین کی وہ تعداد موجود ہے جو’ این آئی او ایس‘ کے مضامین کو پڑھا سکتے ہیں تو اسے سنٹر بنایاجاسکتا ہے۔
فیس :
’این آئی او ایس‘سے جڑنے کے لیے’ این آئی او ایس‘کی فیس زیادہ نہیں ہے۔ یہ فیس داخلہ اور امتحان کے لیے دوہزارروپے تک ہے(برائے سال 2023)۔ اس میں رجسٹریشن، امتحان کی فیس اور کتابوں کی رقم شامل ہے۔’ این آئی او ایس‘ ہر طالب علم کو اردو اور ہندی زبانوں میں کتابیں فراہم کرتا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے طلبہ یا ادارے مزید تفصیلات ’ این آئی او ایس ‘ کی ویب سائٹ سے حاصل کرسکتے ہیں جس کا ایڈریس یہ ہے https://www.nios.ac.in/
تعلیمی ایجنڈے کے مزید کچھ نکات
اس مضمون میں اب تک ’ ملت کے تعلیمی ایجنڈے کا تعارف ‘ اور ’ مقاصد تعلیم‘جیسے عناوین کے علاوہ ’ تعلیم کی دوئی‘ پر بحث کی گئی جو ملت کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔نیز فی زمانہ اس کا آسان حل بھی پیش کیا گیا جسے اپنا کر ملت اسلامیہ زوال و انحطاط سے بچ سکتی ہے۔اسی طرح عصری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے لیے دینی تعلیم کے مراکز کا قیام اور دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء کے لیے عصری تعلیم کے امکانات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اگلی سطور میں ملت کے تعلیمی ایجنڈے کے کچھ مزید نکات سپرد قرطاس کیے جارہے ہیں۔
تعلیمی ثقافت کا فروغ
ملت کے تعلیمی ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ملت میں تعلیمی ثقافت (Educational culture)کو کیسے فروغ دیں؟
دنیا کے تمام ماہرین نفسیات جو تعلیم کے شعبے میں بھی عبور رکھتے ہیں کا کہنا ہے کہ بچے اپنے ماحول ،معاشرے، اپنی تہذیب و ثقافت اور ان رویوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں جو وہ اپنے اطراف میں محسوس کرتے ہیں یا جن رویوں سے ان کی وابستگی ہوتی ہے۔ چنانچہ جس کلچر میں تعلیم کا ماحول ہوتا ہے، تعلیم کی اہمیت کو قبول کیا جاتا ہے اور گھر اور سماج میں علمی گفتگو ہوتی ہے، اس سماج کی نسل ان اثرات کو بہتر طور پر قبول کرتی ہے۔ یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کا تعلیمی کلچر بام عروج پر تھا۔ اُن دنوں بغداد کی گلیاں راتوں میں قمقموں کی چمک اور قندیلوں کی روشنی سے جگمگاتی رہتی تھیں۔ اس روشنی میں علمی مجالس کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ خطاط کتابوں کی نقلیں تیار کرتے تھے اور مخطوطات کی خریدو فروخت ہوتی تھی۔ جب کہ اسی دور میں مغربی ممالک میں لوگ توہم پرستی کا شکار تھے۔دن ڈھلتے ہی اپنے گھروں میں چلے جاتے تھے ۔ان کا ماننا تھا کہ رات کی تاریکی نحوست لے کر آتی ہے۔اندھیرے کی چادر پھیلتے ہی سڑکیں اور گلیاں آسیب کے زیر اثر آجاتی ہیں ، اس لیے وہ رات کی تاریکی میں کوئی علمی کام انجام نہیں دیتے تھے جب کہ علم و تحقیق میں دلچسپی نہ ہونے کے سبب دن کے اجالے میں بھی ان کی علمی سرگرمیاں انتہائی سست رہتیں۔ پھر زمانے نے کروٹ لی اور حالات یوں بدل گئے کہ تیرھویں صدی کے اُسی مسلم علمی ورثے کو لے کر آج مغرب علم و تحقیق کے سب سے اونچے پائیدان پر کھڑا ہوا ہے۔
اس وقت مغربی ممالک میں تعلیمی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق وہاں کی خواتین ہر سال اوسطاً چھ ضخیم کتابیں پڑھ لیتی ہیں۔اس کے برخلاف بھارت کی مسلم خواتین مطالعے کے معاملے میں اور کتابوں سے شغف رکھنے کے تئیں بہت کمزور ہیں۔ انٹرویو میں جب ہم مسلم لڑکیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے نصابی کتب کے علاوہ بھی کوئی کتاب پڑھی ہیں؟ تو اکثر کا جواب ’ نفی ‘ میں ملتا ہے۔ بعض لڑکیاں جواب میں دو کتابوں کا نام لیتی ہیں ۔ اول: بہشتی زیور، دوم: فضائل اعمال۔ ان دونوں کتابوں کے علاوہ بہت کم لڑکیاں دیگر کتابوں کا مطالعہ کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں ملت کے اندر کوئی تعلیمی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی نئی نسل کی تربیت اس کے تقاضوں کے مطابق کرنی ہوگی۔ ہم اپنے بچوں کی تربیت علمی ماحول میں نہیں کرتے اور نہ ہی گھروں میں علمی ماحول فراہم کرتے ہیں۔ بہت کم گھر ایسے ہیں جہاں علمی موضوعات پر فیملی ڈسکشن ہوتا ہو، اجتماعات ہوتے ہوں یا ایک ساتھ بیٹھ کر کتابیں پڑھی جاتی ہوں۔ ہمارے گھروں میں جو عام طور پر گفتگو ہوتی ہے ، وہ کرکٹ، فلمی دنیا اور ٹی وی سیریز جیسے موضوعات پر ہوتی ہے یا پھر دنیا پرستی کی باتیں کہ کس کے پاس کتنا روپیہ ہے۔ کون عالیشان گاڑی، بنگلہ کا مالک ہے اور کون کہاں سیر و تفریح کے لیے جارہا ہے اور کس کی زندگی راحت و آسائش بھری ہے۔ یہی ہمارے گھروں کے مرغوب موضوعات ہیں۔ اسی اعتبار سے ہماری نسل کی پرورش و تربیت ہورہی ہے۔
ایجنڈے کے ان نکات کے تحت ہمیں کوشش کرنی ہے کہ بھارت کے مسلمانوں میں ایک علمی کلچر کو فروغ دیں۔ اس کے لیے مسلسل تربیت کی ضرورت ہے، جسے ہم ممکنہ وسائل کا استعمال کرکے یقینی بناسکتے ہیں۔ اس کلچر کو عام کرنے میں خطبات و تقاریر اور سوشل میڈیا وغیرہ کی مدد لی جاسکتی ہے۔
گھروں میں تعلیمی کلچر
تیس تا چالیس سال قبل ملت میں یہ کلچر کسی نہ کسی درجے میں موجود تھا کہ گھروں میں داخل ہوتے تو برآمدے اور دیوان خانے میں کتابوں کی الماریاں نظر آتیں۔ ان الماریوں میں نئی اور قدیم و نایاب کتابیں سجی ہوئی ہوتیں۔ جب کوئی مہمان آتا تو مہمان کے ساتھ ان کتابوں پر گفتگو ہوتی اور علمی سماں بندھ جاتا۔ ماضی قریب تک بھارت میں ذاتی لائبریریوں کاچلن پایا جاتا تھا۔ بی بی سی کے ایک مشہور صحافی رضا علی عابدی نے اس پر ایک دلچسپ سیریز (کتب خانوں سے) کے عنوان کے تحت پیش کی تھی۔ بعد میں اس پروگرام کوکتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا ۔اس کتاب میں انہوں نے کرناٹک کے دور دراز علاقے ’بیجا پور‘ کی ایک ذاتی لائبریری کا ذکر کیا ہے تو رامپور کی رضا لائبریری اور پٹنہ کی خدا بخش لائبریری کا بھی دلچسپ تذکرہ کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ کلچر اب قصہ پارینہ بن کر رہ گیا ہے۔ اب گھر چھوٹے ہوگئے ہیں، ڈرائنگ روم میں الماریاں اور شوکیس موجود ہیں، مگر ان میں کتابیں نہیں بلکہ خوبصورت کھلونے یا ڈنر سیٹ، ٹی سیٹ اور نگاہوں کو فرحت بخشنے والی اشیا ملیں گی۔ دماغ کی غذا کے لیے جو اشیاء پہلے الماریوں میں ہوا کرتی تھیں، ان کی جگہ زبان کے ذائقے اور پیٹ کو بھرنے والی اشیا نے لے لی ہے۔ یہ طرز زندگی بتا رہا ہے کہ کس طرح ملت اب دماغ کے لیے کم اور پیٹ کے لیے زیادہ سوچتی ہے۔
ہر تعلیم یافتہ گھرانہ یا وہ خاندان جو علم و حکمت کو فروغ دینا چاہتا ہے، وہ اپنے بجٹ میں تعلیم کو اہم مقام دیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم ملت میں تعلیم کے لیے بجٹ مختص کرنے کا کوئی مزاج نہیں ہے۔ ہم کھانے کے لیے ،کپڑوں کے لیے ، زیوروں کے لیے، گاڑی کے لیے اور شادی بیاہ میں نمائش کے لیے ضرور ی بجٹ بناتے ہیں اور اس کے لیے سرمایہ جوڑتے ہیں، لیکن کتابوں کے لیے، تعلیمی سرگرمیوں کے لیے ہماری بجٹ پلاننگ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمیں ملت میں بیداری لانے کی ضرورت ہے کہ ہر گھر چاہے معاشی اعتبار سے کمزور ہو یا متمول ۔ حسب حیثیت تعلیمی مشاغل اور علمی سرگرمیوں کے لیے ایک بجٹ مختص کرے۔ تاکہ ہر مسلمان کا گھر علم کا گہوارہ بن جائے۔ ہر گھر اپنے آپ میں ایک مدرسہ اور لائبریری ہو، تب جاکر ایک تعلیمی انقلاب برپا ہوگا اور ہم دنیا کو دینے والے بنیں گے۔ جب ہم تعلیمی اعتبار سے بلند ہو کر دنیا کو دینے والے بن جائیں گے تو دنیا کو مسخر کرنا ہمارے لیے آسان ہو گا۔ وہ تعمیری انقلاب جس کے ہم متمنی ہیں، اس کے لیے تعلیم ایک اہم شاہراہ ہے۔ ہمیں مختلف انداز اور ذریعوں سے اپنے شعور کو بیدار کرنا ہوگا کہ اپنے گھروں میں بچوں کی تعلیم کے لیے ایک ماحول پیدا کریں، ایسا ماحول جو ان کی تعلیم کے لیے سازگار ہو۔ آج کل گھر چھوٹے ہوتے ہیں ، بچے پڑھنے والے ہوتے ہیں تو انہیں وہاں پرسکون ماحول دستیاب نہیں ہوتا۔ موبائل فون پر اہل خانہ بلند آواز سے گفتگو کرتے ہیں یا پھر موبائل اور ٹی وی پر مَن چاہے پروگرام دیکھتے ہیں، جس سے بچوں کی تعلیم میں خلل پڑتا ہے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ گھر میں کچھ دیر کے لیے ’نو موبائل اورس‘ ڈکلیئر کیا جائے، یعنی شام کے کچھ مخصوص اوقات میں گھر کے تمام لوگوں کے موبائل بند ہونے چاہیئں اور ان کا استعمال صرف فوری شدید ضرورت ہی کے لیے کیا جائے۔ اگر گھر چھوٹا ہے تو گھر کا ایک گوشہ تعلیم کے لیے مختص کردیا جائے۔ وہاں بچوں کے لیے صاف ستھرا ماحول دستیاب ہو۔ تعلیمی اوقات کے درمیان باورچی خانے کی سرگرمیاں بھی کم کردی جائیں، ممکن ہوتو ان سرگرمیوں کو بالکل روک دیا جائے۔ اسی طرح خوشگوار تعلیمی ماحول کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ماں باپ کے درمیان تعلقات بہتر ہوں اور گفتگو نرم لہجے میں کی جائے، کسی طرح کی لڑائی جھگڑا اور بلند آواز سے قطعی اجتناب کیا جائے۔ نصابی کتابوں کے علاوہ غیر درسی کتابوں کے مطالعہ کا ایک ماحول بنایا جائے۔ گھر میں کسی کتاب کا اجتماعی مطالعہ کرنے کی عادت بنائی جائے، چاہے آدھے گھنٹے کے لیے ہی سہی۔ اس سے طلباء اور افراد خانہ میں مطالعے کی عادت کو فروغ ملے گا۔ اگر اجتماعی مطالعہ ممکن نہیں ہے تو گھر کا ہر فرد اپنی پسندیدہ کتاب کا انتخاب کرے اور اس کا مطالعہ کرے۔ سال میں ایک دو بار پوری فیملی کے ممبران کتابوں کی مارکیٹ یا کتابوں کی نمائش کا دورہ ضرور کریں۔
تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی ہمیشہ ہمت افزائی کی جانی چاہئے، انہیں مناسب غذا دی جائے۔ ان سے خوشگوار گفتگو کی جائے، کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جو انہیں نفسیاتی طور پر چوٹ پہنچائے۔ اگر طالب علم کسی مضمون میں کمزور ہے تو اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔گھر کے بڑے، بچوں کے مسائل توجہ سے سنیں اور انہیں حل کرنے میں دلچسپی لیں۔ یہ چند باتیں تھیں، گھروں میں علمی کلچر کو فروغ دینے کے لیے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں ہیں جو گھروں میں تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ انہیں اختراعی صلاحیتوں کے ذریعہ رائج کیا جاسکتا ہے۔
جاری
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔ وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***
ہر تعلیم یافتہ گھرانہ یا وہ خاندان جو علم و حکمت کو فروغ دینا چاہتا ہے، وہ اپنے بجٹ میں تعلیم کو اہم مقام دیتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم ملت میں تعلیم کے لئے بجٹ مختص کرنے کا کوئی مزاج نہیں ہے۔ ہم کھانے کے لئے ،کپڑوں کے لئے ، زیوروں کے لئے، گاڑی کے لئے اور شادی بیاہ میں نمائش کے لئے ضرور ی بجٹ بناتے ہیں اور اس کے لیے سرمایہ جوڑتے ہیں، لیکن کتابوں کے لئے، تعلیمی سرگرمیوں کے لئے ہماری بجٹ پلاننگ میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ہمیں ملت میں بیداری لانے کی ضرورت ہے کہ ہر گھر چاہے معاشی اعتبار سے کمزور ہو یا متمول، حسب حیثیت تعلیمی مشاغل اور علمی سرگرمیوں کے لئے ایک بجٹ مختص کرے۔ تاکہ ہر مسلمان کا گھر علم کا گہوارہ بن جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023