’’ہمیں اپنی لڑائی خود لڑنی ہو گی‘‘

اردو صحافت کے دو سو سالہ سفر میں خود اردو والے اس کی طاقت کو نہیں سمجھ سکے

افروز عالم ساحل

’اردو صحافت کی ایک شاندار تاریخ رہی ہے اور اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ آج بھی عوام سے منسلک ہے، اس کے زیادہ تر صحافی عملی میدان میں ہیں اور سماج اور سماجی حقائق کا اچھا فہم رکھتے ہیں۔ یہ کسی بھی صحافت کے میدان کے لیے سب سے اچھی بات ہے۔ اردو صحافت کی یہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ لیکن افسوس کہ اردو صحافت کے دو سو سالہ سفر میں خود اردو زبان سے وابستہ افراد ہی اس کی طاقت کا ادراک نہیں کر سکے‘۔

یہ باتیں مشہور ویب سائٹ ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ (ٹی سی این) کے بانی و سابق منیجنگ ایڈیٹر کاشف الہدیٰ نے ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں رکھیں۔ کاشف الہدیٰ سے نمائندہ ہفت روزہ دعوت کی یہ بات چیت ترکی کے شہر استنبول میں اس وقت ہوئی جب وہ اس شہر کے دورے پر تھے۔ بہار کے مظفر پور سے تعلق رکھنے والے کاشف الہدی نے 1996 میں اردوستان ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ کی شروعات کی تھی، جس میں وہ اردو اخبارات کی مثبت خبروں کو شامل کرتے تھے۔ لیکن 2007 میں انہوں نے امریکا کے شہر کیلوفورنیا سے انگریزی میڈیا میں ہندوستانی مسلمانوں کے دقیانوسی کوریج کو چیلنج کرنے کے مقصد سے ٹی سی این کی شروعات کی۔ آج یہ ویب سائٹ اپنی عمر کے پندرہویں سال میں ہے۔ کاشف الہدیٰ فی الحال امریکا کے بوسٹن شہر میں بائیوٹیکنالوجسٹ اور سائنٹسٹ ہیں۔

ہندوستان میں اردو صحافت کے سوال پر کاشف الہدیٰ نے کہا کہ اردو صحافت کو دوسرے زبانوں کی طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ بین الاقوامی سطح پر صحافت کا جو معیار طے کیا گیا ہے اسے اردو صحافیوں کو بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافت بھی اب تبدیل ہو رہی ہے، کیونکہ دنیا بدل رہی ہے، میڈیم بدل رہا ہے۔ لوگوں کا دیکھنے اور پڑھنے کا نظریہ بدل رہا ہے۔ اردو صحافت کو بھی دنیا میں آنے والی تبدیلی کے ساتھ چلنا ہو گا۔ موجودہ جو بھی میڈیم ہے اردو صحافت کو اس میں اپنی جگہ بنانی پڑے گی تاکہ خبریں لوگوں تک پہنچ سکیں۔ تاریخ میں آپ دیکھیں گے کہ اردو صحافت زیادہ تر opinion based رہی ہے۔ opinion رکھنا اچھی بات ہے لیکن فیلڈ رپورٹنگ پر بھی اردو صحافت کو توجہ دینی پڑے گی اور اس کے لیے رپورٹرس کو تیار کرنے کی ضرورت ہو گی اور انہیں ٹریننگ دینی پڑے گی۔

کاشف الہدیٰ کا کہنا ہے کہ اردو صحافت کو مقامی سطح کی خبروں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں اردو صحافت کافی بہتر مظاہرہ کر سکتی ہے لیکن بین الاقوامی خبروں کے ساتھ آپ انصاف نہیں کر پائیں گے مثلاً یوکرین میں جنگ ہو رہی ہے۔ آپ کے پاس ذرائع نہیں ہیں۔ آپ کو اس جگہ کے بارے میں معلومات بھی نہیں ہے تو پھر آپ رپورٹنگ کیسے کریں گے؟ ایسے میں آپ کسی دوسرے کے نظریے کو ہی پیش کر سکتے ہیں۔ میری اپنی رائے یہ ہے کہ اس سے اردو صحافت کو بچنے کی ضرورت ہے۔ اردو جرنلزم کرنے والوں کو صرف اصل رپورٹنگ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ اصلی رپورٹنگ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہار کے چھوٹے سے گاؤں میں کیا چل رہا ہے، گاؤں کے کسانوں کی کیا حالت ہے، زراعت کے میدان میں کیا تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ اقتصادی مسائل، روزگار، ماحولیات، صحت کی دیکھ بھال جیسے عام مسائل پر توجہ مرکوز کرنا ہو گا۔ تاریخی شراکت سمیت مسلمانوں کے بارے میں مثبت خبروں کو نمایاں کرنا ہو گا۔ آپ جب اس طرح کی زمینی رپورٹنگ کریں گے تو پھر اس کی لوگ قدر بھی کریں گے۔ انہیں آس پاس کی خبریں بھی ملیں گی، جو دیگر زبانوں کے میڈیا سے نہیں مل رہی ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اردو صحافت سے وابستہ لوگوں کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ آپ کے قارئین دراصل کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت کو قبول کرنا ہو گا کہ نئی نسل میں اخبار پڑھنے والے کم ہوئے ہیں۔ ہمیں نئی ٹیکنالوجی اور میڈیم کو سمجھنا ہو گا، اسی کے مطابق چیزوں کو دیکھنا ہوگا اور اپنی صحافت کو آگے بڑھانا ہو گا۔

ٹی سی این کا کیا تجربہ رہا؟ اس سوال پر کاشف الہدیٰ کہتے ہیں کہ تجربہ کافی اچھا رہا۔ ہم نے کافی کچھ اچھا کیا، اچھی رپورٹنگ کی، لوگ تیار کیے جو اب اچھی جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھایا ہے اور کافی بہتر کام کر رہے ہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے۔ اس دور میں یہ کافی مشکل تھا، حالانکہ اب تو مزید مشکل دور ہے۔ لیکن ہمیں اس زمانے میں یہی لگتا تھا کہ کافی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، اس دور میں ہم نے لوگوں کو ایک امید دی تھی۔ ہمیں بھی ایک امید تھی کہ ہم اچھا اور مثبت کام کریں گے۔

تو پھر آپ نے خود کو ٹی سی این سے الگ کیوں کر لیا ہے؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں:کیونکہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چیزیں کافی تیزی سے بدل رہی ہیں۔ اور میرا شروع سے ہی مقصد تھا کہ صحافت کو اثر انگیز ہونا چاہیے۔ صرف رپورٹنگ کرنا میرا مقصد نہیں تھا، میرا مقصد یہ تھا کہ حالات بدلنے چاہئیں صورتحال بدلنی چاہیے۔ ابھی چیزیں اتنی تیزی سے بدل رہی تھیں کہ اس سطح پر اثر کرنے کے لیے جو ذرائع چاہیے تھے وہ اس معاشرے سے مجھے نہیں ملے۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تھوڑی سی مایوسی کی کیفیت میں آکر فی الحال خود کو ٹی سی این سے الگ کر لیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ٹی سی این کے پاس کافی فنڈ ہے اور ڈونیشن بھی کافی ملتا ہے۔ میں ٹی سی این میں فل ٹائم کام کرتا ہوں۔ مجھے اس سے تنخواہ ملتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ میری خود کی فل ٹائم نوکری تھی اور وہ کام میں ابھی بھی کر رہا ہوں اور اسی کام کی وجہ سے اس کو کسی طرح چلا پا رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسے کے علاوہ میں نے وقت بھی بہت دیا تھا۔ اس سے میرا خود کا کیریئر اور فیملی بھی متاثر ہوئی تھی۔ بہرحال میں نے سوچا کہ تھوڑا توقف کر کے دوسری چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ کامیاب ادارہ وہی ہوتا ہے جب وہ آپ کے بغیر بھی ترقی کرے۔ مجھے یہی محسوس ہوا کہ ٹی سی این مجھ سے زیادہ اپنی پہچان بنا رہا ہے۔ اگر یہ میرے مرنے کے بعد بند ہونے والا ہے تو آج ہی بند ہو جائے۔ ایسے ادارے کو کھینچ کر آگے بڑھانے کا کیا فائدہ ہے۔ اور یہ صرف ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک سماج کا پراجیکٹ ہونا چاہیے۔

تو کیا سماج سے ٹی سی این کو کوئی تعاون نہیں ملا؟ کچھ حد تک تعاون ضرور ملا ہے اسی کی وجہ سے اتنے سال چلا پائے۔ لیکن جس سطح کا تعاون ملنا چاہیے وہ نہیں ملا ہے۔ سماج کو سمجھنا چاہیے کہ ہندوستان اتنا بڑا ملک ہے۔ یہاں اتنی بڑی مسلم آبادی ہے۔ اس طبقے کے رپورٹنگ کے لیے ذرائع چاہئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس کام کرنے والے صحافی نہیں ہیں۔ کافی حساس صحافی ہیں، جو اچھی رپورٹنگ کرنا چاہتے ہیں اچھا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے روزی روٹی کا خیال کون کرے گا؟

میڈیا کے تعلق سے ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ اس سوال پر کاشف الہدیٰ کہتے ہیں کہ جس میڈیا کو آپ مین اسٹریم میڈیا کہتے ہیں وہ دراصل ایک کارپوریٹ میڈیا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کا مشن جرنلزم نہیں بلکہ صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔ اس کا مقصد اپنے سرمایہ کاروں کو فائدہ دلوانا ہے۔ یا پھر اسے Elite Media کہہ سکتے ہیں۔ وہ ایک خاص طبقے کا میڈیا ہے۔ اس طبقے کا میڈیا ہے جو دہلی کے لوٹیئن زون میں رہتا ہے اور پورے ہندوستان کو دہلی کے نظریے سے دیکھتا ہے۔ وہ صرف 0.1 فیصد لوگوں کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ارنب گوسوامی کیا کر رہا ہے۔ این ڈی ٹی وی کیا رپورٹ کر رہا ہے۔ اچھے برے سب کو نظر انداز کر دیں، کیونکہ ان کا پورا نقشہ ہی آپ کے خلاف ہے۔ آپ اپنی بات خود کریں آپ کے پاس طاقت ہے آپ کا اپنا خود کا میڈیا کا ہونا ضروری ہے اس لیے اپنا میڈیا شروع کریں۔ آپ کے میڈیا ادارے جو کچھ کوشش کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ جو بچے صحافت میں آنا چاہتے ہیں ان کی مدد کریں اور یہ مدد صرف لائک کرنے یا ان کے ٹویٹ کو ریٹویٹ کرنے سے نہیں ہو گی بلکہ آپ کو سرمایہ بھی لگانا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو نفع نہ ملے لیکن یہ سماج کی سرمایہ کاری ہے اس لیے آپ کے سرمایہ لگانے کی بہت اہمیت ہے۔ آپ چاہیں گے کہ کوئی دوسرا آپ کی بات کہے جو کہ کہنا بھی چاہیے کیونکہ صحافت کا یہی طرز ہے۔ لیکن آج قدریں بدل چکی ہیں آج آپ کو اپنی کہانی خود کہنی پڑے گی۔ آپ کو طاقت اور صلاحیت فراہم کرنی ہو گی تاکہ آپ اپنی کہانی اس انداز سے کہہ سکیں جس انداز سے کہنے کی آج ضرورت ہے۔

وہ ہندوستانی مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ آپ نفرت پھیلانے والوں کو نظر انداز کر دیں نہ خود نفرت انگیز پیغامات اور تشدد کے ویڈیوز پھیلائیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کر کے آپ ان ہی کی مقبولیت بڑھا رہے ہیں اور نفرت انگیز پیغامات کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

ہندوستان میں بہت سارے لوگ خود کا میڈیا شروع کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کوویڈ کے دور میں اپیل بھی کی گئی۔ کچھ لوگوں نے شاید فنڈ بھی جمع کیا ہے۔ ان کے لیے آپ کا کیا مشورہ ہے؟ اس پر کاشف الہدیٰ کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز شروع کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ آپ کا منصوبہ کیا ہے؟ آپ کہاں تک جانا چاہتے ہیں؟ آپ کا کیا وژن ہے؟ آپ صرف آج کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا آنے والے دور کی لڑائی لڑ رہے ہیں؟ ان سب چیزوں کو دیکھنا ضروری ہے۔ جب میں نے ٹی سی این شروع کیا تھا تب اس زمانے میں ہندوستان میں انٹرنیٹ اتنا مقبول نہیں تھا۔ لوگ کہہ رہے تھے آپ اخبار کیوں نہیں شروع کرتے؟ تب میرا جواب تھا کہ اخبار کا دور اب ختم ہونے والا ہے اس لیے اس کو شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ ابھی بھی ویب سائٹ شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن ویب سائٹ کا دور بھی اب ختم ہونے والا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کتنے لوگ نیوز ویب سائٹ کھول کر خبریں پڑھ رہے ہیں۔ خبریں تو لوگ سوشل میڈیا پر پڑھ لیتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اصل گیم کیا ہے۔ کل کس چیز کا دور آنے والا ہے اور پھر اس کے مطابق پلاننگ بہت ضروری ہے۔ آپ کیسی اسٹوری کرنا چاہتے ہیں۔ جو ہو چکا اس کو دوبارہ دوسرے طریقے سے جاری رکھنا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ اس سے کوئی فائدہ بھی ملنے والا نہیں ہے۔ دوسری بات وسائل کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ لیکن انہیں حاصل کرنا اور کوئی ادارہ کھڑا کرنا بڑا کام ہے۔ بس آپ کا ویژن واضح ہونا چاہیے اگر یہ واضح ہے تو آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ پورا ملک کیوں آپ ایک علاقے کو لے کر بھی کام کر سکتے ہیں۔ آپ ٹائمس آف انڈیا سے ٹکر نہیں لے پائیں گے۔ آپ دہلی میں آفس کھولیں گے تین رپورٹر رکھیں گے اور کہیں گے کہ پورے ملک کا احاطہ کریں گے تو یہ کیسے ممکن ہو گا؟

وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی سی این کے لیے آفس نہیں کھولا تھا۔ اس دور میں ہم نے ورک فرام ہوم کیا تھا، جب اسے کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ آج کوویڈ کے دور میں لوگوں نے اس ماڈل کو اپنایا ہے۔ اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ آفس کی ضرورت کتنی ہے۔ آپ اپنے اسٹاف کو لیپ ٹاپ اور موبائل فو دے دیں، کام گھر سے بھی ہو سکتا ہے۔ پرانے دور سے جو چیزیں چلی آ رہی ہیں، اس سے باہر نکلنا پڑے گا۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو امریکی مسلمانوں سے کافی امیدیں ہیں، لیکن امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کو ہندوستانی مسلمانوں سے کیا امیدیں ہیں اور آج کے حالات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ اس پر کاشف الہدیٰ کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ملیالم، بنگلا، تمل اور مختلف زبانیں بولنے والے مسلمان مل جائیں گے۔ امریکا میں بھی مختلف ملکوں سے آنے والے مسلمان ہیں۔ سب ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں، وہاں بھی کافی تنوع ہے۔ خاص طور سے 11/9 کے بعد انہیں بہت بڑے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ لیکن انہوں نے کافی تیزی سے چیزوں کو سمجھا اور وہاں کی سیاست میں شامل ہوئے۔ امریکا کا ماحول سیاسی طور پر مختلف ہے اس لیے وہاں کی سیاست میں شمولیت نسبتاً آسان تھی۔ ہندوستان کی طرح وہاں کے عام شہری اتنے متعصب نہیں ہیں اس لیے مسلمان بھی الیکشن جیت کر آنے لگے ہیں۔ اس لحاظ سے بعض چیزیں بہتر ضرور ہیں۔ لیکن وہ اپنی خود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کے بارے میں زیادہ سوچتے نہیں ہیں۔ اب جب کہ ہندوستان میں حالات سنگین ہوئے ہیں تو وہاں کے بارے میں تذکرے ہونے لگے ہیں۔ کچھ تنظیموں نے اس پر کام بھی کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن وہ انڈیا کی پیچیدگیوں کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں، اگر وہ ان کی حمایت بھی کریں تو وہ اسی سطح کی ہو گی جیسی وہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی کرتے ہیں۔ ایک طرح سے وہ صرف خیر خواہی اور کچھ مالی امداد ہی ہو گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس سے زیادہ انہیں کچھ ملنے والا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی لڑائی خود ہی لڑنی ہو گی۔

***

 آپ اپنی بات خود کریں آپ کے پاس طاقت ہے آپ کا اپنا خود کا میڈیا کا ہونا ضروری ہے اس لیے اپنا میڈیا شروع کریں۔ آپ کے میڈیا ادارے جو کچھ کوشش کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کریں۔ جو بچے صحافت میں آنا چاہتے ہیں ان کی مدد کریں اور یہ مدد صرف لائک کرنے یا ان کے ٹویٹ کو ریٹویٹ کرنے سے نہیں ہو گی بلکہ آپ کو سرمایہ بھی لگانا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو نفع نہ ملے لیکن یہ سماج کی سرمایہ کاری ہے اس لیے آپ کے سرمایہ لگانے کی بہت اہمیت ہے۔ آپ چاہیں گے کہ کوئی دوسرا آپ کی بات کہے جو کہ کہنا بھی چاہیے کیونکہ صحافت کا یہی طرز ہے۔ لیکن آج قدریں بدل چکی ہیں آج آپ کو اپنی کہانی خود کہنی پڑے گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022