شمال اور جنوب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج

قومی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود جنوب کی ریاستوں میں احساس محرومی!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

2026 کی مجوزہ حد بندی سے جنوبی ہند کو قومی سیاست میں بے اثر ہوجانے کا اندیشہ
جارحانہ ہندتو اور ہندی کو مسلط کرنے کی کوششوں سے علیحدہ لسانی و ثقافتی شناخت رکھنے والی ریاستوں کو خطرات!
شمال و جنوب کے درمیان امتیاز ختم کرنے کے لیے مالیاتی ڈھانچے میں اصلاح اور قومی حکومت کے غلبے کو کم کرنے کی ضرورت
جنوب اور شمال کی درمیان تقسیم کی لکیریں آخر گہری کیوں ہوتی جارہی ہیں ؟ لوک سبھا انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہے یہ بحث بھی تیز ہورہی کہ اس تقسیم کے کیا نتائج برآمد ہوں گے ؟۔مرکزی بجٹ اجلاس کے دوران کرناٹک ، کیرالا اور تمل ناڈو کی حکم راں جماعت کے لیڈروں نے ناانصافی اور مرکز کی جانب سے محروم کیے جانے پرسخت احتجاج کیا ہے ۔
یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بی جے پی حکومت کا رویہ جنوبی ہندکی ریاستوں کے ساتھ سوتیلا ہے۔آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی نے اگرچہ اس سوال پر خاموشی اختیار کی اور بی جے پی کے دوست ہونے کا تاثر دیتے رہے تاہم بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے لیے بے تاب و بے چین چندرا بابو نائیڈو بھی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے آندھرا کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت لے کر دلی میں مودی حکومت کے خلاف ماضی میں احتجاج کرچکے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی ایک چوتھائی سے کم آبادی پر مشتمل جنوب کی پانچ ریاستوں میں مرکزی حکومت کے تئیں ناراضگی کی وجہ صرف حقوق سے محرومی ہے یا پھراس کے پس منظر میں کچھ اور عوامل بھی ہیں جس کی وجہ سے شمال اورجنوب کے درمیان تقسیم کی لکیریں گہری ہوئی ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ 400 پار کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی اور ان کی پارٹی جنوبی ہند میں اپنے موجودگی کو ثابت کرنے کے لیے جد و جہد کیوں کررہی ہے؟پوری دنیا میں مقبول ہونے کے زعم میں مبتلا وزیراعظم مودی ان ریاستوں میں غیر مقبول کیوں ہیں؟گزشتہ چند مہینوں میں وزیر اعظم نریندر مودی 17مرتبہ جنوبی ہند کا دورہ کرچکے ہیں۔انہوں مختلف مندروں میں پوجا بھی کی ہے اس کے باوجود ان ریاستوں میں بی جے پی اپنی کامیابی کے بارے میں پر اعتماد نظر نہیں آتی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں جنوبی ہند کی 130سیٹوں میں سے بی جے پی نے 29سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس میں سے 25سیٹیں کرناٹک سے جیتی گئی تھیں۔جب کہ تین سیٹیں تلنگانہ سےحاصل ہوئی تھیں۔ تاہم گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں اس وقت کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ایک سال میں ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایسے میں یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ جنوبی ہند کی ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی سیٹوں میں اضافہ ہونے کے بجائےکمی ہی ہوگی۔جہاں تک سوال کیرالا، تمل ناڈو اور آندھر پردیش کا ہے تو کہتے ہیں کہ دلی ہنوز  دور است ۔
ویسے ہرانتخاب کے نتائج ملک کے مستقبل پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ایک نئی سمت عطا کرتے ہیں تاہم 2024کا قومی انتخاب جس ماحول اور جن نعروں کی گھن گرج میں منعقد ہورہا ہے اور حکم راں جماعت بی جے پی جو طریقے اور حربے آزمارہی ہے اس کی وجہ سے بے شمار اندیشے اور خدشات جنم لے رہے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اندیشہ ہے کہ اگر بی جے پی تیسری مرتبہ پوری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے تو یہ آخری جمہوری انتخاب بھی ہوسکتے ہیں ۔اس کے بعدملک میں آزادانہ انتخاب ایک خواب رہ جائے گا بلکہ دو پڑوسی ریاستوں بنگلہ دیش اور پاکستان کی طرح بھارت میں بھی انتخاب کے نام پر ڈھونگ رچاجائے گا۔ان دونوں ملکوں میں حکومت کی ساری مشنریاں اپنے من پسند لیڈر اور سیاسی جماعت کو کامیاب کرانے کے لیے کام کرتی ہیں اور انتخابات کے نتائج پہلے ہی معلوم ہوتے ہیں۔یہ الگ بحث ہے کہ کیا بھارت جیسے کثیر آبادی والے ملک میں یہ ممکن ہے؟ جمہوریت ڈکٹیرشپ میں آسانی سے تبدیل ہوجائے گی؟تاہم اگر یہ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں تو اس کے کچھ عوامل بھی ہیں جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔الیکشن کمیشن سمیت ملک کی دیگر جمہوری اداروں کی بتدریج آزادی اور خودمختاری ختم ہوتی جارہی ہے۔ان اداروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔مضبوط جمہوریت کے لیے آزاد اور خود مختار ادارے بشمول عدلیہ کا موجود ہونا ضروری ہے۔اسی طرح جنوبی ہند میں حکومت اور عوامی سطح پر مرکز کے تئیں جو ناراضگی ، عدم تحفظ اور محرومی کے جو احساسات پائے جاتے ہیں وہ کوئی مفروضے اور شک و شبہ کی بنیاد پر نہیں ہیں
بلکہ گزشتہ دس سالوں میں مودی حکومت کی طرز حکم رانی ، وفاقی ڈھانچے کے اقدار کی پامالی بالخصوص گورنر کے ذریعہ ریاست کی خود مختاری اور کام کاج میں دخل اندازی اور رخنہ ڈالنے کی کوشش اور پھر مرکزی ایجنسیوں کے ذریعہ ریاستی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں نے جنوبی ہند میں مرکز کے تئیں بے چینی اور احساس محرومی میں اضافہ کردیا ہے۔دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کی وجہ سے پیدا ہونے والے احساس محرومی کے ازالے کے لیے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ کئی اور بھی عوامل ہیں جس کی وجہ سے جنوبی ہندمیں یہ احساس عام ہوتا جارہا ہے کہ ملک کی اقتصادیات میں اہم رول ادا کرنے کے باوجود انہیں حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے 2014کا پارلیمانی انتخاب بدعنوانی، اقربا پروری کے خاتمے، گڈ گورننس اور سب کاساتھ سب کا وکاس کے نعرے کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی۔2019کے انتخابات سے عین قبل پلوامہ میں بی ایس ایف کے قافلے پر دہشت گردانہ حملہ اور پھر اس کے بعد پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ملک کی قومی سلامتی کے نام پر لڑاگیا اور ملک کے عوام کو یقین دلانے میں وہ کامیاب رہے کہ ملک ان کے ہاتھ میں محفوظ ہے ۔گزشتہ دس سالوں میں مودی نے کئی ترقیاتی کام کیے ہیں بالخصوص سڑکوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی ہے مگر اپنے ترقیاتی کاموں پر زیادہ فوکس دینے کے بجائے 2024کے انتخاب میں ہندتو کے نظریہ ، اجودھیا میں رام مندر کے ادگھاٹن اور کشمیر کے خصوصی اختیارات کے خاتمے جیسے جذبانی نعروں کی گونچ ہے۔بی جے پی یہ تاثر دے رہی ہے کہ ہندو قوم پرستی کی ثقافتی اور سیاسی بالادستی اس کور ایجنڈے میں شامل ہے۔ایک عام تاثر اور خود مودی نے اشارے بھی دیے ہیں وہ اپنی تیسری باری میں حیران کن فیصلے کریں گے۔ظاہر ہے کہ مضبوط معیشت کی بنیاد حیران کن فیصلوں سے نہیں بلکہ بہتر پالیسی، گڈ گورننس کی وجہ سے مستحکم ہوتی ہے ۔اس لیے یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ ملک کا آئین میں تبدیل کیا جائے گا۔کیا سیکولر نظام کی جگہ ہندو راشٹر قائم کیا جائے گا۔ ہندو راشٹر یا ہندتو کی اصطلاح جب بھی استعمال کیا جاتی ہے تو اس کے پیچھے مخصوص نظریات اور فکر شامل ہوتی ہے۔ ویدک دور میں طبقاتی نظام کی واپسی جس میں سارے نظام پر چند مخصوصی اعلیٰ برادری کوغلبہ حاصل ہوتا ہے یا پھر اسے آسان لفظوں میں کہا جائے کہ منوسمرتی کا نفاذ ہوگا۔اس میں اقلیت مخالف بالخصوص مسلم مخالف رجحان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔دوسری طرف ہندوؤں کے اعلیٰ ذاتوں کے غلبے کے خلاف جنوب میں جدو جہد کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔دراوڑین تحریک کے اثرات تمل ناڈو میں ہی نہیں بلکہ جنوب کی دیگر ریاستوں میں بھی ہیں۔سماجی انصاف کی وجہ سے ان ریاستوں میں دلت، قبائل اور بیک ورڈ کلاس کی بڑی تعداد مڈل کلاس کا حصہ بن چکے ہیں ۔بی جے پی کے اسی نظریہ کی وجہ سے ان ریاستوں میں خوف کی یہ لکیریں پائی جاتی ہیں کہ اگر بی جے پی کا غلبہ ہوجاتاہے تو ایک بار پھر سماجی مساوات ختم ہوجائے گی اور چند مخصوص طبقات کی اجارہ قائم ہوجائے گی۔چنانچہ اس وقت جنوب کی ریاستوں میں تین طرح کے اندیشے اور خوف پائے جاتے ہیں۔پہلا ملک کی ترقی اور اقتصادیات میں مضبوط حصہ داری کے باوجود وہ حقوق نہیں مل رہے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں ۔دوسرا اندیشہ ہے کہ اگر2026میں نئی حد بندی ہوتی ہے اور آبادی کے اعتبار سے سیٹوں کی تقسیم ہوتی ہے تو قومی سطح پر ان کی نمائندگی کم ہوجائے گی۔کیونکہ حالیہ دہائیوں میں کامیاب خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین میں بہتر تعلیم اور ورک فورسیس میں حصہ داری کی وجہ سے جنوبی ہند کی ریاستوں نے آبادی پر کنٹرول کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی سیٹیں کم ہوسکتی ہیں ۔تیسرا خوف تہذیب و ثقافت اور اپنی شناخت کی حفاظت کا ہے۔
ملک کی اقتصادی ترقی میں جنوب ہند کی حصہ داری
فی کس آمدنی، ریاستی قرض، ٹیکس محصول، سود کی ادائیگی کے تناسب کے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے تجزیے کے مطابق، جنوبی ہند کی پانچ ریاستیں تمل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کیرالا اور کرناٹک ملک کی مضبوط ترین معیشت ہیں۔ میڈیا نیٹ ورکس کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جنوب کی یہ پانچ ریاستیں ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم شراکت داروں میں شامل ہیں۔ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 30 فیصد سے زیادہ حصہ رکھتی ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) سے دستیاب اعداد و شمار اور ان ریاستوں کے معاشی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 23 میں تمل ناڈو، موجودہ قیمتوں پر 24.8 لاکھ کروڑ روپے کے جی ایس ڈی پی کے ساتھ سب سے بڑی معیشت ہے۔کرناٹک (22.4لاکھ کروڑ روپے) تلنگانہ (13.3لاکھ کروڑ روپے) آندھرا پردیش (13.2لاکھ کروڑ روپے) اور کیرالا (10 لاکھ کروڑ روپے)کے ساتھ ملک کی مضبوط معیشت میں شامل ہیں۔ نتیجے کے طور پر جنوب میں معیار زندگی شمال سے بالکل الگ ہے۔ ہندوستان کی تقریباً 20فیصد آبادی پانچ جنوبی ریاستوں میں رہتی ہے، جب کہ 26فیصدآبادی شمال کی صرف دو غریب ترین ریاستوں، اتر پردیش (یا اوپر) اور بہار میں رہتی ہے۔ ان دو مقامات کے مقابلے میں، جنوب میں جی ڈی پی فی کس 4.2گنا زیادہ ہے، جب کہ بچوں کی اموات کی شرح نصف سے بھی کم ہے۔ جنوب میں 15 سے 49 سال کی خواتین کی اوسط خواندگی کی شرح ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اوسطاً 86فیصد اور بہار میں اوسط 70 فیصد ہے۔ بنگلورو اور حیدرآباد، کرناٹک اور تلنگانہ کے صدر مقامات ہیں جہاں بھارت کی زیادہ تر معروف ٹیک کمپنیوں کے ساتھ ساتھ امیزون اور مائیکروسافٹ جیسی عالمی کمپنیاں بھی ہیں۔ ہندوستان کے تقریباً 46فیصد تکنیکی یونیکورنز کا تعلق جنوب سے ہے، جب کہ اس کی خدمات کی صنعت کی 66فیصد برآمدات وہیں سے آتی ہیں۔ بھارت میں ایپل کے 14 سپلائرز میں سے 11 جنوب میں ہیں۔چنئی کے ساتھ بنگلورو اور حیدرآباد بھی غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بڑی منزلیں ہیں جو گھر واپسی کی لاگت کے ایک حصے کے لیے اندرون خانہ بیک آفس خدمات فراہم کرنے کے لیے عالمی صلاحیت کے مراکز قائم کرتی ہیں۔ ان میں سے جو حال ہی میں قائم کیے گئے تھے، 79فیصد جنوب میں تھے۔ ملک کی مکمل طور پر 16فیصد فیکٹریاں تمل ناڈو میں ہیں، جو اسے مینوفیکچرنگ کا مرکز بناتی ہیں ۔
کرناٹک کی ریاست نئی دہلی سے حاصل ہونے والے ہر روپے کے بدلے مرکزی ٹیکسوں میں2 .12روپے کا حصہ ڈالتی ہے۔ اس کے برعکس اتر پردیش جو ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اسے حاصل ہونے والے ہر روپے کے بدلے قومی خزانے میں صرف 0.56روپے کا حصہ ڈالتا ہے۔ واضح طور پرجنوب کی ریاستوں کی آمدنی سے ملک کی دیگر آبادی کو سبسیڈی دیا جاتا ہے۔ان ریاستوں کی شکایت یہی ہے کہ ان سے جی ایس ٹی اور دیگر ڈائرکٹ ٹیکس سے جو مرکز کو آمدنی ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے اس کی حصہ داری دی جائے۔ 2017 میں قومی سامان اور خدمات ٹیکس(جی ایس ٹی) متعارف کرایا گیا تھا۔ جنوبی ہند کی سیاسی قیادت کی شکایت ہے کہ وہ مرکزی حکومت سے اپنے ٹیکس شراکت کا صرف ایک حصہ واپس پاتے ہیں۔آبادی کے سائز کی بنیاد پر ریاستوں کے درمیان ٹیکس محصولات کی تقسیم کی پالیسی نے جنوبی ہند کو کامیاب خاندانی منصوبہ بندی کی سزا دی جارہی ہے۔جنوبی ریاست میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی آمدنی سے شمالی بھارت کے ریاست کے عوام کو سبسیڈی اور دیگر مراعات فراہم کی جاتی ہیں اور انہیں اس حاصل ہونے والی آمدنی میں حصہ داری نہیں مل رہی ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ جن ریاستوں کو زیادہ سبسیڈی مل رہی ہے ان میں سے بیشتر پر بی جے پی کی حکم رانی ہے۔چنانچہ جنوب میں شمال ہند کے شہریوں کو دیکھنے اور سمجھنےکا نظریہ الگ سا ہے۔اگرچہ مہاراشٹر کی طرح جنوب ہند میں بہاری اور اترپردیش کے رہنے والوں کے خلاف نفرت انگیز مہم نہیں چلائی گئی ہے مگرانہیں دیکھنے کا نظریہ بالکل الگ ہے۔
جنوب کی ریاستوں کو قومی سطح پر نمائندگی سے محروم ہونے کا اندیشہ
2026 میں پارلیمانی حلقوں کی طویل عرصے سے زیر التوا حد بندی ہونے والی ہے۔ انتخابی حدود پر نظر ثانی کے ساتھ شمال اور جنوب کا تنازع مزید بڑھ سکتا ہے۔ ’’حد بندی‘‘ کے نام سے جانا جانے والے اس عمل سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی نشستیں 543 سے بڑھ کر 753 تک پہنچ سکتی ہیں، اس میں زیادہ تر نئی نشستیں شمال میں جائیں گی۔ کرناٹک ممکنہ طور پر ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اپنی 7 فیصد نشستیں کھو دے گی، جب کہ اتر پردیش کو 14 فیصد کا فائدہ ہوگا۔ دیگر جنوبی ریاستیں جیسے تمل ناڈو، کیرالا، تلنگانہ اور آندھرا پردیش بھی 2026 کی حد بندی میں نمائندگی کم ہوجائے گی۔اس کا مطلب واضح ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کو ملنے والی سبسیڈی فراہم کرنے والی ریاستیں اپنی سیاسی طاقت کھودے گی۔ان ریاستوں میں یہ بے چینی ہے کہ کیا قومی سطح پر ان کا کم ہونے والا اثر منصفانہ ہے؟ جنوبی ہند کی آبادی میں اضافے کی رفتار کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ریاستوں نے 1947 میں آزادی کے بعد سے خواتین کی خواندگی اور خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات کو بہتر طریقے سے نافذ کیا ہے۔ ان ریاستوں کو لگتا ہے کہ ان کے ترقیاتی اہداف میں کامیابی کے بدلے انہیں انعام کے بجائے سزا دی جا رہی ہے۔ نہ صرف جنوبی ہندوستان، بلکہ کچھ مشرقی ریاستیں، جیسے اڈیشہ اور مغربی بنگال، اور یہاں تک کہ شمالی ریاستیں جیسے ہماچل پردیش، پنجاب، اور اتر اکھنڈ بھی 2026 کی حد بندی میں قومی سیاسی طاقت سے محروم ہو جائیں گے۔ جن ریاستوں کی پارلیمانی نشستیں کم ہوں گی ان میں سے صرف 15فیصد سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں۔نئی حد بندی سے جن ریاستوں کو فائدہ ہوگا ان میں بی جے پی کا غلبہ ہے۔ان میں اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، ہریانہ، گجرات، دہلی اور چھتیس گڑھ شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں 56فیصد ممبران پارلیمنٹ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دہلی کے علاوہ بھگوا پارٹی ان تمام ریاستوں پر حکومت کرتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ان بے چینیوں کامرکزی حکومت کیا حل نکالتی ہے۔آبادی کے لحاظ سے نئی حدبندی میں پارلیمنٹ کی سیٹوں کا تعین ہوتا ہے تو یہ طے ہے کہ جنوبی ہند کے سیاسی اثر و رسوخ ختم ہوجائیں گے۔چنانچہ نئی حدبندی کے خلاف تمل ناڈو میں باضابطہ ریزولیوشن پاس کیا اور اس ریزولیوشن کی تمل ناڈو کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی حمایت کی ۔
ہندتو اور جنوبی ہند کی تہذیبی ثقافتی اور لسانی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ
شمال اور جنوب کی تقسیم ثقافتی اور لسانی بھی ہے۔آر ایس ایس اور بی جے پی ہندتو پر مرکوز قومی شناخت قائم کرنا چاہتی ہے ۔ان کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں اور برطانوی حملہ آوروں نے صدیوں ان کے ساتھ زیادتی کی اور ان کی مذہبی و ثقافتی شناخت کو نقصان پہنچایا ۔جب کہ جنوب میں مسلمانوں سے متعلق یہ خیالات نہیں ہیں۔ حالانکہ اسلام کی آمد سب سے پہلے جنوب کی ریاست میں ہی ہوئی اور پرامن انداز سے پورے خطے میں اسلام کی ترویج و ترقی ہوئی ۔ اس خطے میں سماجی سرگرمی کی ایک طویل تاریخ بھی ہے اس کا مقصد ہندو مت کو جدید بنانا اور مقامی شناخت کو فروغ دینا ہے۔اگر آج جنوب میں بی جے پی قدم نہیں جماسکی ہے تو اس کی وجہ تاریخی اور نظریاتی ہے۔ ہندو قوم پرستی، جو بی جے پی کا واضح نظریہ ہے مسلم مخالفت اس کا مرکزی نقطہ ہے۔آج اگر جنوبی ہند میں بی جے پی کی کچھ پوزیشن میں ہے تو اس کی وجہ گڈ گورننس اور فلاحی اسکیمیں نہیں ہیں بلکہ اس کا مرکز میں مسلم دشمنی رویہ ہے۔
میسور اور حیدرآباد میں مسلمانوں کی حکم رانی رہی ہے۔ 18ویں صدی کے میسور کے شہزادے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان، اور حیدرآباد کے نظام، خاص طور پر ساتویں نظام (1911-48) کو ہندو مخالف ثابت کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوچکی ہیں ۔جبکہ شمالی بھارت کے مسلم حکم رانوں بالخصوص مغل حکم رانوں کے خلاف اپنے بیانیہ کو ثابت کرنے میں انہیں کامیابی ملی ہے۔ پیشہ ور مورخین ٹیپو سلطان کو اورنگ زیب سے تشبیہ دینے سے قاصر ہیں، وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح حیدرآباد کے ساتویں نظام کو مسلم حکم رانی سے زیادہ خاندانی حکم رانی میں دل چسپی تھی۔حیدرآباد نظام کے الحاق اور حکومت کی کارروائی کا نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا تھا بلکہ مورخین اور سیاسی پنڈت اس بات پر متفق ہیں کہ آزاد بھارت کی پہلی حکومت مسلمانوں کے سرکاری قتل عام جیسے گھناؤنے جرم سے بچ سکتی تھی۔تاہم ہندو قوم پرستوں کو تلنگانہ اور کرناٹک میں نظریاتی طور پر دل چسپی رکھنے کے لیے کافی تاریخی ٹکڑے دستیاب ہیں۔ لیکن تمل ناڈو، کیرالا اور آندھرا پردیش میں ایسا کوئی تاریخی الزام نہیں ہے۔ہندو قوم پرستی کی دوسری خصوصیت ہندی زبان کے ساتھ اس کی خصوصی دل چسپی ہے ۔اگرچہ آر ایس ایس نے 1980 کی دہائی میں ہندی کو واحد قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے کے اصرار کو ترک کردیا ہے ۔آر ایس ایس کے اسکولوں میں علاقائی زبان میں پڑھانا شروع کیا۔تاہم ہندو قوم پرستی کی جبلت میں غیر ہندی ریاستوں میں ہندی کا نفاذ شامل ہے۔ جنوبی ہند کے باشندوں کو اپنی زبان اور ورثے پر فخر ہے۔ان کی مذہبی شناخت میں ہندی اورہندو قوم پرستی کے رجحانات نہیں ہیں۔ ہندی کے نفاذکی کوششوں کے خلاف جنوبی ہند میں وقتاً فوقتاآوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں ۔1960میں دراوڑ تحریک اور 1965میں ہندی کو تھوپنے کی کوششوں کے خلاف1965میں مہلک فسادات ہوچکے ہیں ۔
سیاسی تجزیہ نگار کانچا الیا شیپرڈ نے دی فیڈرل ڈاٹ کام میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں جنوبی ہند کی ریاستی کی بہتر معیشت کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ جنوبی بھارت میں آج بہتر معیشت ہے، اس کی ایک بڑی وجہ سیکولر ثقافتی ماحول ہے۔آگے وہ لکھتے ہیں کہ فرقہ وارانہ سیاست ریاستوں کو مسلسل خوف اور عدم تحفظ کی حالت میں دھکیل دیتی ہے اور مسابقتی توہمات کو بھی فروغ دیتی ہے۔ایسے ماحول میں سیول سوسائٹی کے درمیان ترقیاتی موضوعات کم ہوجاتے ہیں ۔تعلیمی ادارے اور میڈیا سائنسی مزاج کو فروغ دینے کے بجائے فرقہ واریت پر مبنی کہانیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔بہتر معیشت کے لیے سائنسی مزاج کا ہونا ضروری ہے‘‘۔جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہندتو نظریہ کے تئیں یہ خوف موجود ہے کہ اگر شمالی ہند کی طرح ان کے یہاں بھی سیکولر ثقافتی ماحول ختم ہوجاتا ہے اور فرقہ واریت رائج ہوتی ہے توملٹی نیشنل کمپنیوں کا جو رخ ان کی طرف ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ جنوری کے اواخر میں، بنگلورو میں سیول سوسائٹی کے کئی اراکین جنہوں نے ’’جاگو کرناٹکا ‘‘ مہم کے تحت بی جے پی حکومت کے خلاف مہم چلائی تھی، مجھے ان سے ملاقات کرنے اور ان کے انٹرویوز کرنے کا موقع ملا۔ 2022 میں شمالی ہند کی ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز مہم میں اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔بی جے پی حکومت بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہی تھی۔غیر ضروری طور پر حجاب کے مسئلے کو طول دیا گیا ۔ان حالات میں ’’جاگو کرناٹکا‘‘کی تشکیل ہوئی اورمائیکرو سطح پر جاگو کرناٹکا سے وابستہ سیول سوسائٹی کے اداروں نےکرناٹک کلچر کی حفاظت کے لیے مہم چلائی تھی۔اگر مئی 2023 میں نریندر مودی کی زور دار مہم کے باوجود اگر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو اس میں یقیناً ’’جاگو کرناٹکا‘‘ کا اہم رول تھا۔بنگلورو میں مقیم مشہور صحافی مقبول سراج نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنوب ہند میں فرقہ واریت کی شدت وہ نہیں ہے جو شمالی ہند میں ہے، یہاں کے بی جے پی لیڈر شمالی ہند کے لیڈروں کے دباؤ میں آکر فرقہ وارانہ بیانات دیتے ہیں ۔تاہم مقبول سراج ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جنوب ہند کی ریاستوں کی معیشت میں مسلمانوں کا کردار کافی اہم ہے۔بنگلورو میں واقع بیشتر سوپر مارکیٹوں کے مالکین تمل مسلمان ہیں۔جب آپ معیشت میں کردار ادا کرتے ہیں تو آپ کے خلاف کوئی فرقہ وارانہ آواز زیادہ دنوں تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔
شمال اور جنوب کی تقسیم کی لکیریں کیسے مٹیں گی؟
شمال اورجنوب کے درمیان تقسیم اتنی آسانی سے نہیں مٹ نہیں سکتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان اقتصادی اور آبادی کے تفاوت کو ختم کرنے کی مشترکہ کوششیں کی جائیں ۔ ملک کے مضبوط سیاسی ڈھانچے کا مستقبل اس مسئلے کو حل کیے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔ ماہر معاشیات وماہر تعلیم سبھاشیش بھدرا بتاتے ہیں کہ جنوب اور شمال کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کوملک کے مالیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرکے قومی حکومت کے زبردست غلبے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ٹیکس ریونیو کا تقریباً دو تہائی حصہ نئی دہلی میں قومی حکومت کو جاتا ہے حالانکہ یہ قومی اخراجات کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہے۔ اس کے بجائےریاستوں کو ٹیکس کی زیادہ آمدنی دینی چاہیے کیوں کہ ریاستیں ہی آمدنی پیدا کرتی ہیں ۔اس کے بعد ہی مرکزی حکومت کی جانب سے مختلف ریاستوں کو ٹیکس محصولات مختص کرنے سے ناانصافی کا احساس کم ہوگا۔ سبھاشیش بھدرا بتاتے ہیں کہ یہ اصلاحات مالیاتی فیصلہ سازی کو حکومت کے نچلے درجے تک لے جائیں گی اور اس طرح کی مالی منتقلی سے سماجی نتائج میں بہتری آنے کا امکان ہے کیونکہ ریاستی حکومتیں ساختی طور پر ووٹر کی ترجیحات کے لیے زیادہ جواب دہ ہیں۔ سبھاشیش بھدرا آگے کہتے ہیں کہ آزادی کے وقت ملک کی قیادت قومی یکجہتی کے بارے میں مطمئن نہیں تھی۔ تقسیم اور آزادی یہ دونوں واقعات 1947 میں ایک ساتھ وقوع پذیر ہوئے۔ بھارت کے تنوع کے ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا اس لیے اس وقت کی سیاسی قیادت نے مضبوط قومی حکومت کے قیام پر توجہ دی۔ ابتدائی طور پر اس حکومت نے سوشلزم کا انتخاب کیا، لائسنس-پرمٹ-کوٹہ راج کی وجہ سے معیشت کی رفتار سست ہوگئی تھی۔تاہم 1991 میں لبرلائزیشن کی شروعات کی بدولت معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی اور اب بھارت کو ایک مسابقتی وفاقیت کی ضرورت ہے جو ترقی کی اگلی لہر کو آگے بڑھا سکے۔ ریاستی حکومتوں کی زیادہ مالی طاقت 2026 کی حد بندی پر شمال اور جنوب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی ، ترقی کو فروغ ملے گا اور قومی یکجہتی مضبوط ہوگی۔

 

***

 شمال اورجنوب کے درمیان تقسیم اتنی آسانی سے نہیں مٹ نہیں سکتی ۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس بحران پرقابونہیں پایاجاسکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان اقتصادی اور آبادی کے تفاوت کو ختم کرنے کی مشترکہ کوششیں کی جائیں ۔ ملک کے مضبوط سیاسی ڈھانچے کا مستقبل اس مسئلے کو حل کئے بغیر روشن نہیں ہوسکتا۔ ماہرمعاشیات و ماہر تعلیم سبھاشیش بھدرا کا کہنا ہے کہ ریاستوں کو ٹیکس کی زیادہ آمدنی دینی چاہیے کیوں کہ وہی آمدنی پیدا کرتی ہیں۔ آزادی کے وقت ملک کی قیادت قومی یکجہتی کے بارے میں مطمئن نہیں تھی۔ تقسیم اورآزادی یہ دونوں واقعات چونکہ1947 میں ایک ساتھ وقوع پذیر ہوئے تھے، بھارت کے تنوع کے ٹوٹ پھوٹ کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا لہذا اس وقت کی سیاسی قیادت نے مضبوط قومی حکومت کے قیام پر توجہ دی ۔ ابتدائی طور پراس حکومت نے سوشلزم کا انتخاب کیا، لائسنس-پرمٹ-کوٹہ راج کی وجہ سے معیشت کی رفتار سست ہوگئی تھی۔تاہم 1991 میں لبرلائزیشن کی شروعات کی بدولت معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی اور اب بھارت کو ایک مسابقتی وفاقیت کی ضرورت ہے جو ترقی کی اگلی لہر کو آگے بڑھا سکے۔ ریاستی حکومتوں کی زیادہ مالی طاقت 2026 کی حد بندی پر شمال اور جنوب کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ہوگی ، ترقی کو فروغ ملے گا اور قومی یکجہتی بڑھے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024