جامع مسجد: فنڈز جاری کیے گئے لیکن کام ندارد، آخر کہاں گیا 5 کروڑ کا فنڈ؟

تاریخی جامع مسجددلی کی خستہ حالی کے لیے ذمہ دارکون؟

افروز عالم ساحل

دہلی کی تاریخی جامع مسجد جو خستہ حالی کے دور سے گزر رہی ہے اور اپنی مرمت اور تزئین کاری کی راہ دیکھ رہی ہے، اس کے تحفظ کے کام پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے گزشتہ تین سالوں میں 52 لاکھ 82 ہزار روپے خرچ کیے ہیں۔ یہ معلومات ثقافت، سیاحت اور شمال مشرقی علاقہ کی ترقی کے وزیر جی کشن ریڈی نے لوک سبھا میں تحریری طور پر دی ہیں۔

20 دسمبر 2021کو رکن پارلیمنٹ ساجدہ احمد نے لوک سبھا میں جامع مسجد کی مرمت پر ہونے والے خرچ پر تحریری طور پر سوال کیا تھا کہ کیا حکومت نے دلی کی جامع مسجد کو ہونے والے نقصان اور اس میں کام کی گنجائش کا کوئی سروے کرایا ہے؟ جس پر وزیر جی کشن ریڈی نے تحریری طور پر کہا ہے کہ جی ہاں! آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے جامع مسجد کا ڈاکیومینٹیشن اور منظم نقشہ سازی کا کام شروع کر دیا ہے۔ ضرورت کے مطابق آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ تحفظ کا کام باقاعدگی سے کیا گیا ہے۔

یہی نہیں، ایک سوال کے جواب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب کبھی ضرورت محسوس ہوئی جامع مسجد کے تحفظ کے لیے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ گزشتہ تین آپریشنل سیزنس میں جامع مسجد کے تحفظ پر کل 52.82 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ سال2017-18میں 13.90 لاکھ روپے، 2018-19میں 13.92 لاکھ روپے اور 2019-20میں 25.00 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جس جامع مسجد کی مرمت پر سیاست ہو رہی ہے، بات خط وکتابت سے گزر کر پارلیمنٹ تک پہنچ گئی ہے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے جو خرچ کیا ہے کیا وہ اسی جامع مسجد کے تحفظ پر کیا ہے؟ اگر کیا یے تو پھر اس خرچ کے بعد بھی مسجد کی مرمت شاہی امام صاحب کو کیوں کروانی پڑ رہی ہے؟ کیوں وزیر اعظم نے امام بخاری کے خط کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے؟ اور اگر حکومت نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ اس مسجد کی مرمت کا کام کروایا ہے تو اب کیا مجبوری ہے کہ اس جانب توجہ نہیں دی جارہی ہے؟

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ جامع مسجد مغلیہ سلطنت کا تعمیر کردہ نہ صرف تعمیری و مذہبی اثاثہ ہے بلکہ بیرون ملک یہ ہندوستان کی ایک پہچان بھی ہے۔ اس کی یہی پہچان ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ایک نئی بلندی اور پوری دنیا میں ملک کو ایک خاص مقام عطا کرتا ہے۔ یہ اس ملک کے مسلمانوں کے عظمت رفتہ کی بھی نشانی ہے۔ ایسے میں اس عمارت کے ساتھ بے رخی یا سوتیلا سلوک نہ صرف حکومت ہند کی کارکردگی پر سوال ہے بلکہ پورے ملک کی جمہوری سوچ پر بھی ایک بڑا سوال ہے۔

کہاں گیا 5 کروڑ کا فنڈ؟

آگے آنے والا مواد آپ کو مزید پریشان کرنے والا ہے۔ 7 فروری 2018 کو راجیہ سبھا میں رکن پارلیمنٹ امر سنگھ کے سوال پر وزارت ثقافت کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ڈاکٹر مہیش شرما نے تحریری جواب میں بتایا کہ دلی کی جامع مسجد، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے زیر تحفظ ایک تاریخی یاد گار نہیں ہے، پھر بھی جامع مسجد کے شاہی امام کی گزارش پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے مسجد کے ضروری تحفظ کا کام شروع کردیا ہے۔

5 مارچ 2018 کو لوک سبھا میں رکن پارلیمنٹ پی ناگراجن کے سوال پر ڈاکٹر مہیش شرما نے تحریری طور پر کہا کہ مسجد کے شاہی امام کی گزارش پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے اس مسجد کے ضروری تحفظ کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

وہیں 29 جولائی 2015 کو راجیہ سبھا میں رکن پارلیمنٹ وجئے گوئل کے سوال پر ڈاکٹر مہیش شرما نے تحریری طور پر بتایا تھا کہ دلی حکومت کے ذریعہ جامع مسجد کے ری ڈیولپمنٹ سے متعلق منصوبہ نافذ کیا جا رہا ہے، جس کے لیے دلی کے محکمہ تعمیرات عامہ نے ڈی پی آر تیار کرنے کے لیے ایک مشیر کی تقرری کا عمل شروع کر دیا ہے۔ دلی حکومت کے ذریعہ دی گئی معلومات کے مطابق اس کام کے لیے 5 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

حالانکہ ڈاکٹر مہیش شرما نے اس تحریری جواب میں واضح کیا کہ فنڈ ابھی تک استعمال نہیں ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر موصوف پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کو گمراہ کر رہے ہیں یا اگر حقیقت میں حکومت نے جامع مسجد کے تحفظ کے لیے 5 کروڑ روپوں کا فنڈس جاری کیا ہے تو پھر وہ فنڈ کہاں گیا؟ اور گزشتہ کئی برسوں سے جامع مسجد میں مرمت کا کوئی کام نہیں ہوا تو پھر 52.82 لاکھ روپے کہاں خرچ ہوئے؟ کیونکہ جامع مسجد کے امام نے میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ مسجد کو خستہ حالی سے بچانے کے لیے تھوڑا بہت مرمتی کام انہوں نے خود کرایا ہے۔

پارلیمنٹ میں وقفہ وقفہ سے اٹھتا رہا ہے جامع مسجد کے تحفظ کا سوال

جامع مسجد کے تحفظ کا مسئلہ کافی پرانا ہے۔ اوراس سے قبل بھی اس کے تحفظ کا سوال اٹھتا رہا ہے اور سرکاری دعوے کے مطابق اس کے تحفظ پر سرکاری فنڈس خرچ ہوتے رہے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے جامع مسجد کے تحفظ کی کہانی کو جاننے کے لیے کچھ پرانے اخباروں کے آرکائیو سے بھی استفادہ کیا۔

19 جولائی 1990 کو ٹائمس آف انڈیا میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے جامع مسجد کی تزئین و آرائش کے کام کی لاگت کا تخمینہ 50 لاکھ روپے لگایا تھا اور حکومت ہند نے اس رقم کو منظوری بھی دے دی تھی لیکن پھر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مرکزی دفتر نے خرچ کو پچاس لاکھ سے 32 لاکھ کر دیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ان کے ایک انجینئر کے مطابق پتھر کے سلیب کی موٹائی کو چار انچ سے دو انچ تک کم کرکے بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔

ٹائمس آف انڈیا کے مطابق وہ انجینئر، جس نے جامع مسجد کے تزئین و آرائش کے منصوبے میں تبدیلی کی تھی اس وقت پوری کے جگن ناتھ مندر کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے کے لیے وہاں بھیجی گئی ماہر ٹیم کے رکن کے طور پر اڑیسہ میں تھا، اس لیے اس کے انتظار میں کام میں تاخیر ہو رہی تھی۔ گویا جامع مسجد میں تزئین و آرائش کا کام آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ صحن کو ہموار کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے پتھر کے سلیبوں کی موٹائی کو کم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے رک گیا ہے۔

اس خبر سے یہ خبر یہ بھی معلوم ہوا کہ جامع مسجد کی تحفظ کے لیے حکومت ہند کے ذریعہ 50 لاکھ مختص کرنے کے اس فیصلے نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا تھا، کیونکہ یہ مسجد آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی محفوظ فہرست میں نہیں تھی۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ یہ کام اس لیے منظور کیا گیا تھا، کیونکہ مبینہ طور پر شاہی امام اور وزیر اعظم وی پی سنگھ کے درمیان سیاسی مفاہمت تھی۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندہ کے پاس موجود اطلاعات کے مطابق سال 1991 میں 19 اگست کو اس وقت کے وزیر ارجن سنگھ نے بتایا تھا کہ سال 1990-91 کے دوران جامع مسجد کی تحفظ کے لیے 8.50 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے اور جولائی 1991 تک اس کام پر 7,83,333 روپے خرچ ہوئے۔ وہیں سال 1991-92 کے لیے مختص رقم 4 لاکھ تھی۔ تب ارجن سنگھ نے یہ بھی بتایا تھا کہ جامع مسجد کے تحفظ کا کام آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ماہرین کر رہے ہیں۔ تباہ شدہ اور بوسیدہ سینڈ اسٹون سلیب کو تبدیل کرنے کا کام، اصل پیٹرن کے مطابق نئے سلیبوں سے جاری ہے۔

واضح رہے کہ سال 2004 میں جامع مسجد کو مرکزی طور پر محفوظ یادگار کے طور پر اعلان کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی گئی تھی۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ کے احکام کی تعمیل میں 14 دسمبر 2004 کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل کی صدارت میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں دہلی وقف بورڈ کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں یہ طے پایا گیا کہ اگر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی طرف سے کوئی مرمت کروانی ہے تو وقف بورڈ کے مشورے سے کی جائے گی۔ اس کے بعد دہلی ہائی کورٹ نے 14جولائی 2005 کے اپنے عبوری حکم میں مزید ہدایت دی تھی کہ دہلی میونسپل کارپوریشن اور دہلی وقف بورڈ پولیس کی مدد سے وقف اراضی اور اس کے ارد گرد غیر مجاز تعمیرات کو ہٹا دیا جائے۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ سروے کمشنر (وقف) کو ایک سروے کرنا چاہیے اور وقف اراضی پر مسجد کیمپس کے اندر اور باہر غیر مجاز ڈھانچوں کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ جامع مسجد کے تحفظ اور مرمت کے موضوع پر، معزز عدالت نے یہ ہدایت دی کہ فوری نوعیت کی چھوٹی مرمت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ کروائی جائے۔ طویل مدتی مرمت کے لیے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو ضروری مشق کرنی چاہیے اور دہلی وقف بورڈ کو لاگت سے آگاہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہ معلومات یکم اگست 2005 کو راجیہ سبھا میں وزارت ثقافت کے وزیر ایس جئے پال ریڈی نے تحریری طور پر دی تھیں۔

سال 2005 میں 12 مئی کو وزارت ثقافت کے وزیر ایس جئے پال ریڈی نے بتایا تھا کہ سال 2004-05کے دوران جامع مسجد کے صحن کے فرش کی مرمت کے لیے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے 6,45,664 روپے خرچ کیے تھے۔

سال 2006 میں 23 فروری کو وزارت ثقافت کی وزیر امبیکا سونی نے لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں بتایا تھا کہ ’سعودی عرب کے سفارت خانے نے وزارت خارجہ کو مطلع کیا ہے کہ مملکت سعودی عرب دلی میں جامع مسجد کی مرمت کے کاموں کے لیے حکومت ہند کی مدد کرنا چاہتی ہے، جس میں شیڈز کی تعمیر، وضو خانوں کی دیکھ بھال اور پرانے برقی تاروں کی تبدیلی شامل ہے۔‘

لیکن اسی جواب میں امبیکا سونی نے بتایا تھا کہ ’حکومت نے اس پیشکش کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا 1955 سے جامع مسجد میں ضروری تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ معزز ہائی کورٹ نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا دہلی وقف بورڈ کے ساتھ مشاورت سے ضروری مرمت کرے گا۔ چونکہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی طرف سے ضروری مرمت کی جا رہی ہے، اس مقصد کے لیے غیر ملکی تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔‘

14 اگست 2007 کو راجیہ سبھا میں رکن پارلیمنٹ عامر عالم خان نے جامع مسجد کی مرمت کا سوال اٹھایا تب وزارت ثقافت کی وزیر امبیکا سونی نے کہا تھا، ’دہلی کی جامع مسجد مرکزی طور پر محفوظ یادگار نہیں ہے۔ تاہم، دلی کے معزز ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق، گنبد سمیت یادگار کی حالت کا تفصیلی جائزہ دہلی وقف بورڈ نے ایک کنزرویشن آرکیٹیکٹ کے ذریعے کیا ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ایک تخمینہ کو منظور کیا ہے۔ 47.52 لاکھ میں جن تحفظاتی کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں گنبدوں کے سنگ مرمر کی سلیبوں کو دوبارہ ترتیب دینا شامل ہے تاکہ پانی کے رساؤ کو روکا جا سکے۔ سال 2007-08کے لیے 10 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں اور کام جاری ہے۔‘

4 اگست 2010 کو لوک سبھا میں وزیر مملکت برائے منصوبہ بندی اور پارلیمانی امور، وی نارائن سوامی نے بتایا کہ ناگزیر وجوہات کی بناء پر جامع مسجد کی تجدید کا کام کچھ مدت کے لیے روک دیا گیا تھا، لیکن اب دوبارہ کام شروع کر دیا گیا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے مختص تحفظ کا کام مارچ 2011 تک مکمل کر لیا جائے گا۔

2013 میں جامع مسجد کے تحفظ کا سوال پھر اٹھایا گیا۔ 23 اپریل 2013 کو وزارت ثقافت کے وزیر چندریش کماری کٹوچ نے بتایا کہ ’اگرچہ جامع مسجد آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی محفوظ یادگار نہیں ہے، لیکن حکومت ہند نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعے جامع مسجد کی مرمت کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اے ایس آئی کی ایک ٹیم نے حال ہی میں مسجد کا دورہ کیا ہے اور مسجد کے حکام کے ساتھ مشاورت سے مرمت کے کاموں کی نشاندہی کی ہے۔ تفصیلی تخمینہ تیار ہے اور اس کے بعد تحفظ کا کام شروع کیا جائے گا۔

کیا ہے پورا معاملہ؟

4 جون 2021 کی شام آئی تیز آندھی میں تاریخی جامع مسجد کے مینار سے پتھر کا ایک بہت بڑا ٹکڑا مسجد کے احاطے میں آ گرا اور فرش میں دھنس گیا۔ شکر ہے کہ اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔ اسی واقعہ کے بعد شاہی امام سید احمد بخاری نے 6 جون 2021 کو وزیراعظم کو ایک خط لکھ کر مسجد کی تازہ صورتحال سے آگاہ کروایا کہ دنیا کی اس مشہور جامع مسجد کو مرمت کی اشد ضرورت ہے۔ اس خط میں انہوں نے اس تاریخی عبادت گاہ کی جلد سے جلد مرمت کرانے کے لیے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو ہدایت دینے کی درخواست کی تھی۔

اس خط میں امام بخاری نے وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ مسجد میں بہت سے پتھر خستہ حال ہیں اور اکثر گرتے رہتے ہیں۔ ان پتھروں کے گرنے کی وجہ سے ان کے پاس آس پاس کے پتھروں کی مضبوطی کمزور ہوگئی ہے اور کسی حادثے سے بچنے کے لیے فوری طور پر مرمت کرنے کی ضرورت ہے۔

امام بخاری کے مطابق، مسجد میں کچھ مقامات پر پتھر اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہم نے انہیں رسیوں سے باندھ کر روکا ہوا ہے۔ ہم آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو کئی خط لکھ چکے ہیں، لیکن مناسب جواب نہیں ملا۔ وہیں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جامع مسجد کوئی محفوظ یادگار نہیں ہے، اس لیے مرمت کا کام اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ یہ صرف خصوصی اپیل پر کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک سرکاری اپیل کا تعلق ہے تو انہیں کوئی حکم نہیں ملا ہے۔ اگر حکومت یا وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جامع مسجد کی مرمت کا حکم دیا جائے تو وہ اس کی مرمت ضرور کرائیں گے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 16 اگست 2016 کو امام بخاری نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر جامع مسجد کی فوری مرمت کی درخواست کی تھی۔ اس کے بعد 15 دسمبر2017 کو میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا، ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور دہلی وقف بورڈ کے عہدیداروں نے 14 دسمبر کو جامع مسجد کی عمارت کو پہنچنے والے نقصان کا ابتدائی جائزہ لیا۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ جلد ہی اس عمارت کا تفصیلی سروے کیا جائے گا۔ اس کے بعد عمارت کے تحفظ کے کام کا فیصلہ کیا جائے گا۔

24 اپریل 2018 کو میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ تاریخی جامع مسجد کو محفوظ کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اس خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے جامع مسجد کی تحفظ کا کام 14 سال بعد شروع ہوا ہے۔ کچھ کام سال 2004 میں ہوئے تھے تاہم، اسی خبر میں طارق بخاری کی حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر مسجد کو سیکڑوں سال تک زندہ رکھنا ہے تو سالوں تک باقاعدہ کام کرنا پڑے گا، لیکن اب 10 دن کے کام کے بعد گزشتہ 15 دنوں سے کام بند ہے۔ اس پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک اہلکار نے مزدوروں کی کمی کو مسئلہ قرار دیا۔

لیکن امام بخاری کے اس خط کے 6 مہینے بعد بھی جامع مسجد میں مرمت کا کام شروع نہیں ہوا۔ پورے 6 مہینے بعد 6 دسمبر 2021 کو کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے وزارت ثقافت کے وزیر کشن ریڈی اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر کو خط لکھ کر جامع مسجد کی عمارت کی مرمت کروانے کا مطالبہ کیا۔ وہیں راجیہ سبھا میں مسلم لیگ کے رکن پارلیممنٹ پی وی عبد الوہاب نے 9 دسمبر کو جامع مسجد کی مرمت کا سوال اٹھایا۔ اس سوال پر مرکزی وزیر میناکشی لیکھی نے واضح بیان دیا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے محفوظ یادگاروں کی فہرست میں جامع مسجد کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مرمت، تزئین وآرائش مرکزی حکومت نہیں کرسکتی ہے۔

اس کے بعد اس مسئلے کو 14 دسمبر 2021 کو لوک سبھا میں بی ایس پی کے رکن پارلیممنٹ کنور دانش علی نے بھی اٹھایا۔ انہوں نے ایوان میں کہا کہ ملک و بیرون ملک سے دلی کی شاہی جامع مسجد کو بڑی تعداد میں سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کینیڈا کے وزیر اعظم نے بھی جامع مسجد کا دورہ کیا تھا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسجد کی مرمت کروائے تاکہ اس کی حالت کو مزید خستہ ہونے سے بچایا جاسکے۔

رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے کہا کہ جامع مسجد ہمارے ملک کی تاریخی عمارت ہے جسے دیکھنے دوسرے ممالک سے بھی سیاح آتے ہیں اس سے ہمارے ملک کی شان بڑھتی ہے، لیکن آج مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ جامع مسجد دلی کی حالت بہت خراب ہے جس کی فوری مرمت کروانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس موقع سے یہ بھی بتایا کہ 1956 سے مسلسل 30 سال تک آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اس عمارت کی دیکھ بھال کرتا رہا ہے۔ اس وقت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کا دفتر بھی جامع مسجد دلی کے احاطے میں ہی تھا لیکن پچھلے کئی سالوں سے جامع مسجد کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے بند کر دیا ہے۔ اس کے جواب میں وزارت ثقافت کے وزیر کشن ریڈی نے کہا کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعے 4 ہزار عمارتوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، لیکن دلی کی جامع مسجد اس میں شامل نہیں ہے۔ البتہ اگر ریاستی حکومت کی جانب سے کوئی تجویز ہمارے پاس آتی ہے تو ہم اس پر کام کرسکتے ہیں۔

اب وقف بورڈ کروائے گا مرمت کے کام

ان سب کے درمیان اچھی خبر یہ ہے کہ دہلی وقف بورڈ نے جامع مسجد کی مرمت کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وقف سیکشن آفیسر محفوظ محمد کے مطابق تحفظ کا منصوبہ ابتدائی مرحلے میں ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے انجینئروں کی ٹیم کے ساتھ جامع مسجد کا دورہ کیا اور شاہی امام سید احمد بخاری سے ملاقات کرکے اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔ امانت اللہ خان کے مطابق انجینئروں کی ٹیم اب تک دو سروے کرا چکی ہے اور تیسرا سروے جاری ہے جو جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی تک کے سروے میں جو سب سے اہم بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ جامع مسجد کا ڈرینج سسٹم ٹھیک نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسجد کے حصوں سے پانی کے رساؤ اور پتھروں کے گرنے سمیت دیگر کئی مسائل درپیش ہیں۔ یہاں پہلے ہونے والے مرمتی کاموں میں خامی پائے جانے اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ کیے گئے کاموں کی صحیح طریقہ سے نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ہم جامع مسجد کا ڈرینج سسٹم ٹھیک کرائیں گے۔ عنقریب ہی اس کا ٹینڈر جاری ہوجائے گا، جس کے بعد یہاں کام شروع کردیا جائے گا۔

ان کے مطابق ڈرینج سسٹم کو درست کرنے میں تقریباً دو کروڑ تک خرچ آئے گا۔ وہیں جامع مسجد کی مرمت، تزئین و آرائش کے کام میں 30-40 کروڑ روپے خرچ ہوں گے لیکن بہرحال اس کام کو ضرور پوراکیا جائے۔

کتنی ہوتی ہے جامع مسجد کی آمدنی؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سال 2014 تک شاہی امام جامع مسجد کو اپنی خاندانی ملکیت سمجھتے تھے لیکن سال 2015 میں انہوں نے 2006 سے 2014 تک یعنی پورے 9 سال کی آمدنی کی تفصیلات دہلی وقف بورڈ کو جمع کرائی تھیں۔ کیا آگے بھی انہوں نے اپنی آمدنی کی تفصیلات وقف بورڈ کو سونپی ہیں؟ یہ رپورٹ لکھے جانے تک راقم الحروف کو اس سوال کا جواب نہیں مل سکا ہے۔

دعوت کے نمائندے کو سال 2015 میں دہلی وقف بورڈ کی طرف سے ملے دستاویزات کے مطابق سال 2006 تا 2014 یعنی 9 سالوں میں 2 کروڑ 36 لاکھ 61 ہزار 365 روپے جامع مسجد کو آمدنی ہوئی تھی۔ اس خبر سے دنیا کو سب سے پہلےہم نے ہی باخبر کیا تھا۔

ان دستاویزات سے معلوم ہوا کہ 2006 سے 2014 کے درمیان جامع مسجد کی آمدنی میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ سال 2006 میں مسجد کی آمدنی 12 لاکھ 45 ہزار 38 روپے تھی جبکہ 31 مارچ 2014 کو ختم ہونے والے سال میں مسجد کی آمدنی 41 لاکھ 7 ہزار 663 روپے تھی۔

سال 2013-14کے دوران صرف میناروں کی فیس سے 12 لاکھ 19 ہزار 50 روپے آمدنی ہوئی تھی۔ وہیں جمعہ کی نمازوں میں 9 لاکھ 16 ہزار 265 روپے بطور چندہ وصول ہوئے تھے۔ مسجد کی پارکنگ سے 7 لاکھ 65 ہزار 550 روپے آمدنی ہوئی تھی، جبکہ مسجد میں غیر ملکیوں کے کیمرے لے جانے کی فیس سے 12 لاکھ 4 ہزار 500 روپے کی آمدنی ہوئی۔ مزید یہ بھی پتہ چلا کہ سال 2015 میں مسجد کے خزانے میں 20 لاکھ 74 ہزار 348 روپے بطور کارپس فنڈ موجود تھے۔

یاد رہے کہ وقف بورڈ کے قواعد کے مطابق کسی وقف کی جائیداد سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 7 فیصد حصہ وقف بورڈ کو پہنچنا چاہیے، اس حساب سے جامع مسجد کی آمدنی سے 2006 سے 2014 کے درمیان وقف بورڈ کو 16 لاکھ 56 ہزار 295 روپے وصول شدنی ہیں۔ اس وقت امام مسجد نے دہلی وقف بورڈ سے کچھ رعایت دینے کی درخواست کی تھی۔ ان کی درخواست کو رعنا پروین صدیقی دہلی وقف بورڈ کی چیئرمین نے قبول کرتے ہوئے اس رقم کو 7 فیصد کے بجائے 3 فیصد کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وقف بورڈ جامع مسجد کے اخراجات کے لیے کچھ بھی رقم جاری نہیں کرتا۔

فتح پوری مسجد کی حالت بھی قابل رحم

صرف جامع مسجد ہی نہیں، دہلی کی شاہی دور کی مشہور تاریخی فتح پوری مسجد بھی آج بدحال اور خستہ حال ہے۔ یہ بھی اسی دور کی مسجد ہے، جس دور کی جامع مسجد ہے۔ لیکن اس جانب کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب تک کسی بھی سرکاری ادارے کی جانب سے مسجد میں مرمت کا کام نہیں کرایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کچھ میناریں ٹوٹ کر جھک گئی ہیں، اس میں پیڑ پودے اگ آئے ہیں۔ مسجد کے ستون بھی کمزور پڑرہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس مسجد کے چھت کے پلاسٹر کا کچھ حصہ بھی ٹوٹ کر زمین میں آ گرا ہے، جس کے بعد مسجد کے ایک حصہ کو بند کردیا گیا۔ دالانوں کے پتھر کی سمینٹ بھی گر گئی ہے۔ دیواروں میں دراڑیں آ چکی ہیں۔ مسجد میں محراب کے کچھ حصہ بھی پہلے ہی گر چکے ہیں۔ آج مسجد کے حالات ایسے ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔

اس مسجد کے شاہی امام مفتی مکرم کا کہنا ہے گزشتہ چار سو سال میں اسے دیکھنے کوئی نہیں آیا۔ ہم مسجد کی مرمت کے لیے مرکزی و ریاستی حکومتوں کے سرکاری اہلکاروں کو متعدد بار خطوط لکھ چکے ہیں، لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

یہ مسجد دہلی وقف بورڈ کی نگرانی میں ہے۔ امام مفتی مکرم دہلی وقف بورڈ کو کئی خط لکھ چکے ہیں، لیکن ابھی تک وقف بورڈ کی طرف سے کچھ اقدام نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برسوں کی بے توجہی نے آج مسجد کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔ دہلی وقف بورڈ کو اس بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔ ہم عرصہ دراز سے وقف بورڈ کو ان حالات سے آگاہ کراتے آرہے ہیں۔ یہی نہیں، مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو بھی اس کی خستہ حالی سے آگاہ کیا تھا، تاکہ مرکزی وقف کونسل اس جانب کوئی توجہ دے، لیکن انہوں نے بھی کوئی مدد نہیں کی۔

مفتی مکرم کا صاف طور پر کہنا ہے کہ اگر اس وقت گرتی ہوئی عمارت کو روکا نہیں گیا تو نشان بھی نہیں بچے گا۔ خیال رہے کہ مفتی مکرم سال 1971 سے اس شاہی مسجد کے امام ہیں۔

امام مفتی مکرم کے مطابق سال 2012 میں منموہن سنگھ کے دور حکومت میں آرکیالوجکل سروے آف انڈیا کے لوگ آئے تھے۔ دراصل حکومت نے سوامی ویویکانند ٹرسٹ کو 150 کروڑ روپئے الاٹ کئے تھے، آرکیالوجکل سروے آف انڈیا نے جن میں سے 6 کروڑ روپئے کا کچھ کام فتحپوری مسجد میں کیا تھا۔ اس وقت مسجد کے صحن میں بیوٹیفیکیشن کے نام پر لوہے کی جالیوں کو ہٹا کر سمینٹ کی نقش کاری والی کچھ جالیاں لگائی گئی تھیں۔ لیکن انہوں نے مسجد کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ آج عالم یہ ہے کہ ان کی جانب سے لگائی گئی یہ جالیاں بھی ٹوٹ رہی ہیں۔ انہیں گرنے سے بچانے کے لئے لوہے کی پتلی تاروں کا سہارا لیا گیا ہے۔

آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ گزشتہ دنوں لال قلعہ سے لے کر مسجد فتح پوری تک تزئین کاری کا کام کیا گیا ہے، لیکن اس وقت بھی شاہی مسجد کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ تو سوال ہے کہ حکومتیں اسے نظر انداز کیوں کر رہی ہیں؟ آخر وقف بورڈ کو اس کی مرمت کے کام میں دلچسپی کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال اس ملک کے مسلمانوں کو دہلی وقف بورڈ سے ایک بار ضرور پوچھنا چاہیئے۔

***

 جامع مسجد مغلیہ سلطنت کا تعمیر کردہ نہ صرف تعمیری و مذہبی اثاثہ ہے بلکہ بیرون ملک یہ ہندوستان کی ایک پہچان بھی ہے۔ اس کی یہی پہچان ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ایک نئی بلندی اور پوری دنیا میں ملک کو ایک خاص مقام عطا کرتا ہے۔ یہ اس ملک کے مسلمانوں کے عظمت رفتہ کی بھی نشانی ہے۔ ایسے میں اس عمارت کے ساتھ بے رخی یا سوتیلا سلوک نہ صرف حکومت ہند کی کارکردگی پر سوال ہے بلکہ پورے ملک کی جمہوری سوچ پر بھی ایک بڑا سوال ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022