خبر و نظر
پرواز رحمانی
شر پسندوں کا نیا مشغلہ
مسلم خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے والوں کے خلاف دہلی پولیس خدا خدا کرکے حرکت میں آئی ہے اور اس نے کلب ہاوس گروپ کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے۔ یہ گروپ کئی مہینوں سے مسلم خواتین کی کردار کشی میں مصروف ہے۔ حال ہی میں اس گروپ نے ایک ڈسکشن کا اہتمام کیا تھا جس میں کچھ مسلم خواتین کو نیلامی کے لیے پیش کیا تھا۔ پولیس نے کارروائی کا ارادہ غالباً اسی ایپیسوڈ پر کیا ہے۔ پولیس نے گوگل پلے اسٹور کے نام نوٹس بھی جاری کی ہے کہ وہ پروگرام جاری کرنے سے پہلے اچھی طرح چیک کرلیا کرے۔ پولیس نے کلب ہاوس ڈسکشن کی بنیاد پر چار پانچ افراد کی نشاندہی کی ہے اور انہیں برآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہا ہے کہ ان میں دلی کا کوئی نہیں ہے سبھی دلی سے باہر کے ہیں۔ جن دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے وہ آسام اور اندور کے ہیں۔ کلب ہاوس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ہمارا کام نفرت پھیلانا یا کسی مذہبی حلقے کو مطعون کرنا نہیں ہے تاہم، اگر کوئی ہمارے پلیٹ فارم پر یہ کام کرتا ہوا پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ گزشتہ ماہ گٹ ہب نامی پلیٹ فارم نے بھی مسلم خواتین سے متعلق ایسا ہی شر انگیز پروگرام پیش کیا تھا جس پر مسلم حلقوں اور شریف انسانوں نے احتجاج کیا تھا لیکن حکومت اور پولیس اسے نظر انداز کررہی تھی، البتہ مہاراشٹرا پولیس نے کچھ افراد کو گرفتار کیا تھا لیکن شرارتیں جاری رہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ دہلی پولیس کی کارروائی کہاں تک جاتی ہے۔
سات سال کا ریکارڈ
شر انگیزی اور تخریب کاری کے واقعات کا سلسلہ جو سات سال قبل دلی کے قریب محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل سے شروع ہوا تھا، لگاتار جاری ہے۔ گائے کے نام پر بھی قتل و غارتگری کے واقعات ہو رہے ہیں جبکہ لو جہاد کے نام پر اب بھی نوجوانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ابھی چند روز ہوئے مدھیہ پردیش میں ٹرین میں ایک جوڑے کو پریشان کیا گیا اور لو جہاد کے نام پر اجین میں ٹرین سے اتار کر ہراساں کیا گیا۔ دھرم سنسد کی آڑ میں شر پسندوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اب مسلم خواتین کی کردار کشی کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ شر انگیزی کے ان تمام حرکات پر مرکزی حکومت اور حکمراں پارٹی کی ریاستی حکومتیں بالکل خاموش ہیں۔ کبھی کسی کا بیان نہیں آتا جس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ شر پسندوں کو حکومت اور اس کی پارٹی کی تائید حاصل ہے بلکہ یہ سب حکومت اور حکمراں پارٹی کے ایما پر ہی ہو رہا ہے۔ یہی نہیں ان کی کتاب میں بہت کچھ صاف صاف لکھا ہوا ہے۔ منو سمرتی پر ہر سال بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں اور لوگ کھل کر اس کے خلاف بولتے ہیں۔ جب بولتے ہیں تو ورن ویوستھا کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ اسی میں وہ تمام منصوبے اور پروگرام بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں جو یہ لوگ اپنے دلوں میں پالے ہوئے ہیں۔ کئی ٹی وی چینلز آج بھی صورت حال کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں۔
سخت قانون کی ضرورت
جہاں تک سول سوسائٹی اور ملک کے پڑھے لکھے اور ذمہ دار افراد کا تعلق ہے قدرے اطمینان کی بات ہے کہ بہت سے لوگ صورتحال کی سنگینی کا احساس رکھتے ہیں اور اس کے خلاف بولتے بھی ہیں۔ ابھی 20جنوری کو دلی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فالی نریمن نے دھرم سنسد کی نفرت انگیزی کے خلاف نہایت سخت الفاظ میں تبصرہ کیا ہے۔ ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس نفرت انگیزی کو حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کی جا رہی ہے اور حکومت خاموش ہے۔ حکومت کے خلاف بولنے والوں پر بغاوت کے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ حکومت کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ سرکاری افسر تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جسٹس نریمن نے کہا کہ نفرت انگیزی کرنے اور مختلف طبقوں میں فساد پھیلانے والوں کے خلاف ہمارے یہاں کوئی مضبوط قانون نہیں ہے جو قانون ہے وہ بہت ہلکا پھلکا ہے اور اس پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ جسٹس نے کہا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت سے سخت قانون بننا چاہیے اس پر عمل بھی ہونا چاہیے تاکہ انہیں قرار واقعی سزا مل سکے۔ جسٹس نریمن کا یہ غم وغصہ بجا ہے۔ ان کے علاوہ سپریم کورٹ کے کئی وکیل ہیں جو اس صورتحال کے خلاف رائے رکھتے اور حسب ضرورت بولتے بھی ہیں۔ پچھلے دنوں عدالت عظمیٰ کے 76 وکیلوں نے چیف جسٹس کے نام ایک مکتوب میں ان حالات پر گہری تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ عدالت کو خود اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 30 جنوری تا 5فروری 2022