ایم آئی شیخ
صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہودنیاکی زمام حکومت
حق نے عالم یہ صداقت کے لیے پیداکیا
اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیداکیا
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کبھی بھی، کہیں بھی برے لوگوں کی قیادت میں صالح معاشرہ قائم نہیں ہواہے۔عربی میں ایک کہاوت ہے۔ ’لوگ اپنے حکمراں کے دین(طریقے) پر ہوتے ہیں‘۔میں آج آپ کو ایک انوکھا مگر آنکھ سے اوجھل ہو چکےعنوان کی جانب توجہ مرکوزکراناچاہتاہوں۔جس کے لیے میں آپ سے ایک سوال پوچھوں گا کہ دنیا کے سامنے اصل مشکل اورچیلنجس کیاہیں۔جس کے کئی جواب ہوسکتے ہیں۔غریبی، بے روزگاری،صحت، شراب، منشیات،دہشت گردی، عدم مساوات، امیر غریب کے بیچ کی معاشی کھائی، جنگ وغیرہ۔مگر ان میں سے ایک بھی اصل مسئلہ نہیں ہے۔دنیا کی اصل مشکل کیاہے؟ اس کی طرف جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودی ؒنے اشارہ کیاہے۔انہوں نے بہت پہلے مسلمانوں کی توجہ مبذول کروائی تھی جو آج ہمارے ذہنوں سے محو ہوچکی ہے۔
مولاناابوالاعلیٰ مودیؒ کے مطابق نافرمانوں اور گنہگاروں کی امامت ہی اصل پریشانی کاسبب ہے۔چونکہ یہ بہت ہی اہمیت کاحامل موضوع ہے اس لیےمن و عن مولاناکے الفاظ نقل کرتاہوں۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودی فرماتے ہیں :’’ہماری جدوجہد کاآخری مقصد انقلابِ امامت ہے۔یعنی دنیا میں جس انتہائے منزل پر پہنچناچاہتےہیں وہ یہ ہے کہ نافرمانوں اور گنہگاروں کی امامت ختم ہو کر اچھی اور نیک امامت کانظام قائم ہو اور اسی جدوجہد کوہم دنیا اور آخرت میں اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کاذریعہ سمجھتے ہیں‘‘۔
یہ چیز جسے ہم نے اپنا مقصد قراردیاہے،افسوس ہے کہ آج اس کی اہمیت سےمسلم اور غیر مسلم تمام غافل ہیں۔مسلمان اسے صرف ایک سیاسی مقصد سمجھتے ہیں اور انہیں کچھ احساس نہیں ہے کہ دین میں اس کی کیااہمیت ہے۔غیر مسلم کچھ تعصب کی وجہ سے اور کچھ جانکاری کی کمی کی وجہ سے اس حقیقت کو جانتے ہی نہیں ہیں کہ دراصل نافرمانوں اور گنہگاروں کی قیادت ہی انسانی سماج کے مصیبتوں کی جڑہے اور انسان کی بھلائی کاسارادارومدار اسی بات پر ہے کہ دنیا کی زمام حکومت نیک لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں۔
آج دنیا میں جو بگاڑ،ظلم اورسرکشی کاماحول گرم ہے اور دنیا بھر میں انسانی اخلاق میں جو گراوٹ آئی ہے، انسانی تہذیب، کاروبار ،معیشت اور سیاست کی رگ رگ میں جو زہرپھیل گیا ہے، زمین کے تمام ذرائع اور انسانی علم کے ذریعے تلاش کی گئی ساری قوتیں، جس طرح انسان کی بھلائی کے بجائے اس کی تباہی کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ان سب کی ذمہ داری اگر کسی پر ہو تو وہ یہی ہے کہ دنیا میں چاہے نیک لوگوں کی کمی نہ ہوں، مگردنیا کے معاملات ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہیں، بلکہ خدا سے پھرے ہوئے دولت کے پجاریوں اوربرے کام میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
اب اگر کوئی آدمی دنیاکاسدھارچاہتاہواور تباہی کو بھلائی سے بدامنی کوامن سے بدکرداریوں کو خوش کردار سے اور برائیوں کو بھلائی سے بدلنے کاخواہشمند ہوتو اس کے لیےصرف نیکوں کی تقریر، خداپرستی کی نصیحت اور حسن اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے۔بلکہ اس کا فرض ہے کہ انسانی سماج میں جتنی اچھی اور نیک چیزیں اسے مل سکیں انہیں ملاکروہ اجتماعی قوت اکٹھاکرے جس کے ذریعے تہذیب کی باگ ڈور نافرمانوں کے ہاتھوں سے لیکر امامت کے نظام میں بدلاؤ لایاجاسکے۔
قیادت کی اہمیت
انسانی زندگی کے معاملے میں جسے تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ حاصل ہے وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو سکتا کے انسانی معاملے کے بناؤ بگاڑ کاآخری فیصلہ جس مسئلے پر موقوف ہے وہ یہ ہے کہ انسانی معاملوں کی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں ہے۔
جس طرح گاڑی ہمیشہ اسی رخ میں چلاکرتی ہے جس رخ میں ڈرائیور اسے لے جاناچاہتاہے۔دوسرے لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہیں چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی اسی سمت میں سفر کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں جدھر ڈرائیور گاڑی لے جاتاہے۔ٹھیک اسی طرح انسانی تہذیب کی گاڑی بھی اسی رخ پر سفر کیاکرتی ہے جس رخ میں وہ لوگ لے جاناچاہتے ہیں۔جن کے ہاتھ میں تہذیب کی نکیل ہوتی ہے۔
یہ رہنااور فرمان جاری کرنے والے اور خداپرست اور نیک لوگ ہوں تو اپنے آپ زندگی کاسارانظام خداپرستی ، خیر اور بھلائی پر چلےگا۔برے لوگ بھی اچھے بننے پر مجبور ہوں گے ،بھلائیاں پھیلیں گی اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں توکم سے کم بڑھ بھی نہیں سکیں گی۔
لیکن اگر قیادت اور حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو خداسے منہ موڑے ہوئےاور نافرمانی اور بدکارریوں میں ڈوبے ہوئے ہوں تو اپنے آپ زندگی کاسارانظام خداسے بغاوت، ظلم اور بداخلاقی پر چلےگا۔خیالات اور نظریات ، علم اور ادب، سیاست اور کاروبار، معاشرہ او راس کی تہذیب، اخلاق اور معاملات، انصاف اور قانون سب کےسب پوری طرح بگڑجائیں گے۔برائیاں پنپیں گی اور بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے ، ہوا،پانی اور کھانادینے سے انکار کردیگی اور خداکی زمین ظلم سے بھرجائے گی۔ایسے نظام میں برائی کی راہ پر چلناآسان اور بھلائی کی راہ پر چلناتودوراس پر قائم رہنابھی مشکل ہوجائے گا۔
جس طرح آپ نے کسی بڑی بھیڑ میں دیکھا ہوگا کہ ساری بھیڑ جس طرف جارہی ہواس طرف چلنے کے لیے توآدمی کوکچھ طاقت لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ بھیڑ کی طاقت سے اپنے آپ اسی طرف بڑھتا چلاجاتاہے جس طرف بھیڑچلی جاتی ہے۔اسی طرح انتظامی نظام میں بھی جب برے لوگوں کی قیادت میں کفر اور نافرمانی کی راہوں پر چلناپڑتا ہوتو لوگوں اور گروہوں کے لیے غلط راہ پر چلناتو اتنا آسان ہوجاتاہے کہ انہیں خود سے اس پر چلنے کے لیے کچھ زور لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔لیکن اس کی الٹی طرف اگر کوئی چلناچاہے تو وہ بہت زور مار کر بھی مشکل سےچند قدم چل سکتاہے۔اور جتنا وہ چلتاہے بھیڑکاایک ہی ریلااس سے کئی گنازیادہ پیچھے دھکیل دیتاہے۔
یہ بات جو میں آپ سے عرض کررہاہوں کوئی نئی فکری حقیقت نہیں ہے کہ جسے ثابت کرنے کے لیے دلیلوں کی ضرورت ہو بلکہ واقعات نے اسے ایک ظاہر حقیقت بنادیا ہے جسے کوئی بھی دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والا آدمی انکار نہیں کرسکتاہے۔
آپ خود ہی دیکھ لیں پچھلے ایک صدی کے اندر ہمارے ملک میں کس طرح خیالات و نظریات بدلےہیں، مزاج بدلے ہیں،سوچنے اور دیکھنے کاانداز تبدیلی ہواہے۔تہذیب اور اخلاق کے میعاربدلے ہیں ، قدروقیمت کے پیمانےبدلے ہیں، زندگی کے طریقےاور معاملات کےڈھنگ بدلے ہیں کون سی چیز ہے جو بدلنے سے رہ گئی ہو۔؟
یہ سارا بدلاؤ جو دیکھتے دیکھتے ہماری اس سرزمین پر ہواسکی اصل وجہ آخر کیاہے؟
کیاآپ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور بتا سکتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں باگ ڈور تھی حکوموت پر جن کاقبضہ تھا انہوں نے پورے ملک کے خلاف اور ذہنوں کو ، نفسیات اور معاملات کو اور نظام تمدن کو اس سوچ میں ڈھال کررکھ دیاجو ان کی اپنی پسند کے مطابق تھا۔پھر جن طاقتوں نےاس بدلاؤ کی مخالفت کی ذراناپ تو ل کر دیکھیے کہ انہیں کتنی کامیابی اور ناکامی ملی؟
کیایہ سچائی نہیں ہے کہ کل جو لوگوں کو روکنے کی تحریک کے علمبردار تھے آج ان کی اولاد وقت کے بہاؤ میں بہتی جارہی ہے اور ان کے گھروں تک میں بھی وہی سب کچھ پہنچ گیا ہے جو گھروں سے باہر پھیل چکا ہے کیایہ سچائی نہیں ہے کہ اب علماءتک کی نسل سے وہ لوگ سامنے آرہے ہیں جنہیں خداکے وجود اور رسالت میں بھی شک ہے؟
اتنا کچھ دیکھنے اور تجربہ کرنے کے بعد بھی کیاکسی کو اس حقیقت سے انکار ہوسکتا ہے کہ انسانی زندگی کے مسئلوں میں اصل اور سب سے اہم مسئلہ قیاد ت کا مسئلہ ہے اور یہ اہمیت اس معاملے نے آج ہی نہیں اختیاری کرلی بلکہ ہمیشہ سے ہی اس معاملے کی یہی اہمیت رہی ہے۔
’لوگ اپنے بادشاہ کے دین (طریقے)پر ہوتے ہیں‘ اور اسی وجہ سےحدیثوں میں قوموں کے بناؤ وبگاڑ کاذمہ دار ان کے علماء اور حکومت کرنے والوں کو بتایاگیاہے۔کیوں کہ قیادت کی باگ ڈور انہیں کےہاتھوں میں ہوتی ہے۔
صالح قیادت اسلام کااصل مقصد
اوپر بیان کی گئی باتیں پڑھنے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ دین میں اس مسئلے کی اہمیت کیاہےَظاہر ہے کہ اللہ کادین پہلے تو یہ چاہتاہے کہ لوگ پورےطور پر حق کے ماننے والے بن کر رہیں اور ان کی گردن میں اللہ کےسواکسی اور کی بندگی کاطوق نہ ہو۔
اس کے بعد اللہ یہ چاہتاہے کہ اسی کاقانون لوگوں کے زندگی کاقانون بن کر رہے ۔اس کے بعد اس کامطالبہ یہ ہے کہ زمین سے فساد مٹے اور برائیاں ختم ہو۔جو کہ زمین والوں پر اللہ کے غضب کی وجہ بنتی ہیں۔اور ان بھلائیوں کوبڑھادیاجائے جو اللہ کو پسند ہیں۔
ان تمام مقاصد میں سے کوئی بھی مقصداس طرح پورانہیں ہوسکتا کہ انسان کی قیادت گمراہ لوگوں کے ہاتھوں میں ہو اور دین حق کےماننے والے ان کے ماتحت رہ کر ان کے ذریعےدی گئی رعایتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بس صرف خداکو یاد کرتے رہیں۔(اقتباس تقریر: سید ابوالاعلیٰ مودودی، 24اپریل 1945 ہروارا، الہ آباد، یوپی، رداد جلد3)
ملک میں باکردار قیادت اور اس کی پرامن تبدیلی کی بہترین مثال جماعت اسلامی ہند پیش کرتی آئی ہے۔آپ نے دیکھا کہ چھ اپریل 2019 کو جماعت اسلامی ہند کی مرکزی قیادت کس شاندار طریقے سے تبدیل ہوئی۔خاص کر ملک ہی نہیں پورےبرصغیر میں ایسی کوئی جماعت نہیں جس میں قیادت کے جھگڑے نہ ہوں۔جس کے دوطبقے نہ ہوئے ہوں۔لیکن جماعت اسلامی ہند ان سب چیزوں سے مبراہے۔ جماعت میں ممکن ہے کہ سبکدوش ہونے والا بھی شکر کے جذبے سے بھرابھراہو اور آنے والا بھی ذمہ داری کے جذبے سے جھکاجھکاہو۔اس خصوصیت پر بھی قارئین کو غور کرناچاہیے۔ایسی ہی تبدیلی عالمی سطح پر اقتدار میں بھی ہونی چاہیے تب جاکر دنیا انسانوں کے رہنے کے لائق جگہ بنے گی ورنہ آج اس کی کیاحالت ہے وہ ہم سے مخفی نہیں ہے۔
آخر میں دعا ہےکہ ہمارے وطن عزیزکی مرکزی قیادت میں بھی اللہ نیک لوگوں کو چننے کی ہم کو اور اہل وطن حضرات کو توفیق دے۔آمین
***
***
’’ہماری جدوجہد کاآخری مقصد انقلابِ امامت ہے۔یعنی دنیا میں جس انتہائے منزل پر پہنچناچاہتےہیں وہ یہ ہے کہ نافرمانوں اور گنہگاروں کی امامت ختم ہو کر اچھی اور نیک امامت کانظام قائم ہو اور اسی جدوجہد کوہم دنیا اور آخرت میں اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کاذریعہ سمجھتے ہیں‘‘۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اپریل 2022