کرناٹک: نصاب میں ٹیپو اور حیدر کے ابواب بحال نہیں کیے گئے

گریش کرناڈ اوردوسروں کی تحریروں کودوبارہ جگہ دی گئی

درسیات پر ماہرین تعلیم کے بجائے مقتدرسیاست دانوں کا کنٹرول!
معقولیت پسندی کے بہانے تعلیمی نصاب سے چھیڑچھاڑ۔ تعلیم کو سیاست سے دور رکھنے ہی میں عافیت ہے۔ماہرین کی رائے
کرناٹک میں کانگریس حکومت نے گریش کرناڈ، پی لنکیش، دیوانور مہادیوا، اے این مورتی راؤ اور اکا مہادیوی جیسے مقبول مصنفین کی تحریروں کو تعلیمی نصاب میں بحال کر دیا ہے جن کی تحریروں کو پچھلی بی جے پی حکومت نے اسکولوں اور کالجوں کی نصابی کتابوں کو معقولیت پسندانہ بنانے کے بہانے سے ہٹا دیا تھا۔ تاہم، سدا رامیا حکومت نے ٹیپو سلطان اور حیدر علی پر ابواب کو بحال نہیں کیا ہے۔
کیا انتخابی موسم کے دوران ان ایشوز پر پائے جانے والے شدید جذبات سے اس کا کوئی تعلق ہے؟ اور کیا یہ بی جے پی کی طرف سے میسور کے مسلم حکم رانوں کے حوالے سے کی گئی تبدیلیوں کو برقرار رکھنے کا جواز ہے؟ کرناٹک میں بی جے پی کی سابقہ حکومت ہی مسلم تاریخی شخصیات کے ابواب کو حذف کرنے والی پہلی حکومت نہیں تھی، بلکہ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ اور راجستھان کی حکومتوں نے بھی درسی کتابوں سے مسلم حکم رانوں اور ان کی تاریخ کے ابواب کو ہٹایا ہے۔
تاہم راجستھان میں اشوک گہلوت حکومت نے راجستھان میں بی جے پی کی غلطیوں کو درست کیا ہے۔ بی جے پی حکومت (2013-2018) نے مہارانا پرتاپ کو ہلدی گھاٹی کی جنگ کا فاتح قرار دیا تھا جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیکن کانگریس حکومت نے اسے جزوی طور پر درست کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کوئی بھی جنگ نہیں جیت سکا کیونکہ میواڑ کا بادشاہ جنگ سے بھاگ گیا تھا۔
بی جے پی حکومت نے مغل بادشاہ اکبر کے نام سے ‘اعظم’ کا سابقہ بھی ہٹا دیا اور ونائک دامودر ساورکر کے نام کے آگے لقب کے طور پر ‘ویر’ (جرات مند) کا اضافہ کیا، جس نے ہندتو نظریے کی تشکیل کی۔ بعد میں کانگریس حکومت نے ساورکر کے نام سے اعزاز ہٹا دیا۔
نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے اپنی نصابی کتابوں سے گاندھی جی، ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے اور گودھرا کے بعد کے فسادات کے حوالہ جات کو حذف کیا جس کے بعد بہت بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا۔
تاریخ کی نصابی کتابوں کے کئی ابواب میں مغلیہ سلطنت کے حوالے ہٹا دیے گئے۔ سیاسی تحریکوں کا عروج اور ہندوستانی سیاست میں ایک پارٹی کا غلبہ بھی مٹا دیا گیا۔
مرکز میں کانگریس کی زیر قیادت متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) حکومت نے بھی این سی ای آر ٹی ٹیکسٹ بک کونسل کے مشیر کے طور پر سوہاس پالشیکر اور یوگیندر یادو کے استعفی جات کے بعد نصابی کتابوں سے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر کے کارٹون ہٹائے تھے۔ ان کا احتجاج این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابوں میں ’’جارحانہ‘‘ قرون وسطیٰ کی پینٹنگز کے خلاف تھا۔ این سی ای آر ٹی نے نصاب کو ’بھگوا کرن‘ سے پاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے میناکشی جین کی کتاب کو واپس لیا تھا- اس پر تبصرہ کرتے ہوئے، ناگالینڈ پبلک سروس کمیشن (این پی ایس سی) کی چیئر پرسن ڈاکٹر سدھا آچاریہ نے کہا کہ ’’تاریخ ہمیشہ سیاسی تشریحات کے لیے کھلی رہتی ہے۔ ایسا ہمیشہ ہوا ہے- لیکن سیشن کے وسط میں نصابی کتب میں اچانک اضافہ اور حذف کرنے سے طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے درمیان الجھن، افراتفری اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں‘‘
انہوں نے معقولیت پسندی کے نام پر نصابی کتابوں میں اضافے اور حذف کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے استفسار کیا ’’ہم یہ فیصلہ کیوں نہیں کر پاتے کہ ہمارے نصاب میں کیا ہونا چاہیے؟ ہم یہ فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے کہ گجرات فسادات کا حوالہ کیسے دیا جائے، ہم گاندھی جی کے کردار کا فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے، ہم یہ فیصلہ بھی کیوں نہیں کر پا رہے کہ ٹیپو سلطان اور حیدر علی کا حوالہ دیا جائے یا نہیں؟‘‘
اپنے جواب میں ڈاکٹر اچاریہ نے نصابی کتب کے مواد میں مستقل مزاجی پر زور دیا۔ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ نصاب اور نصابی کتابیں تبدیل نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ ہمارے طلباء اور تعلیمی نظام کے لیے الجھن پیدا کرتا ہے،‘‘
انہوں نے کہا کہ آج ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ ماہرین تعلیم کا معاملات پر کنٹرول نہیں ہے۔ حکومتیں اپنے حسب حال حذف اور اضافے کرتی ہیں اور اس معاملہ میں کمیٹیوں کے ماہرین کی رائے کو خاطرمیں نہیں لایا جاتا۔
تعلیم کی سیاست اور تعلیم کو سیاست سے کیسے محفوظ رکھا جائے اس سوال پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مینجمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر فرقان قمر نے کہا کہ جو فیصلے کیے جا رہے ہیں وہ بالکل بھی میرٹ پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر مختلف حکومتوں کی سیاسی سوچ پر مبنی ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ بدلنا چاہیے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس وجہ سے ہم نے خود مختار ادارے جیسے این سی ای آر ٹی، ایس سی ای آر ٹی وغیرہ قائم کیے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ادارے اس خود مختاری کے ساتھ کام نہیں کر رہے ہیں جس خود مختاری کے ساتھ انہیں کام کرنا چاہیے تھا۔ منصوبہ بندی کمیشن (اب نیتی آیوگ) کے سابق مشیر تعلیم نے یہ الزام لگایا۔ این سی ای آر ٹی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر جے ایس راجپوت نے پروفیسر قمر کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے ’’اس عمل سے گزرنے اور تقریباً 20 سال پہلے تعلیم کو بھگوا بنانے کا الزام لگانے کے بعد میں اس عمل کو جانتا ہوں۔ تبدیلیاں ضرور ہونی چاہئیں۔ چونکہ ہر چیز بہت تیزی سے بدل رہی ہے اس لیے تعلیم جو کہ باقی ہے اور ہمیشہ اہم رہے گی، اسے بھی بدلنا ہوگا۔ مثال کے طور پر جب میں وہاں این سی ای آر ٹی کا ڈائریکٹر تھا تاریخ کی کتابوں میں نئی ​​ایجادات، کھدائی اور تحقیق کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ چونکہ تبدیلیوں کو شامل کرنا تھا میں نے کتابوں پر نظر ثانی کے لیے مصنفین سے رابطہ کیا اور یہ ہو گیا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’یہ حکومتوں کے پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نصابی کتب پر نظر ثانی کے عمل پر ان کے سیاسی نظریات حاوی نہ ہوں۔ لیکن ساتھ ہی انسانی معروضیت کی بھی حدود ہیں۔ میں نے اسے دیکھا ہے اور ایسا ہوتا ہے‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ماہرین تعلیم پر منحصر ہے کہ وہ کتنے مضبوط اور با مقصد ہیں اور وہ بچوں اور آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود اور تبدیلی کے لیے کتنے پرعزم ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مصنفین کو ذمہ دار ٹھیرانا چاہیے جو حکومت کی ہدایت پر تبدیلیاں کرتے ہیں۔ بھارت کو ایسے ماہرین تعلیم کی ضرورت ہے جو نظریاتی تحفظات اور مجبوریوں سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ بدقسمتی سے یہ چیز عنقا ہے۔ ہمارے ہر رنگ کے سیاست دانوں کو اس علمی مشق میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے پاس سیاست کرنے کے لیے بہت سے میدان موجود ہیں۔ برائے مہربانی تعلیم کو ماہرین تعلیم پر چھوڑ دیں، انہیں فیصلہ کرنے دیں کہ کیا پڑھایا جانا چاہیے، کیسے پڑھایا جانا چاہیے اور کس کو پڑھانا چاہیے۔‘‘
جب ان سے ان مثالی امور کے بارے میں پوچھا گیا جو حکومتوں کو کرنا چاہیے تو انہوں نے کہا ’’حکومتوں کو کیا کرنا چاہیے اور وہ کیا کر رہی ہیں اس کے درمیان ایک بہت بڑا تضاد ہے، تعلیمی نظام میں کسی بھی سیول سوسائٹی کی طرح ایک بہت بڑا فرق پولرائزیشن کا بھی ہے۔ مزید یہ کہ ماہرین تعلیم مطالعہ اور علم کو زیادہ اہمیت دینے کے بجائے حکومتوں اور ان کے سیاسی آقاؤں کے ساتھ وفا داری کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ سارا مسئلہ یہی ہے کہ وفا داری کو میرٹ پر فوقیت دی جاتی ہے۔‘‘
حکومتیں ماہرین کو کیسے چنتی ہیں یہ ماہرین کون ہیں؟ کیا وہ واقعی ماہر ہیں؟ کیا وہ واقعی نصاب میں تبدیلیاں لانے اور اس کے بارے میں بات کرنے کا اعتبار رکھتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں؟ ان سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا ’’ان تمام ماہرین کی اسناد کو پبلک ڈومین پر رکھنا چاہیے اور لوگوں کو یہ فیصلہ کرنے دینا چاہیے کہ کون کس کیٹیگری سے تعلق رکھتا ہے۔ لوگوں کا انتخاب ان کی خوبیوں کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کے نظریے کی بنیاد پر،‘‘
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مواد اہم ہے کیونکہ یہ علم سے جڑا ہوا ہے اور علم معاشرے کے تصورات کی ترجمانی کرتا ہے۔
پروفیسر راجپوت نیشنل ایجوکیشن پولیس (این ای پی) کو مسئلے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ حکومت نے اسے تمام خود مختار اداروں اور لاکھوں ماہرین کی مشاورت کے بعد بنایا ہے۔
لیکن پروفیسر فرقان اس سے متفق نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں، ’’یہ درست نہیں ہے کہ NEP کو اتنے بڑے غور و فکر کے بعد متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ بالکل درست نہیں ہے کہ NEP کے لیے وسیع مشاورت ہوئی اور لاکھوں لوگوں سے مشاورت کی گئی۔ NEP ایک ٹاپ ڈاون پالیسی ہے اور یہ بڑی حد تک نجکاری کا نسخہ ہے۔
’زعفرانائزیشن‘ اور ’ڈی زعفرانائزیشن‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کوئی کہتا ہے کہ نصابی کتب کو زعفرانائز کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ نظر ثانی کے پورے عمل کے دوران کسی قسم کا تعصب سامنے آیا۔
آپ کہتے ہیں کہ بہت ساری دریافتیں اور تحقیقیں ہیں اور اس لیے تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ لیکن معقولیت پسندی کے نام پر ہم بھگوا کاری کرتے ہیں۔ جب آپ کچھ تبدیلیاں کرتے ہیں تو اسے عوامی ڈومین میں ڈالیں تاکہ ایک سیر حاصل بحث ہوسکے۔ اس سے نظرثانی کے آپ کے کام میں آسانی ہی ہوگی۔
(بشکریہ: انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
***

 

***

 بھارت کو ایسے ماہرین تعلیم کی ضرورت ہے جو نظریاتی تحفظات اور مجبوریوں سے بالاتر ہو کر سوچیں۔ بدقسمتی سے یہ چیز عنقا ہے۔ ہمارے ہر رنگ کے سیاست دانوں کو اس علمی مشق میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے پاس سیاست کرنے کے لیے بہت سے میدان موجود ہیں۔ برائے مہربانی تعلیم کو ماہرین تعلیم پر چھوڑ دیں، انہیں فیصلہ کرنے دیں کہ کیا پڑھایا جانا چاہیے، کیسے پڑھایا جانا چاہیے اور کس کو پڑھانا چاہیے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024