اسلامو فوبیا اور میڈیا
موثر حکمت عملی کے ذریعہ اسلام مخالف پروپگنڈے کو بے اثر کرنے کی ضرورت
فاطمہ تنویر ،نئی دلی
پچھلی کچھ دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے کچھ مخصوص قسم کی اصطلاحیں وجود میں آئی ہیں۔ انہی میں سے ایک اصطلاح اسلاموفوبیا بھی ہے ۔فوبیا یعنی کسی چیز کا ڈر اور خوف۔ اسی سے لفظ اسلاموفوبیا بنا اور یہ نئی اصطلاح شروع ہوئی۔ویکیپیڈیا میں اس کا معنی دیکھیں تو یہ سیاسی طور پر اسلام کے خوف کو کہتے ہیں یعنی یہ ڈر کہ اسلام پوری دنیا میں چھا جائے گا اور کچھ دنوں بعد اسلامی حکومت ہوگی اسی کا نظام چلے گااور بقول امریکی وزیر خارجہ جان کیری ’’ دنیا کی تاریخ اسلامی خلافت کی نگرانی میں لکھی جائے گی‘‘۔اسی طرح آکسفورڈ کی ڈکشنری میں بھی ’’اسلام کے ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھرنے کا ڈر اور خوف ‘‘ کواسلامو فوبیا کہا گیا۔
یوں تو ہم جانتے ہیں کہ فوبیا کسی چیز سے بہت زیادہ ڈر جانے اور خوف کھانے کا نام ہے خواہ حقیقت میں ایسا ہویا نہ ہو گویا انجانا سا خوف اور ڈر جو دل و دماغ اور اذہان پر چھا جائے، اسے فوبیا کہتے ہیں۔مثلاً ہم نے دیکھا ہے کبھی کبھی لوگ بہت بلندی پر پر جانے سے یا پانی میں گرنے سے یا کسی اور چیز سے خوف کھاتے ہیں بعض لوگ کسی چکر والی گول چیز سے ڈرتے ہیں مثلا جھولے وغیرہ سے۔ یہ تمام چیزیں تو ہم اکثر محسوس کرتے، سنتے اور جانتے ہیں لیکن کوئی مذہب کوئی نظریہ یا کوئی فکر فوبیا بن جائے یہ بات سمجھ سے پرے ہے اسےموجودہ دور کا المیہ کہیں یا سازش کہ یہ حملہ مذہب پر کیا جا رہا ہے اسے ایک خاص مذہب اسلام سے جوڑ کر اسلامو فوبیا کا نام دیا جا رہا ہے اوریہ اس لیے کہ اسلام پوری دنیا میں چھا جائے گا کیونکہ وہ اپنے اندر بے پناہ جاذبیت اور کشش رکھتا ہے نیز اسلام کی تعلیمات اسلام کے اصول و قوانین مثلاً رواداری، انسان دوستی، غرباء پروری ،امن و آشتی، اخوت اور محبت بھائی چارگی عورتوں کے ساتھ انصاف ،والدین کے ساتھ حسن سلوک ،بوڑھوں اور بچوں کے حقوق وغیرہ جیسی تمام اخلاقی قدروں پر بھلا کسی کو کیسے اعتراض ہو سکتا ہے؟لیکن اسکے باوجود بھی اسلام کے درپے ہونا صرف اور صرف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آج ساری دنیا کو اسلامی تہذیب و کلچر،اسلامی تعلیمات کے چھا جانے اور دنیا کے اس کی طرف راغب ہوجانے کا ڈر اور خوف ہے اور یہ ڈر اور خوف کس کو ہے؟ ان غالب تہذیبوں کو ہے جو خود اپنے مذہب کے اصول اور قوانین اور ضابطہ حیات کو بالائے طاق رکھ کر دنیا میں من مانی کرتی پھر رہی ہیں جنہوں نے تانا شاہی اور ملوکیت کے پہلو میں پناہ لے رکھی ہے۔
ان غالب تہذیبوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کے شرارتی اور گھناونے اصولوں کو خطرہ صرف اور صرف اسلام سے ہے اس لیے وہ اسلام کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے عوام میں دہشت پھیلا رہی ہیں اور خوف و ہراس کا ماحول گرم کر رہی ہیں چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں پچھلے چالیس پچاس سالوں سے بہت ہی منظم طریقے اور چالاکی کے ساتھ ایسے طریقے اپنائے جا رہے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کو مختلف مسائل میں الجھا کر رکھا جاے اور ہر طرف یہ پروپیگنڈہ کر دیا جائے کہ اسلام ایک دہشت گرد مذہب اور مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہے ۔ پوری دنیا میں نیز ہمارے ملک عزیز میں یہ بات طے شدہ ایجنڈے کے تحت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مسلسل انجام دی جارہی ہے چناں چہ الگ الگ طریقے اپنا کر کبھی فسادات کے ذریعے کبھی سلسلہ وار بم دھماکوں کے ذریعے مسلمانوں کو بد نام کر کے اور کبھی بڑی بڑی تنظیموں کے ناموں سے جوڑ کر کبھی محلوں اور بازاروں میں اسپتالوں اور مندر و مسجد میں حملے کے ذریعے سے یہ ڈر اور خوف پیدا کی جاتا ہے کہ مسلمان ایک دہشت گرد قوم اور اسلام ایک دہشت گرد مذہب ہے اور دنیا سےدہشت گردی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے ۔اسی کی آڑ میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
اسلام کی کچھ اصطلاحوں کو مثلاً لفظ ’جہاد‘ کو اس طرح سے سے غلط معنی دیے گئے کہ اس کی شبیہ بگڑ گئی اسے کبھی لو جہاد تو کبھی کورو نا جہاد کے نام سے بد نام کیا گیا ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں کو گئو کشی کے الزام میں مارا پیٹا اور دہشت پھیلائی گئی۔ ان تمام واقعات اور پوری دنیا میں اس طرح کے بڑے پیمانے پر سازشی اقدامات کو ہم دیکھیں تو انہیں صرف کچھ واقعات سمجھ کرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ایک مرض اور بیماری ہے جو کسی وبا کی طرح تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ ہم جب اس کی گہرائی میں جا کر جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام اس وقت پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن کر ابھرا ہے مثلاً فرانس ، پولینڈ اور امریکا وغیرہ میں اسلام تیزی سے پھیل رہاہے لہذا آج کے دور کا یہ سب سے بڑا چیلنج ہے اور غالب قومیں اس سے خطرہ اور ڈر محسوس کررہی ہیں ان کی نظر میں اگر اسےنہیں روکا گیا تو یہ ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
اسی کے پیش نظرآج مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی دونوں طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہے لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی دہشت پھیلائی جاتی ہے تو اس میں سیاسی طور پر بڑے بڑے سیاست داں ملوث پائے جاتے ہیں، کسی بھی فساد اور اور ہنگامے کے پیچھے بہت بڑا جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے اوراس سے عوام کی معاشی حالت بہت کمزور ہوجاتی ہے اور وہ اس کی تلافی میں کافی پیچھے چلے جاتے ہیں لیکن انکے لیے یہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہے۔
اسلام کے تئیں جو ڈر اور خوف پھیلایا جا رہا ہے اس میں میڈیا ایک اہم رول ادا کر رہا ہے خواہ مغربی میڈیا ہو یا ہمارے ملک کا میڈیا دونوں ہی اس میں شامل ہیں میڈیا کو خرید لیا گیا ہے اس سے وہی خبریں نشر ہوتی ہیں جن کو سیاسی رہنماؤں کی طرف سے گرین سگنل ملا ہوتا ہے۔ ایک خاص مذہب سے متعلق واقعات کویا کسی ایشو کو بڑھا چڑھاکر بار بار دکھانا اسکرین پر اسے دہراتے رہنا اس سے عوام کے ذہن کو بری طرح متاثر کیا جاتا ہے اور ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا تی ہے ، اس کام کے لیے میڈیا کو پورا تعاون ملتا ہے وہ جس کو چاہے ملزم قرار دے ،جس اصطلاح کو چاہے خبروں میں لائے۔ مثلاً پچھلے دنوں کورونا وبا کے دوران کورونا جہاد اور مسلمانوں کو خصوصاً ایک مخصوص جماعت کو کورونا جہادی کہہ کر اس قدر فضا کو مکدر کیا کہ بس ۔۔
تو یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ میڈیا سچائی پر مبنی نہیں ہے وہ کیا کیسے اور کہاں سے دلائل لارہا ہے اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے۔وہ نڈر ہوکر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنا کام کرتا ہے البتہ سوشل میڈیا ، فیس بک یا ٹوئٹر کے ذریعے کبھی کبھی حقیقت سامنے آجاتی ہے لیکن اس پر بھی شکنجہ کسا جاتا ہے اور ایسے صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور ناحق مقدمات میں انہیں پھنسا دیا جاتا ہے ۔ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہنی ضروری ہے کہ اگر عالم اسلام کے تمام مسلمانوں نے متحد ہو کر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے نہیں سمجھا اوراسکی تہ میں اتر کر آنے والے وقت کے لیے ٹھیک ٹھیک منصوبہ بندی نہیں کی تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کیا چیز کارفرما ہے؟ بار بار اس حساس موضوع کو چھیڑنا اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچانا اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے تئیں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی ایک زندہ مثال ہے ۔بار بار یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ مسلمان دنیا میں سب سے پچھڑی اور تنگ نظر قوم ہے ۔ اکثر مسلمان عورتوں کو نشانہ بنا کر کبھی ان کے اسکارف پر حملے کر کے کبھی ان کے انسانی حقوق کو پامال کر کے انہیں پردہ کرنے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے ۔کبھی کھلے عام مسلمانوں پر زہر اگلا جاتا ہے اور مغربی میڈیا ہو یا اندرون ملک کا میڈیا کھلے عام زہراگل رہے ہیں۔ نفرت کے ماحول کو اور زیادہ گرم کر رہے ہیں ان حالات میں مسلمانوں کو متحد ہوکر ’نیل کے ساحل سے لےکر تابخاک کاشغر ‘ ان طاقتوں کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنا اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلا ی جا رہی ہیں انہیں دور کرنا چاہیے، لوگوں سے مل کر ان کے اندر سے نفرت کو ختم کرنا چاہیے ۔حالات خواہ کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوں ہمت نہیں ہارنی چاہیے بقول علامہ اقبال
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
ہمیں طائف اور بدروحنین کو سامنے رکھتے ہوے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے سبق لینا چاہیے حالات سےنا امید نہ ہوکر لوگوں کے سامنے انسانی حقوق ،خواتین کےحقوق ، اسلامی حکومت اور سوسائٹی میں غیر مسلموں کے حقوق کو بتانے کی ضرورت ہے مثال کے طور پر مدینہ سوسائٹی کا نمونہ پیش کرنا چاہیے تاکہ لوگ اس خوف ودہشت سے باہر نکلیں کہ اسلام ان کے لیے خطرہ ہے۔ایک اہم کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ تمام عالم اسلام کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ متحد ہو کر سامنے آئیں اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہوں ۔نیز اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور ہر ایک یہ سمجھے کہ ذمہ داری اسی کی ہے۔ آج جو کچھ دوسروں کے ساتھ ہورہا ہے خواہ وہ بھیڑ کے ذریعے کیے گئے حملے ہوں یا کسی سازش کے تحت مسلم نوجوانوں کو پھنسا کر انہیں فسادات کے الزام میں گرفتار کرنے کی بات ہو،ہم اس پر خاموش بیٹھے رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ آج وہ تو کو کل ہماری باری ہو سکتی ہے۔ لہذا ہمیں اپنی حکمت عملی بنانی ہوگی اور کچھ اقدام کرنا ہوگا ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 30 جنوری تا 5فروری 2022