خواتین کا عالمی دن اور اسلام

طبقہ نسواں کو حقوق دلانے کے لیے میدان عمل میں جدوجہد درکار

سمیہ بنت عامر خان

عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام میں بہترین رہنمائی موجود
عالمی یوم خواتین کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کی زیر سرکردگی 28 فروری 1909 کو امریکہ میں خواتین کا قومی دن منایا گیا تھا۔ اس وقت شہر نیویارک میں 15000 خواتین اکھٹا ہوئی تھیں جنہوں نے بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیا تھا۔ پھر اگلے سال 1910 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کی کلارا زتکن نے کوپن ہیگن میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں خواتین کے حقوق کے لیے منظم تحریک چلانے اور 8؍ مارچ کا دن ’یوم خواتین‘ کے طور پر عالمی سطح پر منانے کی تجویز پیش کی۔ ان کے اس خیال کی 17 ممالک کی خواتین نے تائید کی۔چنانچہ1911 میں پہلا عالمی یوم خواتین منایا گیا۔اس کے بعد 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے ریلیاں نکالیں اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور خواتین پر ہونے والے ہر قسم کے ظلم وتشدد کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ پروگرام جنسی امتیازات کے بارے میں لوگوں میں بیداری لانے کی ایک کوشش ہے۔
عورتوں کے حقوق کے لیے آج دنیا‌ بھر میں ریلیاں اور پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، بڑے بڑے سماجی ادارے اور شخصیات خواتین کی عظمتوں اور رفعتوں کو سلام پیش کرتی ہیں۔ امریکہ، آذر بائیجان، بیلاروس کمبوڈیا اور درجنوں ممالک‌ نے جہاں اس روز کو قومی سطح پر ’’وومنز ہولی ڈے‘‘ قرار دیا ہے۔ تو وہیں دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں عورتوں کی عزت، عصمت اور آبرو تارتار کی جاتی ہے۔ ہم عالمی سطح پر تو یوم خواتین تو منا لیتے ہیں لیکن زمینی سطح پر اس دن بھی جنسی تشدد، عصمت دری، آبروریزی کے واقعات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
لیکن قارئین کرام یہاں اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا خواتین کو ایک دن کی چھٹی دینے پر ان کے تمام حقوق ادا ہوجاتے ہیں؟ کیا یوم خواتین کا جشن عورتوں پر کیے جانے والے مظالم کا درماں ہے۔۔! برسوں سے عورتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا‌‌ گیا کبھی عیش و آرام کے نام پر ان کی خرید و فروخت کی گئی تو کبھی شوہر کی چتا پر اسے جلایا گیا۔ وہ کبھی باپ کی، تو کبھی بیٹے کی محکوم تھی۔ عورتوں کو معاشی و سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔ عورتوں کے عالمی دن کو بڑے زور و شور کے ساتھ منانے کی بجائے ہمیں عورتوں پر ہونے والے استحصال کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہنے کی ضرورت ہے۔ جہاں مسلمانوں کو دین اسلام کے احکام پر بہرصورت چلنے کی تلقین کی جائے وہیں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنے قول وعمل سے وطنی بھائیوں اور بہنوں تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ اسلام خواتین کو ان کے تمام حقوق کے ساتھ زندگی جینے کا حق دیتا ہے۔ عورتیں اگر شرعی حدود میں رہ کر معاشی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں میں شامل ہوتی ہیں تو اسلام ان کی حوصلہ شکنی ہرگز نہیں کرتا۔
خواتین کا یہ بنیادی حق ہے کہ مردوں کے برابر ان کی تعلیم پر توجہ دی جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب ایک لڑکا تعلیم حاصل کرے تو ایک فرد ترقی کرتا ہے لیکن جب ایک لڑکی تعلیم حاصل کرتی ہے تو پورا خاندان ترقی کرتا ہے۔
دور جدید میں انسان ترقی اور تہذیبی طور پر بلند و بالا مقام پر ہے‌ لیکن عورتوں کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور حد تو یہ ہے کہ آج کا تہذیب یافتہ اور ترقی پسند، ماڈرن انسان عورت کے حقوق آزادی اور دیگر مسائل کے بارے میں اسلامی نظام کو مورد الزام ٹھیراتا ہے۔ جبکہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو ایک خاص مقام دیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کاخاتمہ کر دیا جو لڑکی کے انسانی وقار کے منافی تھیں۔ نوزائیدہ بچی کو زندہ زمین میں دفن کیے جانے سے نجات ملی۔ یہ رسم نہ تھی بلکہ انسانیت کا قتل تھا۔ایک ایسا معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔اللہ رب العزت نے اس صنف نازک کی تعظیم و تکریم کے لیے اسے مختلف روپ عطا کیے جیسے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی۔ لڑکی ہر روپ میں انسان کے لیے نعمت و رحمت ہوتی ہے۔ ماں کے روپ میں جنت اس کے قدموں میں رکھ دی۔ جب یہ بیٹی اور بہن کے روپ میں ہو تو والد اور بھائی کو جنت میں لے جانے کی باعث ہوتی ہے اور رسول کریم ﷺ کی رفاقت کا ذریعہ بنتی ہے۔اسی طرح اگر بیوی ہو تو شوہر کا آدھا ایمان مکمل کرتی ہے۔ غرض یہ کہ اسلام نے عورت کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیا بلکہ اسے وراثت کا حق دار بھی ٹھیرایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ ۖ لِلـذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَـهُنَّ
ثُلُثَا مَا تَـرَكَ ۖ وَاِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَـهَا النِّصْفُ ۚ اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔
(سورہ النساء آیت١١)
اسی طرح اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو مساوی درجہ عطا کیا ہے۔ سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ﴿وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّذِینَ تَفَرَّقُوا۟ وَٱخۡتَلَفُوا۟ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَاۤءَهُمُ ٱلۡبَیِّنَـٰتُۚ وَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ عَظِیمࣱ﴾ ” ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کر لیا (اور فرمایا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو.”(سورہ آل عمران آیت ١٠٥) اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عدل ومساوات کاحقیقی ضامن ہے۔
اسلام نے عورتوں کو گھر سے باہر نکل کر کام‌کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسلام کی تاریخ میں دیکھا جائے تو محمد ﷺ کے دور میں بھی عورتیں کام کے لیے گھر سے باہر جایا کرتی تھیں، عورتوں کو تعلیم دیتیں یہاں تک کے غزوات میں بھی شامل ہوا کرتیں تھیں۔یہ سب حقوق سب سے پہلے صرف مذہب اسلام نے ہی عورت کو عطا کیے ہیں۔ لیکن آج کی مسلم خواتین مغرب کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ سڑکوں پر دے کر اپنے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔ آج خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی ضد میں اپنی عزت اور اپنا مقام یہاں تک کہ عورت اپنا مفہوم یعنی پردہ تک بھول چکی ہے۔ آج کی ترقی یافتہ عورت یہ بھول چکی ہے کہ یہ وہ آزادی چاہ رہی ہے جس کی ہمارا اسلام اجازت نہیں دیتا۔ بہت سی مسلم خواتین مغربی تہذیب میں ڈھل کر پردہ کی عظمت کو بھول چکی ہے۔ جبکہ پردہ کبھی بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ایسی کئی عظیم خواتین ہے جنہوں نے پردے میں رہ کر علمی، دینی اور جنگی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ان میں کہیں آپ کو صفیہؓ بنت عبدالمطلب کے جنگی کارنامے نظر آئیں گے تو کہیں حضرت عائشہؓ کے علمی و ادبی کارنامے نظر آئےگے، تو کہیں رابعہ بصریؒ کے سامنے وقت کے بڑے بڑے علماء دو زانو طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اسلام نے جس قدر عورت کو عزت و احترام اور قدر و منزلت کے مقام پر پہنچایا اس سے بڑھ کر کسی مذہب اور سماج نے عورت کو ایسی عزت و احترام اور رفعت و بلندی نہیں دی۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کی عزت محفوظ رہے تو جلسے جلوس اور تقاریر کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ یہ فرض عین بھی ہے کہ خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے میدان عمل میں آگے آئیں، ان پر ہونے والے استحصال اور تشدد کا خاتمہ کریں۔ بڑھتی ہوئی بے راہ روی و ہوس پرستی پر اسلام اور ملک کے قانون کے مطابق روک لگائی جائے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024