خبرونظر

پرواز رحمانی

حکمراں پارٹی کی پالیسی
2014میں برسر اقتدار آنے کے بعد اس سیاسی گروہ نے مسلم شہریوں اور کمزور طبقات کے خلاف جو پالیسی اپنائی وغیرمتوقع نہیں تھی۔باخبر لوگ جانتے تھے کہ اس پارٹی کی جڑ اور بنیاد یہی ہے۔ اس کے پاس ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی تعمیری پروگرام سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کے نظریات میں عام لوگوں کی ترقی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہذا اس نے آتے ہی مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ شہریوں کو مختلف طریقوں سے مارنا شروع کردیا۔ مارنے کے علاوہ انہیں مختلف حربوں سے ہراساں کرنا ، ان پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنا اور سکون کے ساتھ رہنے نہ دینا اس پارٹی کا منجھا ہوا حربہ ہے۔ تازہ مثال بلقیس بانو کے زانیوں اور قاتلوں کی سرکاری رہائی کی ہے۔ یہ رہائی کسی عدالت کے حکم پر نہیں بلکہ ریاستی حکومت کے حکم پر ہوئی ہے۔ یعنی فیصلہ مکمل سیاسی ہے۔ اسی لیے تمام شریف شہری اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ لیکن حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں، وہ اپنے منصوبوں پر عمل کیے جارہی ہے۔ یہ پالیسی اس نے اپنی ضرورت کے تحت اختیار کی ہے جس پارٹی یا انسانی گروہ کے پاس کوئی تعمیری منصوبہ نہیں ہوتا اسے ایک فرضی یا خیالی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بلقیس بانو کے زانیو ں اور اس کے عزیزوں کے قاتلوں کو باضابطہ عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

آج کا گجرات
گجرات کی حکومت نے 11قاتلوں اور زانیوں کو ایک نئے قانون کے تحت رہا کیا ہے۔ یہ قانون خود ریاستی سرکار نے بنایا ہے کہ اگر کوئی عمر قید یافتہ حکومت سے درخواست کرے تو اسے رہا کیا جاسکتا ہے۔ ریاستی سرکار نے 15اگست کو عین اس وقت ان کی رہائی کا حکم دیا جب وزیراعظم لال قلعہ کی تاریخی فصیل سے عورتوں اور بیٹیوں کو سماج میں عزت و احترام دینے کی اپیل کررہے تھے۔ دلی میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے والے کئی گروپوں نے کہا ہے کہ قاتلوں اورزانیوں کی رہائی وزیراعظم کی اپیل کے خلاف ہے۔ کئی ایک نے گجرات سرکار کے قانون ہی کو خلاف قانون قرار دیا ہے۔ ان مجرموں کو رہا کرتے وقت گجرات سرکار کو ان قیدیوں کا ذرا خیال نہ آیا جو جرم بے گناہی میں قید ہیں۔ ویسے بھی ریاست گجرات اصل مجرموں کو چھوڑنے اور بے گناہوں کو پکڑنے میں کافی بدنام ہوگئی ہے اور حکمرا ں پارٹی کے لوگ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ یہ ان گاندھی جی کی پیدائشی ریاست ہے جو امن پسندی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہیںلیکن آج کے گجراتی گاندھی جی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آج کے گجراتیوں کا ایک نعرہ یہ بھی ہے ’’یہ سردار پٹیل کا گجرا ت ہے، گاندھی کا نہیں‘‘۔ گجرات کو ہندتو کی تجربہ گاہ تو کچھ لوگ بہت عرصے سے کہہ رہے ہیں۔

مسلم جماعتیں؟
قاتلوں اور زانیوں کی رہائی کے اس تازہ واقعہ کے بعد ان شہریوں کو جو جبر و تشد، قتل و غارت گری، سماجی نفرت اور معاشی بدعنوانی سے پریشان ہیں۔ ایک بار پھر غور کرنا چاہیے کہ اس بگاڑکا علاج کیا ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسی تو سب پر عیاں ہے کہ وہ ملک اور عام شہریوں کےلیے کوئی تعمیری منصوبہ نہیں رکھتی۔ وہ صرف کچھ مخصوص ذاتوں اور مالداروں کے لیے کام کرتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے پاس بھی اس کے تدارک کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اگر کسی پارٹی کے پاس ہوتا تو وہ پوری طاقت کے ساتھ اٹھتی۔ یہ نہیں کہ مخالف پارٹیاں حکومت کے اعمال اور اقدامات کے خلاف نہیں ہیں، ضرور ہیں، سبھی پارٹیاں انہیں پسند نہیں کرتیں۔ اگر وہ متحد ہوکر حرکت کریں توکام زیادہ مشکل نہیں لیکن ان میں لیڈر شپ کا مسئلہ ہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ کم از کم اس کام کے لیے مسلم جماعتیں اپنا ایک مضبوط اتحاد قائم کرلیں۔ جمعیت العلما ، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل، مجلس اتحاد المسلمین اگر چاہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ لیکن انہیں انتخابی سیاست سے دور رہنا ہوگا۔ مجلس اتحاد المسلمین کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ انتخابی سیاست کی وجہ سے مجلس پھیل ضرور گئی ہے لیکن بحیثیت مجموعی اسے نقصان پہنچا۔ اگر وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر ان مسائل پر رائے عامہ ہموار کرے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  28 اگست تا 3 ستمبر 2022