قسط ۔3:بھارتی مسلمانوں کا تعلیمی ایجنڈا۔ چند تجاویز

بنیادی دینی تعلیم کے لیے جز وقتی مکاتب کا وژن

سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)

مسلم بچوں میں تربیت کی کمی اور انفرادیت پسندی وخود پسندی جیسی خرابیوں کی اصلاح ضروری
جز وقتی مکاتب :
ہم نے اوپر ایک مختصر جائزہ اس بات کا پیش کیا ہے کہ مسلم نوخیز نسل کی دینی تعلیم کا ہمارے ملک میں منظر نامہ کیا ہے؟ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ اسکولوں میں دینی تعلیم کا معقول انتظام موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسلم بچوں کی کثیر تعداد اسلام کی بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے اور جوں جوں زمانہ گزرتا جارہا ہے، دینی تعلیم سے محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ایک جانب دینی تعلیم و تربیت کی کمی اور دوسری جانب ملت کی نوخیز نسل کو درپیش چیلنج بڑے شدید ہیں۔یہاں ہم صرف دو چیلنجوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
پہلا چیلنج انفرادیت پسندی کا ہے۔مابعد جدیدیت کے دور میں انفرادیت پسندی (individualism) ایک بڑا فتنہ ہے۔ یہ اتنا شدید ہے کہ بعض اسلامی اسکالر اسے شرک بھی قرار دیتے ہیں۔ انفرادیت پسندی، فرد کو اللہ کی بندگی سے بھی دور کردیتی ہے۔ آج کے نوجوان نے اپنی سوچ کو اپنی ذات کی حد تک محدود کردیا ہے۔ اس کی انفرادیت پسندی نے اسے خود شناسی سے بے نیاز کردیا ہے۔ چناں چہ وہ مادی فوائد و وسائل، آسائش کے ذرائع اور اشیا کے حصول میں اپنے آپ کو گنوا رہا ہے۔ نہ اسے صلہ رحمی سے کوئی واسطہ ہے، نہ رشتے ناطوں سے اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو روحانی زندگی سے جوڑنے کی کوئی فکر کرتا ہے۔ اس پہلے چیلنج کی وجہ سے خاندانوں کے تانے بانے بکھر رہے ہیں۔ سماجی رابطے اور تعلقات کی معنویت معدوم ہورہی ہے۔ اب تو بچے صبح اپنے والدین کو سلام فیس بک پر بھیجتے ہیں۔ ماں باپ کا احترام اور ان کی خدمات کا مفہوم ‘مدرس ڈے اور فادرس ڈے’کی حد تک سمٹ رہا ہے۔ بچے بھی اب اپنی ‘ پرائیویٹ لائف’ میں کسی کی بھی مداخلت کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس مداخلت کو اپنے اوپر ظلم سمجھنے لگے ہیں۔
دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ موجودہ مسلم نسل خود پسندی اور خود پرستی میں ملوث ہوکر نظریہ توحید سے دور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ رویہ انسان کو الحاد کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔ آج پوری دنیا میں الحاد فرد اور سوسائٹی کو اپنے شکنجے میں جکڑتا جارہا ہے۔ نوجوان نسل غیر محسوس طور پر الحاد کی جانب راغب ہوتی جارہی ہے۔ ادھر چند برسوں سے کچھ مسلم نوجوان انٹرنیٹ پر’ایکس مسلم‘ کے گروپ کے تحت اپنے آپ کو جوڑ رہے ہیں۔ علانیہ طور پر تو چند نوجوان ہی ایسے گروپوں میں شامل ہورہے ہیں لیکن تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد الحاد کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پرمائل ہورہی ہے۔ دراصل نظریہ الحاد مابعد جدیدیت کا ایک اہم نظریاتی ہتھکنڈہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ نئی نسل کو روحانی دنیا سے پوری طرح منقطع کردینا چاہتی ہے اور جب فرد روحانی دنیا سے اپنا ناطہ توڑ لیتا ہے اور روحانی دنیا کو دیو مالائی داستان سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس کے اخلاقی نظام کا محور تبدیل ہوجاتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ موجودہ سماج میں اخلاقیات مادیت سے جڑ گئی ہیں۔ فرد انھی اخلاق کو اپنانا چاہتا ہے جن سے اسے مادی فائدہ اور دنیاوی سرور حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا اخلاقی نظام روحانی دنیا کے محور پر گھومتا ہے۔ اسلام جس روحانی زندگی کا تصور پیش کرتا ہے وہ نظریہ توحید پر قائم ہے۔
یہ تو حال ہے موجودہ عالمی اخلاقی بحران کا۔ تیسرا بڑا چیلنج ہمارے ملک کے حالات کا ہے۔ ہمارے ملکی حالات نے جو چیلنج کھڑے کیے ہیں، وہ بظاہر سیاسی محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد، اخلاقی بگاڑ پر ہی قائم ہے۔ اس بگاڑ کا اظہار سیاسی میدان میں ہورہا ہے۔ موجودہ سیاسی چیلنج مسلم نوجوانوں کو بے چین کررہے ہیں۔ مسلم نوجوان اسے ہندو مذہب سے جوڑ کر بھی دیکھتا ہے۔ حالاں کہ اس بگاڑ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سے ہندو مذہب کی تعلیمات، شخصیات اور مذہبی تحریکات کابہت کم واسطہ ہے۔ بلکہ اس کا جنم ہندو نیشنلزم کے بطن سے ہوا ہے۔ لیکن عام طور پر مسلم نوجوانوں کو اس کا شعور بہت کم ہے۔ ہندو نیشنلزم کے موجودہ رویے میں اخلاقی بگاڑ اور مادہ پرستی کا اثر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مادہ پرستی ہی فرد میں یہ شوق اور اکساہٹ پیدا کرتی ہے کہ ہر ممکن ذریعے کا استعمال کرکے طاقت و قوت اور راحت و سرور حاصل کیا جائے۔ چناں چہ سماج میں اکثریت اب اس مرض کا شکار ہوچکی ہے۔ اس لیے مسلم اذہان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کا ہندو طبقہ ان کا خیر خواہ نہیں ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے جو غلط فہمی کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے جس کا ازالہ تعلیم و تربیت سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اس چیلنج کا مقابلہ مسلم نوجوان اپنے بنیادی کردار میں تبدیلی پیدا کرکے ہی کرسکتے ہیں۔ اس تعلیم و تربیت کا آغاز بچپن ہی سے ہونا چاہیے۔ اگر پرائمری اسکول کی سطح پرہی حالات کے تجزیے کے بعد بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی کردار سازی نہ ہو تو پھر مستقبل میں مسلسلملت کو شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسئلے کا حل ری ایکشن، غصہ، گروہ بندی، ‘‘ وہ اور ہم،’’کی سیاست سے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار اور سماج میں اسلام کے سفیر بننے سے ممکن ہے۔
ایک اور ذیلی چیلنج اسلاموفوبیا کا ہے۔ اسلاموفوبیا طلبہ کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اب اسکولوں میں ایسی حرکات و سکنات دیکھنے میں آتی ہیں جو مسلم طلبہ کو کبھی مایوس بھی کرتی ہیں اور کبھی ان کے جذبات بھی بھڑکاتی ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات ہمارے اسکولوں میں ہورہے ہیں۔ ان چیلنجوں کے پس منظر میں ہمیں ایک متوازن، باہمت، ذہین، باشعور اور نظریہ توحید کا ادراک رکھنے والی نسل کو تیار کرنا ہے۔ یہ کام محض طلبہ کو عبادات کے لیے تیار کرنے سے پورا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بچوں کی ایسی تربیت ہو کہ دین ان کی فکر و شعور میں داخل ہوجائے اور دین ان کی خودی کا حصہ بن جائے۔ اس کے بعد طلبہ اس فکر و شعور کی روشنی میں اپنی عملی زندگی گزاریں، اپنی ثقافت کو ترتیب دیں، اپنی جمالیاتی حس کی تکمیل کریں اور سماج میں رابطوں کو استوار کریں۔ اس کے لیے ملک بھر میں جز وقتی مکاتب کی ضرورت ہے۔
جزوقتی مکاتب کا ایک بڑا جال کیرالا میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن ملک کی دیگر ریاستوں میں جزوقتی مکاتب کی تعداد بہت کم ہے۔ ‘ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ’یہ چاہتا ہے کہ ملک بھر میں باشعور نسل کی تیاری کے لیے جزوقتی مکاتب کا ایک جال پھیلا دیا جائے۔ اس لیے کہ جن چیلنجوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کا مقابلہ موجودہ دینی تعلیم کے نظام سے پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ لیکن ہاں، اس طرح کے ادارے جہاں بھی قائم ہیں، وہ ہمارے تعاون اور تائید کے مستحق ہیں۔
مکاتب کہاں قائم کیے جائیں
جن مکاتب کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ایسے جزوقتی مکاتب مسجدوں میں قائم کیے جاسکتے ہیں، کسی ہال میں، اسکولی اوقات کے بعد اسکولوں میں، اسلامی سینٹروں میں یا پھر گھروں میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر گھروں میں گنجائش ہو تو زیادہ طلبہ کو اس میں داخلہ دیا جاسکتا ہے یا پھر ایک خاندان کے بچے ہی اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔ بلکہ اگر ایک چھوٹا خاندان ہے اور ان کے ایک یا دو ہی بچے ہیں تو ان کے لیے بھی ایک گھر میں اس نظام کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی دستیاب جگہ سے لے کر بڑے ہال تک کہیں بھی ایسے مکاتب کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ یہ جزوقتی مکاتب ہیں، صبح یا شام ان کا انعقاد ہوگا۔ اس لیے جہاں مسجد کی سہولت دستیاب نہیں ہے، وہاں ایسی جگہوں کو تلاش کیا جاسکتا ہے جہاں سہولت کے ساتھ مکاتب کی کلاسوں کا اہتمام کیا جاسکے۔ اسی طرح اس کی کوئی قید نہیں ہے کہ یہ صرف شہروں میں قائم کیا جائے۔ اس نظام کو شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی چلایا جاسکتا ہے۔ چاہے مال دار طبقات کے محلے ہوں یا پھر غریب بستیاں۔ ہر جگہ اس کے قیام کی گنجائش موجود ہے۔
کس عمر کے بچوں کے لیے یہ نظام ہوگا
اس نظام کا تعلق عمر سے کم اور بچوں کی تعلیم سے زیادہ ہے۔ ویسے اس کی جو کتابیں ترتیب دی گئی ہیں، انھیں چار یا پانچ سال کی عمر سے پڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر طلبہ آٹھ یا دس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہوں لیکن انہیں اب تک دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں مل سکا تو ایسے طلبہ کے لیے بھی اس کورس کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ تعلیم بالغان کے سینٹروں میں بھی بالغوں کو یہ کورس پڑھایا جاسکتا ہے۔ اس کورس کا تعلق عمر سے نہیں بلکہ طلبہ کے سیکھنے اور اس میں اپنے آپ کو پوری طرح لگادینے سے ہے۔
کورس کی میعاد
کورس کی کوئی متعین میعاد نہیں ہے۔ طلبہ کے سیکھنے کی صلاحیت پر یہ کورس محمول ہے۔ اگر طلبہ کورس کو تیزی سے مکمل کرلیتے ہیں تو وہ پورے کورس کو ایک سال میں بھی مکمل کرسکتے ہیں۔ فی الوقت اس کی چار کتابیں ہیں جنہیں ترتیب کے ساتھ پڑھایا جانا چاہیے۔ بعض اسکولوں کی انتظامیہ یہ چاہتی ہے کہ ان کتابوں کو کورس میں شامل کیا جائے۔ ان کے لیے یہ مشورہ ہے کہ یہ کتابیں ’یو کے جی‘سے لگائی جاسکتی ہیں۔ پہلی کتاب‘ یوکے جی ’کے لیے، دوسری کتاب ‘گریڈ وَن’کے لیے، تیسری کتاب ‘ گریڈ ٹو’کے لیے اور چوتھی کتاب ‘ گریڈتھری’ کے لیے۔ ابھی ‘ ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ’ نے چار کتابیں ترتیب دی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کورس کو مزید بڑھایا جائے۔
کتابوں کا تعارف
اسلامی درسی کتابوں کو علمائے کرام اور ماہرین نے ترتیب دیا ہے۔ کتابوں کی تیاری میں طلبہ کی نفسیات، دینی ضرورتوں، موجودہ دور کے تقاضوں اور تربیتی پہلوؤں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ان کتابوں میں مندرجہ ذیل مضامین شامل ہیں:
ناظرہِ قرآن، عقائد، اخلاقیات، عبادات، فقہ، سیرت، اسلامی تاریخ اور موجودہ سماجی زندگی۔
ان کتابوں میں نظریاتی باتوں کے علاوہ عملی کام بھی طلبہ کے لیے دیے گئے ہیں۔ ان عملی کاموں کے ذریعے یہ مقصود ہے کہ طلبہ میں اخلاقیات کو عملی طور پر پیدا کیا جائے۔
تدریسی عمل
ان کتابوں کو کیسے پڑھایا جائے۔ اس کی ویڈیوز یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔ کتابوں میں دیے گئے کیو آر کوڈ کو اسکین کرنے سے آپ ان ویڈیوز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معلمین و معلمات سے گزارش ہے کہ وہ اس خاص تدریسی عمل کو اختیار کریں جو یوٹیوب پر دکھایا گیا ہے۔ ویسے ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ کی جانب سے اسلامیات، جزوقتی مکاتب کا اہتمام کررہے معلمین و معلمات کے لیے ہر سال ٹریننگ پروگرام کا اہتمام کیا جائے گا۔ تاکہ انھیں تدریسی عمل کی جدید ٹیکنک سکھائی جائیں۔
مکاتب کے اخراجات
یہ سوال فطری ہے کہ جہاں یہ مکاتب قائم کیے جائیں گے ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مکاتب کے قیام کے لیے جو بنیادی ضرورتیں ہیں، انھیں کوئی ادارہ، مسجد کمیٹی یا اہل خیر حضرات اپنے ذمے لیں یا پھر انفرادی طور پر کوئی اسے قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ ان اخراجات کی ذمہ داری اٹھائے۔ ویسے ابتدائی اخراجات بہت کم آتے ہیں۔ بنیادی اخراجات کے بعد مکاتب میں داخلے کے لیے اور کتابوں کی خریداری کے لیے مقام کے اعتبار سے فیس طے کی جائے۔ اس فیس سے جملہ اخراجات اور معلمین کی تنخواہ کا انتظام کیا جائے۔
امتحانات
ہر کتاب کی تکمیل کے بعد امتحانات کے لیے اس کا نظم ’ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ‘ کی جانب سے کیا جائے گا۔ کام یاب طلبہ کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔ بعض مقامات پر اور حسب ضرورت و موقع آن لائن ٹیسٹ کا بھی انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اسلامیات کے جزوقتی مکاتب کے قیام میں دل چسپی رکھنے والے حضرات مندرجہ ذیل ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہی۔ نیچے دیے گئے ای میل کے ذریعے بھی مراسلت کی جاسکتی ہے:
فون نمبر: 9818409191،
[email protected]
جاری
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔
وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***

 

***

 نوجوان نسل غیر محسوس طور پر الحاد کی جانب راغب ہوتی جارہی ہے۔ ادھر چند برسوں سے کچھ مسلم نوجوان انٹرنیٹ پر’ایکس مسلم‘ کے گروپ کے تحت اپنے آپ کو جوڑ رہے ہیں۔ علانیہ طور پر تو چند نوجوان ہی ایسے گروپوں میں شامل ہورہے ہیں لیکن تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد الحاد کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پرمائل ہورہی ہے۔ دراصل نظریہ الحاد مابعد جدیدیت کا ایک اہم نظریاتی ہتھکنڈہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ نئی نسل کو روحانی دنیا سے پوری طرح منقطع کردینا چاہتی ہے اور جب فرد روحانی دنیا سے اپنا ناطہ توڑ لیتا ہے اور روحانی دنیا کو دیو مالائی داستان سمجھنے لگتا ہے تو پھر اس کے اخلاقی نظام کا محور تبدیل ہوجاتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023