جامعہ تشدد: دہلی ہائی کورٹ نے شرجیل امام اور 10 دیگر کو بری کرنے کے حکم کے خلاف دائر پولیس کی عرضی پر نوٹس جاری کیا

نئی دہلی، فروری 13: دہلی ہائی کورٹ نے پیر کے روز شرجیل امام، صفورا زرگر، آصف اقبال تنہا اور آٹھ دیگر سے، سٹی پولیس کی اس درخواست پر جواب طلب کیا ہے جس میں ٹرائل کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کیا گیا ہے، جس میں انھیں 2019 کے جامعہ نگر تشدد کیس میں بری کر دیا گیا ہے۔

4 فروری کو ساکیت عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ دہلی پولیس نے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنایا اور وہ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی۔ جج نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا کوئی ابتدائی ثبوت نہیں ہے کہ ملزمان ہجومی تشدد کا حصہ تھے یا ان کے پاس کوئی ہتھیار تھا یا وہ پتھر پھینک رہے تھے۔

یہ کیس اس تشدد سے متعلق ہے جو 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف طلبا کے احتجاج کے دوران ہوا تھا۔

دہلی پولیس پر یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے اور مظاہروں کو روکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام ہے۔ تاہم پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی کارروائی جائز تھی کیوں کہ مظاہرین نے مبینہ طور پر اس کے اہلکاروں کو زخمی کیا تھا اور بسوں کو آگ لگا دی تھی۔

پیر کی سماعت میں جسٹس ایس کانتا شرما نے دہلی پولیس کی طرف سے دائر نظر ثانی کی درخواست پر نوٹس جاری کیا اور کیس کو 16 مارچ کو سماعت کے لیے درج کیا۔

تاہم بار اینڈ بنچ نے رپورٹ کیا کہ جج نے دہلی پولیس کے بارے میں ٹرایل کورٹ کی طرف سے کیے گئے تبصروں کو خارج کرنے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کہا ’’چوں کہ مزید تفتیش کی جائے گی، لہٰذا تفتیشی ایجنسی کے خلاف دیے گئے حکم سے کسی بھی ملزم کی مزید تفتیش یا ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘

مقدمے میں جن دیگر افراد کو بری کیا گیا ہے ان میں محمد ابوذر، عمیر احمد، محمد شعیب، محمود انور، محمد قاسم، محمد بلال ندیم، شہزار رضا خان اور چندا یادو شامل ہیں۔