کالا جادو قانون، نشانے پر کون ہے؟

ملک میں ترقی اور بہتری کے دعوے کے ساتھ کئی نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

شبانہ جاوید

انسان اللہ کی بنائی ہوئی ایک ایسی مخلوق جسے اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے ۔انسان کے اندر صلاحیتوں کا خزانہ ہے اگر وہ چاہے تو ناممکن نظر آنے والے کام تک انجام دے سکتا ہے۔ آج کے زمانے میں دنیا کی تمام تر ترقی انسان کی سوچ اور محنت ہی کا نتیجہ ہے۔انسان کی صلاحیت اور محنت کے باعث دنیا بھر ترقی کی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ یہ انسان ہی ہے جو اپنے غلط عقیدے کے باعث وہ کام کر گزرتا ہے جس کا تصور بھی حیران کن ہوتا ہے جو غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو گمراہ کرتا اور ہماری سوچنے سمجھنے کی لامحدود صلاحیتوں کو محدود کرتا ہے اور معاشرے میں تنگ نظری کو پروان چڑھاتا ہے۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں غلط عقیدے اور توہم پرستی کی، جب انسان ہارنے لگتا ہے تو ان چیزوں پر عقیدہ پختہ کرنے لگتا ہے جن میں کوئی صداقت نہیں ہوتی لیکن حل ہونے کا دعویٰ ضرور کرتا ہے۔ توہم پرستی کا یہ عالم ہے کہ لوگ بلی کے نام پر اپنے ہی جیسے انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ عقیدہ اور توہم پرستی کی بنیاد پر کئی ایسے معاملے ہندوستان میں دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں کئی لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ مہاراشٹر میں برسوں پہلے ایک ایسا ہی معاملہ سامنے آیا تھا۔ مہاراشٹر حکومت نے anti superstition law کو متعارف کرایا۔ مہاراشٹرا اندھا شردھا نرمولن سمیتی ایک ایسی تنظیم ہے جو ہندوستان میں بالخصوص ریاست مہاراشٹر میں توہم پرستی کے خلاف تحریک چلارہی ہے۔ اس کی بنیاد نریندر دابھولکر نے 1989 میں رکھی تھی۔ 2010 سے اس تنظیم کی سربراہی اویناش پاٹل کر رہے ہیں کیونکہ مہاراشٹرا اندھا شردھا نرملن سمیتی کے بانی نریندر دابھولکر نے عقیده و توہم پرستی، سماجی برائیوں، مذہبی توہم پرستی اور ذات پات کے نظام کے خاتمے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی- انہیں صبح کی سیر کے دوران 20 اگست 2013 کو شنیوار پیٹھ میں اومکاریشور پل کے قریب دو موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا- ان کے قتل سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ توہم پرستی کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے والے لوگ کتنے مضبوط ہیں۔ کورٹ میں نریندر دابھولکر کے قتل کا معاملہ زیر سماعت آیا۔ اگلی سنوائی 22 فروری کو ہوگی۔ مہاراشٹر کے بعد کرناٹک حکومت نے بھی The karnataka prevention of superstitious practices bill 2013 پاس کیا۔ آسام میں بھی The assam witch hunting act 2015 پاس کیا گیا۔ اس طرح کے بل اور قوانین کا مقصد لوگوں کو گمراہی سے باہر نکالنا تھا اور ساتھ ہی ساتھ جو لوگ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی اور گھیرا تنگ کرنا تھا۔ حال ہی میں کیرالا میں دو خواتین کے بلی دینے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر ملک میں جادو ٹونے کے خلاف قانون کو سخت بنائے جانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کالے جادو کے خلاف جو قانون بنائے جا رہے ہیں اس میں نشانہ کسے بنایا جائے گا؟ کیوں کہ ملک میں کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ خاص طبقے کے لوگوں کو کالے جادو کے نام پر پریشان کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں جہاں جادو ٹونے کا رواج ہے لوگ جادو ٹونے کی آڑ میں بہت کچھ غلط کرتے ہیں معصوم لوگوں کی جانیں لیتے ہیں وہیں ہمارے ملک کے اقلیتی خاص کر مسلم طبقے میں ایک خاص رواج ہے کہ یہاں عاملوں اور مولاناوں کے ذریعہ لوگوں پر پڑھ کر پھونکا جاتا ہے اور پانی دم کرکے پلایا جاتا ہے۔ اب اسی معاملے کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں برسوں سے یہ روایت رہی ہے کہ مساجد کے باہر لوگوں کی ایک لمبی قطار دیکھی جاتی ہے۔ مساجد سے نمازی جب باہر نکلتے ہیں تو لوگ پانی کی بوتلیں اور گلاس لے کر کھڑے رہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ نمازی ان کے پانی میں پھونک ماریں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اس پانی کو پینے سے انہیں شفا ملتی ہے۔ برسوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ مساجد کے باہر لوگوں کی جو قطار نظر آتی ہے اس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد ایک عام آدمی بھی اگر پانی میں پھونکے تو انہیں صحت ملتی ہے لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ کالے جادو قانون کے نام پر اب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ کالے جادو کے قانون کے تعلق سے ہم نے کئی لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ کولکاتا کے غلام احمد علی کے مطابق ملک میں اس طرح کے قانون کی ضرورت ہے اگر یہ قانون لاگو ہوتا ہے تو توہم پرستی کے ہاتھوں اپنا سب کچھ گنوانے والے لوگوں کو تحفظ ملے گا لیکن ساتھ ہی جس طرح سے ملک کے حالات بنے ہیں اور جس طرح سے قانون کی آڑ میں لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں خاص کر مساجد اور مزار والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرے گا۔ ان کے مطابق قانون بنایا ہی اس لیے جا رہا ہے تاکہ ملک کے مجبور، کمزور اور لاچار طبقے کو نشانہ بنایا جائے، انہیں مزید کچلا جائے اور عوام پر زبردستی کی جائے، خاص کر دیگر مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے۔ اسی کو تو ہندتو نظام یا برہمن وادی نظام کہا جاتا ہے اور شاید ملک کے اس نئے نظام میں نئے رام کا نظام بھی ایسا ہی ہوگا جسے ناتھو رام کے نام سے چلایا جائے گا اور مہاتما گاندھی کی روایت کو کنارے لگایا جائے گا۔ ان کے مطابق سنگھ پریوار چاہتا ہے کہ ہندو راج قائم ہو جو برہمن وادی راج ہوگا جہاں اعلیٰ ذات کے لوگ سزاؤں سے محفوظ رکھےجائیں گے۔ انہوں نے بلقیس بانو کیس کے حوالے سے کہا کہ کس طرح گیارہ مجرموں کو رہائی ملی اور رہائی پانے کے بعد جس طرح سے ان کا استقبال کیا گیا جو ملک کے لیے سب سے زیادہ شرمناک واقعہ تھا۔ سنگھ کے نئے ہندوستان میں یہی روایت چلے گی جس کی جھلک گزشتہ دنوں دیکھنے کو ملی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس استقبال کے پیچھے کی کہانی کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب ہمیں اسی طرح کے لوگ دیکھنے کو ملیں گے کیونکہ یہی نئے ہندوستان کا ہندو وادی راج ہوگا جب اونچی ذات کے لوگوں کو تحفظ دیا جائے گا تو بڑے سے بڑا جرم کرنے کے لیے وہ آزاد ہوں گے۔ سماجی کارکن شبینہ عالم نے کہا کہ اس طرح کا قانون اگر نیک مقصد سے بنایا جا رہا ہے تو اس کا استقبال کرنا چاہیے لیکن اس کا غلط استعمال افسوسناک ہوگا۔ وہیں تانترک وشوا ناتھ شرما نے کہا کہ جو غلط کرتے ہیں انہیں سزا ملنی چاہیے لیکن دنیا بھر میں لوگ اپنے اپنے عقیدے پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی اچھا کام ہو تو مہورت نکالا جاتا ہے۔ سیاسی لیڈر بھی وقت اور مہورت کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے سبھی لوگوں کو غلط کہنا غلط ہوگا تاہم، قانون کے نام پر ہراساں کرنے کی کوشش ناقابل قبول ہوگی۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس طرح کے قانون بنا کر کیا ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جائے گا اور ان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی؟
***

 

***

 ہمارے ملک میں برسوں سے یہ روایت رہی ہے کہ مساجد کے باہر لوگوں کی ایک لمبی قطار دیکھی جاتی ہے۔ مساجد سے نمازی جب باہر نکلتے ہیں تو لوگ پانی کی بوتلیں اور گلاس لے کر کھڑے رہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ نمازی ان کے پانی میں پھونک ماریں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اس پانی کو پینے سے انہیں شفا ملتی ہے۔ برسوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ مساجد کے باہر لوگوں کی جو قطار نظر آتی ہے اس میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے کے بعد ایک عام آدمی بھی اگر پانی میں پھونکے تو انہیں صحت ملتی ہے لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ کالے جادو قانون کے نام پر اب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024