خبرونظر

پرواز رحمانی

کرناٹک کے بعد
ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے تذکرے تقریباً ایک سال سے گرم تھے۔ حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس کے لیے یہ الیکشن اس لیے اہم تھے کہ دونوں کا مستقبل انہی کے نتائج پر منحصر تھا۔ بی جے پی ابتدا میں کہہ رہی تھی کہ یہ الیکشن وہ خالصتاً لوگوں کے مسائل اور مشکلات کی بنیاد پر لڑے گی، غیر ضروری مسائل نہیں آئیں گے اور نہ اشتعال انگیزی نہیں کی جائے گی۔ کانگریس کرناٹک میں حکومت کرتی رہی ہے لیکن اس بار اس کے لیے پورے ملک میں حالات بہت سنگین تھے اور بی جے پی کے مقابلے میں کرناٹک کے انتخابات جیتنا اس کے لیے ضروری ہو گیا تھا۔ اس لیے دونوں پارٹیوں کا پوری قوت کے ساتھ میدان میں اترنا نہایت ضروری تھا اور وہ اتریں۔ راہل گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا میں سب سے زیادہ وقت یہیں دیا تھا۔ ابتدا سے ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی کے لیے کرناٹک کے عوام کا سامنا کرنا بہت مشکل ہے، اس لیے اس نے حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے ایجنڈے سے دستبردار ہو کر ہندوتوا کا اپنا آزمودہ ایجنڈا اختیار کرلیا۔ حجاب، حلال اور ٹیپو سلطان پر ماحول پہلے سے ہی گرم تھا، پارٹی نے کچھ نئے مسائل بھی اس میں جوڑ دیے۔ بجرنگ دل جیسے کچھ ایشوز کانگریس نے بھی اسے تھما دیے۔ اس طرح گہما گہمی تو خوب رہی لیکن مبصرین آخر تک بھی کانگریس ہی کو بالا دست بتاتے رہے۔

کس پارٹی نے کیا کیا
ایک بنیادی حقیقت کرناٹک کی انتخابی مہم سے یہ بھی واضح ہوگئی کہ انتخابی سیاست میں زندہ رہنے کے لیے بی جے پی (آر ایس ایس) کے پاس شہریوں کے مابین نفرت ڈالنے اور دنگا و فساد کروانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ 98 سالوں میں اس نے یہ تجربہ بارہا کرلیا ہے۔ کرناٹک کی انتخابی مہم میں کانگریس کی لیڈر پرینکا گاندھی نے یہ چیلنج دیا کہ ’’بی جے پی عوامی مسائل پر کوئی ایک الیکشن لڑ کر تو دکھائے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ بی جے پی یعنی آر ایس ایس نے موجودہ حالات میں تو کیا ماضی میں بھی مثبت مسائل پر انتخابات میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ 1977 میں کانگریس اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہاری تھی۔ کرناٹک کے ان انتخابات نے یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار کردی کہ بی جے پی کی جھولی میں منفی ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی خوشحالی جیسا کوئی ایجنڈا اس کے پاس بالکل نہیں ہے اور نہ پہلے کبھی رہا۔ وہ تحریک آزادی کے بھی خلاف تھی یعنی انگریزوں کے ساتھ تھی جیسا کہ بنکم چٹرجی نے اپنے ناول آنند مٹھ میں لکھا ہے۔ انگریزی حکومت کی خدمت کو وہ بہت بڑی بات سمجھتی تھی۔ رسد رسانی کے بڑے بڑے ٹھیکے اسی کے لوگوں کے پاس تھے۔

اب آئندہ کیا ہوگا
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ 1925 میں قائم ہوئی تھی۔ ابتدا سے اس کا مقصد ورن ویوستھا کی بنیاد پر ہندووں کو متحد اور مضبوط کرنا تھا، بعد میں انگریزی راج ختم ہوا تو اسے سیاست کا خیال آیا تاکہ حکومت پر قبضہ کرکے اپنا مقصد حاصل کر سکے، حالانکہ آزادی کی جنگ میں اس کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ اس نے 1952 میں بھارتیہ جن سنگھ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنائی اور انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1990 کی دہائی میں اسے کچھ کامیابی ملی اور اٹل بہاری باجپئی اس کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ مگر ان کی حکومت کوئی مضبوط حکومت نہیں تھی۔ حالات کا اتار چڑھاو جاری رہا۔ 2014 میں اس کی پہلی مضبوط حکومت قائم ہوئی۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے پہلے ہی دن سے ملک کا سیاسی، سماجی اور آئینی نقشہ بدلنا شروع کردیا۔ ملک کو مضبوط اور عوام کو خوشحال بنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اب یہ پارٹی آئندہ کیا کرے گی؟ کرناٹک کی انتخابی مہم سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ملک کی مضبوطی اور عوام کی خوشحالی کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کی سیاست صرف اقلیتوں اور نچلے طبقات کو کمزور کرنے کے ایجنڈے پر قائم ہے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ وہ 2024 کے عام انتخابات میں بھی یہی کام کرے گی۔