’’مذہبی قوم پرستی‘ یا ’مذہبی بنیاد پرستی‘ سے کسی کا بھلا نہیں ہو گا‘‘

بھارت کے لیے پوپ کا پیام واضح ہے۔ ڈاکٹر جان دیال سے انٹرویو

افروز عالم ساحل

’جس روز وزیر اعظم مودی ویٹیکن میں پوپ فرانسس سے ملاقات کر رہے تھے اس روز بھی ہندوستان میں ان کے ساتھی اپنے ساتھیوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو مارو کاٹو۔۔۔ آج اس ملاقات کو ایک ہفتہ سے زیادہ ہو چکا ہے لیکن اب تک عیسائیوں پر حملہ کرنے والے آر ایس ایس کے لوگوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ گرفتاری تو دور کی بات ہے پوچھ تاچھ تک نہیں ہوئی ہے۔ ابھی تک کسی کا کوئی معافی نامہ نہیں آیا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے ساتھیوں کو یہ نہیں کہا کہ عیسائیوں کو مارنا بند کرو۔ پچھلے دنوں جن لوگوں نے عیسائی نن کے ساتھ بد سلوکی کی تھی ان میں کسی نے معافی نہیں مانگی تو پھر اس ملاقات کا کیا فائدہ؟ میں اسے صرف ایک ‘photo opportunity’ کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔‘

ان خیالات کا اظہار عیسائی طبقہ سے تعلق رکھنے والے مشہور صحافی اور حقوق انسانی کے کارکن ڈاکٹر جان دیال نے کیا۔ واضح رہے کہ 73 سالہ جان دیال فرقہ وارانہ پولرائزیشن، تعصب اور مذہبی برادریوں کے درمیان نفرت پھیلانے والوں کی مخالفت میں کھل کر بولنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہندوستان کی نیشنل انٹیگریشن کونسل (NIC) کے رکن اور آل انڈیا کیتھولک یونین کے ترجمان رہ چکے ہیں اور فی الوقت آل انڈیا کرسچین کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں اور ملکی و غیر ملکی اخباروں اور ویب سائٹس پر کالم لکھتے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ڈاکٹر جان دیال کہتے ہیں ’ایسا نہیں ہے کہ پوپ فرانسس کو ہندوستان میں عیسائیوں کے حالات کا اندازہ نہیں ہے۔ بھلے ہی انہوں نے مودی کو کچھ نہیں کہا ہو گا لیکن انہوں نے جو تحفے دیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’رام راج‘ کیا ہوتا ہے۔ نبی عیسیٰ کی کتاب سے 32ویں چیپٹر کی پندرہویں آیت کہتی ہے کہ ریگستان سے باغ بننے کے لیے کیا کرنا ہو گا۔ ایک خوبصورت باغ تب بنتا ہے جب وہاں پر پاک روح چلتی ہے، جہاں پر ظلم وستم ختم ہوتے ہیں۔ اس طرح سے پوپ فرانسس کا پیغام واضح تھا۔‘

واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں پوپ فرانسس نے تحفے کے طور پر کانسے کی ایک تختی دی جس پر لکھا ہوا تھا، ’The desert will become a garden‘۔ یہ بائبل کے باب 32 آیت پندرہ سے ایک اقتباس ہے۔ بائبل کی اس آیت میں زمین میں بہتر حکمرانی کی امید ہے۔ بائبل کے باب 32 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’پھر دیکھنے والوں کی آنکھیں بند نہیں رہیں گی اور سننے والوں کے کان سنیں گے۔ اب احمق کو شریف نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی بدمعاش کو زیادہ عزت دی جائے گی۔ کیونکہ احمق احمقانہ باتیں کرتے ہیں، اُن کے دل بُرائی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ بھوکے کو خالی چھوڑ دیتے ہیں اور پیاسے سے پانی روک لیتے ہیں۔ بدمعاش شرارتی طریقے استعمال کرتے ہیں، وہ غریبوں کو جھوٹ سے تباہ کرنے کے لیے برے منصوبے بناتے ہیں، یہاں تک کہ جب ضرورت مندوں کی فریاد درست ہو۔‘‘

یہی نہیں، پوپ فرانسس نے ان دستاویزات کی جلدیں بھی تحفے میں دیں جن پر امن کے عالمی دن کے موقع پر ان کا پیغام درج تھا۔ ساتھ ہی انسانی برادری سے متعلق وہ دستاویز بھی دی جس پر ابو ظبی میں چار فروری 2019 کو پوپ فرانسس اور الازہر کے مفتی اعظم نے دستخط کیے تھے۔

ڈاکٹر جان دیال مزید کہتے ہیں، ’آپ کو معلوم ہے کہ پوپ فرانسس کی طرف سے ہندوستان کے لیے دیوالی کا پیغام کیا ہے؟ پوپ نے واضح انداز میں کہا ہے کہ ’مذہبی قوم پرستی‘ اور ’مذہبی بنیاد پرستی‘ سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ اب ہم اگر مودی کی ملاقات کے مقابلے میں پوپ فرانسس کا پیغام کھڑا کر دیں تو بات صاف ہے کہ پوپ نے ہندوستان کو جِھڑک دیا ہے کہ آپ کے یہاں جو اقلیتوں کے خلاف تشدد چل رہا ہے وہ بری بات ہے، اسے روکیے۔‘

تبدیلی مذہب کے سوال پر ڈاکٹر جان دیال کہتے ہیں، ’میں گزشتہ تیس سال سے اس پر بات کر رہا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ جہاں پنچ ہندو ہے، سرپنچ ہندو ہے، داروغہ، کانسٹبل، ایس پی، کلکٹر، ایم ایل اے، ایم پی، وزیر سب ہندو ہیں، وہاں کس ملا یا کس پادری کی ہمت ہے کہ وہ زور زبردستی کے دم پر کچھ بھی کرے۔ اس کو تو اپنی جان بچانی مشکل ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہو گا جیسے این آر آئی کا بیٹا سڑک حادثہ میں مر جائے اور وہ اپنی بہو کی جبراً ’ستی‘ کروائے۔ ممکن ہے کہ وہ یو پی یا ایم پی میں یہ کام کر پائے لیکن امریکہ میں تو وہ ہرگز نہیں کر پائے گا۔ یا کوئی ہندو کیلیفورنیا، شکاگو یا نیویارک کے اس علاقے میں جہاں ہندوستانی رہتے ہیں عید کے دن مسلمانوں کو عید منانے سے روکے۔ یقیناً اس کے بعد وہاں کی پولیس اس کو فوراً دھر لے گی۔ ہندوستان میں کوئی جبراً کسی کا مذہب تبدیل کروا رہا ہے تو یقیناً وہ نا جائز ہے لیکن کوئی اپنی مرضی سے کر رہا ہے تو آپ کو روکنے کا حق نہیں ہے۔ ہندوستان کا آئین ملک کے ہر شہری کو اپنی مرضی کا مذہب چننے کا حق دیتا ہے۔ اگر کوئی زبردستی کررہا ہے تو اس کا ثبوت پیش کیجیے۔ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ تم آر ایس ایس کے خلاف ثبوت دو تو یقیناً میں لا کر دوں گا اور کہوں گا کہ اگر میں جھوٹا ثابت ہوں تو مجھے جیل بھیج دیا جائے‘

ڈاکٹر جان دیال کہتے ہیں کہ ’گزشتہ کچھ سالوں سے ہر روز اوسطاً ایک عیسائی مخالف واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے جس میں اکثر چھوٹے گرجا گھروں کی بے حرمتی، عیسائیوں کو دھمکیاں، ان کے ساتھ مارپیٹ اور کچھ معاملوں میں قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اٹل بہاری واجپائی کی دور حکومت سے شروع ہوا تھا اور اب تو آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے جڑے لوگ کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہندوستان میں عیسائیوں کا رہنا مشکل کردیں گے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ججوں کے ٹریننگ کالجوں میں آر ایس ایس کے سرسنچالک کو بلا کر افتتاحی خطبہ دلایا جا رہا ہے۔ جن اداروں پر لا اینڈ آرڈر کے کریمنل جسٹس سسٹم کی ذمہ داری ہے، اس کا بھگوا کَرن ہو رہا ہے۔ یہ بے حد خطرناک ہے۔ ہمیں اس پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پولیس عام طور پر حملہ آوروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ پولیس کے اندر جو آر ایس ایس کی فکر کے لوگوں کو بھر دیا گیا ہے، ان کو ہٹایا جائے۔ اکثر ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی جو قریب سات برسوں تک وزیر اعظم رہے، ان کے عہد میں تمام بڑے عہدوں پر آر ایس ایس کے لوگوں کی بھرتیاں ہوئی تھیں۔ جن لوگوں کی بھرتیاں اس وقت ہوئی تھیں، وہ اب بہت بڑے افسر بن گئے ہوں گے۔ اور اب جو مودی کے دور حکومت میں جن لوگوں کی بھرتیاں ہو رہی ہیں وہ کچھ دنوں بعد اچھی جگہ پہنچ جائیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ نہ جان دیال امر ہے نہ مودی جی امر ہیں مگر پولیس میں جن سنگھیوں کی بھرتی ہو گئی ہے وہ تو رہیں گے۔ جو جج ابھی بحال ہوئے ہیں وہ اگلے پچیس برسوں میں سپریم کورٹ میں پہنچ جائیں گے۔ اس بات سے آپ مستقبل کے ہندوستان کا اندازہ لگا لیجیے۔ لیکن اس کے لیے مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ابھی سے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

تو پھر آپ ہندوستان میں اقلیتوں کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟ اس پر ڈاکٹر جان دیال کہتے ہیں، ’یہیں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں مریں گے۔ کوئی یہاں سے بھاگ کر کہیں نہیں جائے گا ۔‘

ہندوستان کی اقلیتوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال پر انہوں نے کہا ہے، ’قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک میں ہونے والے ہر ظلم پر اعداد وشمار، تجزیہ، تقریر اور مضمون لکھے جانے کی ضرورت ہے تاکہ جب ہندوستان کا وزیر اعظم کسی پوپ یا امام سے ملاقات کرے تو یہ دیکھ کر لوگ بیوقوف نہ بن جائیں، ان کو اصل حقیقت کا علم ہونا چاہیے۔ میں نے گزشتہ ایک ہفتے میں آٹھ مضمون لکھے ہیں دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ مودی نے پوپ فرانسس کے ساتھ جو ملاقات کی ہے اس کا فائدہ تبھی ہو گا جب ملک میں مخالف عیسائی تشدد ہند ہو جائے گا ورنہ اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ ملاقات صرف ایک ‘photo opportunity’ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، اور اس حقیقت کو پوری دنیا کے سامنے ظاہر کیا جانا چاہیے۔

***

 ’’قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک میں ہونے والے ہر ظلم پر اعداد و شمار، تجزیہ، تقریر اور مضمون لکھے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ جب ہندوستان کا وزیراعظم کسی پوپ یا امام کی جھپی مارے تو لوگ بیوقوف نہ بن جائیں، ان کو سچائی پتہ ہو۔‘‘
(جان دیال)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021