کشمیر کی خصوصی حیثیت اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک کسی دوسری جماعت کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہ ہو: غلام نبی آزاد
نئی دہلی، ستمبر 11: کانگریس کے سابق سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے اتوار کے روز کہا کہ آئین کی دفعہ 370 کو اس وقت تک بحال نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ کسی دوسری پارٹی کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو۔
انھوں نے کہا کہ ’’ووٹ کے لیے میں آپ کو گمراہ اور آپ کا استحصال نہیں کروں گا۔ براہ کرم ایسے مسائل کو نہ اٹھائیں جو حاصل نہیں ہوسکتے ہیں۔ 370 کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔‘‘
بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے، جس کی پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ہے، 5 اگست 2019 کو جموں اور کشمیر کے لیے دفعہ 370 کے تحت ریاستی حیثیت اور خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ سابقہ ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
مرکز نے دفعہ 35A کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جس نے جموں و کشمیر کے ’’مستقل باشندوں‘‘ کے طور پر بیان کیے گئے لوگوں کے لیے خصوصی حقوق اور مراعات کو یقینی بنایا تھا۔ تب سے یہ خطہ مرکزی حکومت کے تحت رہا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق اتوار کو بارہمولہ میں ایک ریلی میں آزاد نے کہا کہ علاقائی پارٹیاں دفعہ 370 کو بحال کرنے کا وعدہ کرکے کشمیری باشندوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی ریاستی حیثیت کی بحالی اور جموں و کشمیر کے باشندوں کی ملازمتوں اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑے گی۔
انھوں نے کہا کہ میں سیٹیں جیتنے کے لیے جذباتی نعرے نہیں لگاؤں گا۔ ’’ہمیں ریاست کی بحالی کے لیے لڑنا پڑے گا۔ اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ریاست کا درجہ بحال ہونے کے بعد، ریاستی حکومت ملازمتوں اور زمین کے تحفظ کے لیے قانون بنا سکتی ہے کیوں کہ ان دونوں معاملات کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق سابق کانگریس لیڈر نے کہا کہ وہ ’’استحصال اور جھوٹ کی سیاست‘‘ سے لڑنے کے لیے اگلے 10 دنوں میں جموں و کشمیر میں اپنی پارٹی کا آغاز کریں گے۔
آزاد نے تقریباً 50 سال تک کانگریس پارٹی سے وابستہ رہنے کے بعد 26 اگست کو کانگریس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔