اداریہ

ابھیجیت گنگوپادھیائے کے سیاسی میدان میں داخلے سے ابھرنے والے سوالات

کلکتہ ہائی کورٹ کے سابق جج ابھیجیت گنگوپادھیائے کے سیاست میں حالیہ داخلے نے ایک قسم کی تشویش اور تنازعہ دونوں کو جنم دیا ہے۔ 5؍ مارچ کو انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرکے اس بات کا اعلان کیا کہ وہ بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے بی جے پی ان کے ساتھ رابطے میں تھی اور وہ بھی بی جے پی کے ساتھ رابطے میں تھے۔ چنانچہ ان روابط کا نتیجہ بی جے پی میں ان کی باقاعدہ شمولیت کی صورت میں ظاہر ہوگیا۔پریس کانفرنس سے دو دن قبل انہوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر سیاست میں داخل ہو رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جسٹس گنگوپادھیائے اگست 2024 میں اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے والے تھے۔ جسٹس گنگوپادھیائے کا عملی سیاست میں داخلہ کوئی نیا یا غیر معمولی واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی مختلف ججوں نے عملی سیاست میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اصل سوال اور اعتراض اس بات پر ہے کہ برسر کار جج رہتے ہوئے وہ کیسے ایک سیاسی جماعت کے ساتھ اور سیاسی جماعت ان کے ساتھ رابطے میں رہی؟ مسٹر گنگوپادھیائے ایسے کئی مقدمات کے جج رہے ہیں جن کے فیصلوں میں ترنمول کانگریس کی حکومت پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جسٹس گنگوپادھیائے سیاسی بحث کا مرکز بنے ہوں۔ وہ 2؍ مئی 2018 کو کلکتہ ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر مقرر ہوئے اور 30؍ جولائی 2020 کو ہائی کورٹ کے مستقل جج کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ جنوری میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے ہفتہ کو ہونے والے ایک خصوصی اجلاس میں کلکتہ ہائی کورٹ کے اس مقدمے میں کارروائی پر روک لگا دی تھی جس میں جسٹس گنگوپادھیائے کی سنگل جج کی بنچ نے جسٹس سومن سین اور ادے کمار کی ڈویژن بنچ کے حکم امتناعی کو منسوخ کر دیا تھا۔دراصل جسٹس گنگوپادھیائے کی سنگل جج بنچ نے بنگال میں میڈیکل کالج میں داخلے کی بے ضابطگیوں کی جانچ سی بی آئی سے کرانے کا مطالبہ کیا تھا، جس پر ڈویژن بنچ نے روک لگا دی تھی جسے جسٹس گنگوپادھیائے نے نظر انداز کر دیا۔ جسٹس گنگوپادھیائے سے متعلق معاملات میں سپریم کورٹ کی یہ پہلی مداخلت نہیں تھی۔
گزشتہ سال اپریل میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ستمبر 2022 میں ابھیجیت گنگوپادھیائے کے ایک بنگالی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو کے سلسلے میں کہا تھا کہ "ججوں کو ایسے معاملات پر انٹرویو نہیں دینا چاہیے جو زیر التوا ہیں”۔ٹی ایم سی ممبر پارلیمنٹ اور چیف منسٹر بنگال ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ جسٹس گنگوپادھیائے نے انٹرویو میں ان کے لیے "ناپسندیدگی” ظاہر کی تھی۔
روایتی طور پر ججوں کو انصاف کے محافظ، غیر جانب دار اور ایسی غیر سیاسی شخصیات کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو آئین و قانون کی تعبیر و تشریح کرتے ہیں اور اس کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ لیکن جسٹس گنگوپادھیائے کا عدلیہ سے سیاست میں داخلے کا فیصلہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں عدالتی شخصیات کے کردار کے بارے میں کئی سوالات پیدا کر دیتا ہے۔
سیاست میں ابھیجیت گنگوپادھیائے کے داخلے سے متعلق سب سے بنیادی خدشہ عدلیہ اور سیاست کے درمیان جو روایتی علیحدگی ہے اس کا خاتمہ ہے۔ عدلیہ جمہوریت کا ایک علیحدہ اور آزاد ستون ہے جو کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگیوں سے متاثر ہوئے بغیر انصاف کو یقینی بناتا ہے۔ عدالتی اختیارات کے مقام پر رہ کر ان مقامات سے رابطہ رکھنا جہاں سیاسی جانب داریاں پائی جاتی ہیں، عوام میں عدلیہ کے تقدس کے بارے میں خدشات پیدا کر دیتا ہے۔
جسٹس گنگوپادھیائے کا یوں سیاست میں شامل ہونے کا فیصلہ لازماً بہت سارے اخلاقی سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ ججوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غیر جانب داری کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھیں گے اور ان کے فیصلے کسی بھی بیرونی اثرات سے پاک ہوں گے۔ سیاسی میدان میں اس طرح داخل ہونے سے عوام میں ان کی جانب سے ماضی میں کیے گئے فیصلوں کی سالمیت سے سمجھوتہ کرنے کا شبہ اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح ہو جانے کا خطرہ ہے۔ ان کے ماضی کے فیصلوں کے ساتھ ان کے سیاسی نظریات کی ممکنہ صف بندی پر غور کیا جائے تو یہ اخلاقی سوال اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔
عدلیہ کی آزادی جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ جج سیاسی دباؤ اور مداخلت سے آزاد ہوں۔ لیکن ابھیجیت گنگوپادھیائے کا سیاست میں اس طرح سے داخلہ اس آزادی کو کمزور کر سکتا ہے، کیونکہ ان کے فیصلوں کے پس پشت موجود محرکات کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات ایک غلط نظیر قائم کر دیں گے جس سے دوسرے ججوں کو بھی اس کی پیروی کرنے کی ترغیب ملے گی اور یہ صورت حال ایک غیر جانب دار اور آزاد عدلیہ کے تانے بانے کو بری طرح نقصان پہنچا سکتی ہے۔
عدلیہ کے بارے میں عوام کا تاثر اور یقین ہے کہ یہ سماجی ہم آہنگی اور ملک کے نظامِ قانون پر عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ابھیجیت گنگوپادھیائے کی سیاسی چھلانگ ان کے دور میں کیے گئے عدالتی فیصلوں اور ان فیصلوں کے منصفانہ ہونے کے متعلق عوام الناس میں شکوک و شبہات کا باعث بن سکتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کے بعد عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ عوام اس اقدام کے پیچھے محرکات اور اس کے ممکنہ اثرات پر سوالات اٹھانے لگتے ہیں۔
ابھیجیت گنگوپادھیائے کا اس طرح سے سیاست میں داخلہ عدالتی شخصیات سے وابستہ روایتی توقعات کے ٹوٹ جانے کا بھی سبب بنے گا۔ اگرچہ سبھی سرکاری ملازمین کو سبک دوشی کے بعد اپنا سیاسی کیریئر بنانے کا حق حاصل ہے لیکن اس پورے عمل میں عدلیہ کی آزادی، اخلاقی تحفظات اور عوام کے اعتماد پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ جب اس مقام پر فائز لوگ قانون اور سیاست کے اس دوراہے پر ہوتے ہیں تو انہیں اپنے ملک کے جمہوری اداروں کی سالمیت کو یقینی بنانے کے اہم ہدف کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔