اسلام میں حقوق نسواں کا مکمل تحفظ

شریعت کے تابع رہ کر خواتین کو ہرکام کرنے کی آزادی

حمیرا علیم

اکثر اہل مغرب اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو قید کردیا ہے اور اس کے حقوق غصب کر لیے ہیں ۔اور عورت ایک باندی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ہم نے اپنی عورت کو آزادی دی ہے وہ ہر معاملے میں آزاد ہے ۔اور ہماری مسلم خواتین خصوصاً مشرقی خواتین اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اپنے آپ کو مظلوم ترین مخلوق سمجھتی ہیں۔
الحمدللہ میں ایک مسلمان عورت ہوں۔اور یہ اچھی طرح سے جانتی ہوں کہ جتنے حقوق اسلام نے ہمیں1400 سال پہلے دیے ہیں اتنے 2020 میں بھی کسی مغربی خاتون کو حاصل نہیں نہ ہی کبھی ہوں گے۔ اللہ تعالٰی نے پوری ایک سورت النساء عورتوں کے لیے نازل فرمائی۔ سورہ نور اور دوسری بہت سی سورتوں میں عورتوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔
آئیے پہلے قرآن و حدیث کی روشنی میں انکا جائزہ لیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ مسلم معاشرے اور حکمرانوں نے کیسے ان احکام پر عمل کیا اور انکا نفاذکیا۔
اسلام کہتا ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔اگر اولاد والدین کی خدمت کرے گی تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے:والدین ، رشتے داروں، یتیموں مسکینوں سے نیک سلوک کرو۔‘‘)سورہ البقرہ آیت 83)
’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔اگر ان دونوں میں ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو۔اور نہ انہیں جھڑکواور ان سے نرمی سے بات کرواور محبت سے ان کے سامنے جھک جاؤاور ان کے لیے دعا کرو یہ کہہ کر: اے رب! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پالا تھا‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل 23-24)
حدیث میں ماں کا رتبہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
’’ایک شخص نے دریافت کیا ’’اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے۔آپ نے فرمایا :’’ تیری ماں ‘‘۔
پھر عرض کی ’’اس کے بعد؟ ’’ فرمایا’’ تیری ماں ‘‘ ۔
عرض کی ’’ پھر اس کے بعد؟ ’’ آپؐنے فرمایا ’’تیری ماں ‘‘۔
کہا’’ پھر کون؟’’ فرمایا ’’ تیرا باپ ‘‘
اب دیکھتے ہیں کہ بطور بیوی عورت کو کیا حقوق دیئے گئے ہیں ۔
’’ عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کرو‘‘ )النساء 4)
’’ اور عورتوں کا حق ایسا ہی ہے کہ جیسے دستور کے مطابق مردوں کا عورتوں پر ہے‘‘(البقرہ 228: )
’’ اور عورتوں سے معروف طریقے سے نباہ کرو۔‘‘ (النساء 19)
’’ تم نے ان کو بہت سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو‘‘(النساء20:)
’’ مرد عورتوں کے کفیل ہیں۔اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘( النساء 34)
’’اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔‘‘ (النساء 3)
جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو۔دو، تین اور چار سے۔اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔‘‘(النور 32)
’’ تمھارے لیے حلال نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی وارث بن جاؤ اور اس مقصد سے روکو کہ جو مہر تم دے چکے ہو اس کا کچھ حصہ واپس لے لو۔‘‘ النساء 20
’’ اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری لانا چاہو اور تم نے انکو بہت سا مال دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو۔‘‘(الطلاق 1،2،6،7)
’’ جن عورتوں کو طلاق دی گئ ہو انہیں بھی دستور کے مطابق کچھ دے دلا کر رخصت کرو۔‘‘(البقرہ 241)
اسی طرح عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں متعدد احادیث بھی موجود ہیں۔
رسول اللہؐ نے فرمایا:’’ عورتوں کا حق تمھارے اوپر یہ ہے کہ لباس اور طعام میں انکے ساتھ اچھا رویہ اپناو۔‘‘( ترمذی )
رسول اللہؐ کا ارشاد ہے ’’ سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے‘‘
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیک وقت 9بیویاں ان کے ساتھ رہتی تھیں ۔اور ان سب کے پاس غلام اور لونڈیاں بھی تھیں۔اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کپڑے خود دھو لیتے، جوتے گانٹھ لیتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے، کپڑوں پر پیوند لگا لیتے، ازدواج کو آگ جلا کردیتے آٹا گوندھ دیتے۔ ان کے ساتھ کھیلتے ہنسی مذاق کرتے۔
بیٹی کو اس قدر عزت اور محبت دی گئی ۔کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے آتیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ کر جاتے ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہاتھ پکڑ کر لاتے اپنی چادر بچھاتے اور اس پر اپنے پاس بٹھاتے ۔
اسلام نے عورتوں کو وراثت میں حصہ دینے کی بھی تاکید کی ہے: ’’جو مال ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ کر مر جائیں، تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی یہ (اللہ ) مقرر کیے ہوئے حصے ہیں ۔‘‘ )النسا7)
ہمیں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت ہر کام کرنے میں آزاد ہے۔خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک بزنس وومن تھیں جن کا مال تجارت مکہ کے مال تجارت کا آدھا ہوتا تھا۔عائشہ رضی اللہ عنہا ایک ایجوکیٹر، راوی حدیث اور فقیہ تھیں ۔ام سلمی کونسلر تھیں ۔عمر رضی اللہ عنہ کے بعد لکھا ہوا قرآن حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔الشفا بنت عبداللہ کو عمر رضی اللہ عنہ نے مارکیٹ مینیجر اور انسپکٹر بنایا۔ رفیدہ رضی اللہ عنہا بدر کی جنگ میں بطور نرس زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی رہیں ۔نسیبہ بنت سعد جنگ احد میں صحابہ کے ساتھ لڑیں ۔
عائشہ بنت محمد نے معروف علما کو پڑھایا جن میں حجر العسقلانی بھی شامل تھے۔انکے علاوہ حجر نے 53 خواتین علماء سے تعلیم حاصل کی۔7ویں صدی میں ام درداء حدیث و فقہ پڑھاتی تھیں ۔ 9 ویں صدی میں فاطمہ الفہریہ نے مراقش میں مسجد بنائی۔859 میں تیونس میں دنیا کی پہلی خواتین کی یونیورسٹی بنائی۔University of Qarawiyyin Fez. Morroco 10ویں صدی میں قرطبہ میں فاطمہ 70 لائبریریوں کی نگران تھیں جن میں 4 لاکھ کتب تھیں ۔10 ویں صدی میں سطیتہ المحملی بغداد میں ایک Mathematician ، حدیث، فقہ اور عربی ادب کی عالم تھیں ۔
11 ویں صدی میں بنفشہ الرمیہ نے اسکول، پل اور بے گھر لوگوں کے لیے شیلٹر ہومز بنائے۔15 ویں صدی میں حورم سلطان نے ترکی میں بہت سے ادارے بنوائے۔استنبول میں ایک مسجد کمپلیکس بنوایا جس میں مدرسہ، عوام کے لیے کچن اور حمام تھے۔مکہ میں 4 اسکول اور یروشلم میں مسجد بنوائی۔ دو اسکولز اور ایک خواتین کا ہسپتال بنوایا۔
خلیفہ ہارون الرشید کی بیگم زبیدہ نے بہت سے کنویں، نہریں کھدوائیں۔حجاج کے لیے مکہ جانے والے رستے کے ساتھ ساتھ گیسٹ ہاوسز بنوائے۔ ملکہ Zazzu آمنہ نے نائجیریا میں 34 سال بطور ملٹری جنرل کام کیا۔1819 سے 1924 تک بھوپال میں بیگم خورشید جہان حکمران رہیں ۔
لبانہ قرطبہ کی سائنس، حساب ، جیومیٹری اور الجبرا کی عالم تھیں اور جیومیٹری اور الجبرے کا مشکل مسئلہ بھی آسانی سے حل کر لیتی تھیں اموی خلیفہ الحکم کی پرائیویٹ سیکرٹری تھیں ۔انڈیا کی راسہ نے میڈیکل کی کتاب لکھی۔حلب کی ال اجلیہ بنت ال اجلی نے Astrolab بنائی۔مصر کی زینب الغزالی ایک activist تھیں ۔
آج کے دور میں بھی ہزاروں ایسی مثالیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ ہم ہر شعبہ ہائے زندگی میں کام کر رہی ہیں ۔دنیا کی پہلی مسلم فائٹر پائلٹ ترکی کی Sabiha Gokcen 1940میں تھیں ۔مسلم خواتین لیکچررز، پروفیسرز، ڈاکٹرز، سرجنز، سائنسدان، پائلٹس، فوجی، جنرلز، وزیر اعظم، نیوٹریشنسٹ، آرکیٹکٹ اور انجینر غرض ہر فیلڈ میں excel کر رہی ہیں ۔
اللہ تعالٰی نے نہ صرف ہمیں گھر ، پیسے، ضروریات زندگی، گواہی کا حق، پڑھنے جاب کرنے، بزنس کرنے، سیر و تفریح کرنے سب چیزوں کا حق دیا ہے۔ بلکہ ہمیں یہ سب چیزیں مہیا کرنے کی ذمہ داری ہمارے خاندان کے مردوں پر عائد کی ہے۔ باپ، بھائی، میاں، بیٹے ، چچا، ماموں، سسرالی مردوں اور اگر یہ سب نہ ہوں تو حکمران وقت کی ذمہ داری ہے ۔؟
اگر ہم بہت مالدار ہوں تب بھی ہم اپنے گھر کے مردوں کی ذمہ داری میں ہیں ۔اگر عورت کی رضامندی نہ ہو تو نکاح فسخ ہو سکتاہے۔اگر عورت کو شوہر پسند نہ ہو تو وہ خلع لے سکتی ہے۔ اپنے ہی بچے کو دودھ نہ پلانا چاہے تو کوئی حرج نہیں شوہر کوئی آیا مہیا کرنے کا پابند ہے۔اگر اپنا ہی بچہ جنے اور اس کو دودھ پلائے تو اضافی خرچہ لے سکتی ہے اور مرد دینے کا پابند ہےاگر وہ سسرال کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اسے الگ گھر کا حق حاصل ہے۔مرد پر ذمہ داری ہے کہ وہ ماں ،بیٹی، بیوی، حتی کہ بیوی بہن ہر رشتے کے حقوق ادا کرنے کا پابند ہے۔ اسکی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو پردہ کروائے اور اسے ایسی زندگی مہیا کرے کہ اسے کسی بھی چیز کے لیےگھر سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ پڑے۔طلاق کی صورت میں پہاڑ برابر تحائف بھی دیے ہوئے ہوں کچھ واپس نہیں لے سکتا بلکہ استطاعت کے مطابق کچھ دے کر رخصت کرنے کا حکم ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے ایک خاتون کو طلاق دی تو 10 ہزار درہم دیکر رخصت کیا۔اگر بچے ہوں تو انکا نان نفقہ رہائش بھی والد کی ذمہ داری ہے ۔ عدت کی مصلحت یہ ہے کہ بچے کی ولدیت پتہ چل جائےاور وراثت کا مسئلہ نہ ہو۔
پردے کے ذریعے اسلام نے عورت کو ایک ڈھال فراہم کی ہے جو اسے ہربری نظراور فتنہ سے بچاتی ہے۔ قصہ مختصر اسلام ہمیں قیمتی متاع کی طرح برتاؤکرتا ہے۔اسے ’’رباط البیت ‘‘ گھر کی ملکہ کہتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں مغرب عورت کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ماضی میں تو ایک لمبی فہرست ہے جو انکی ذلت کی دلیل ہےانہیں جائداد میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔periodsمیں ایک اچھوت کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ پڑھنے، ووٹ اور طلاق کا حق نہ تھا۔ ۔ہم صرف آج کے دور کی عورت کا مقابلہ ایک مسلمان عورت سے کرتے ہیں ۔مغرب نے عورت کو ایک شو پیس بنا کر رکھ دیا ہے۔جس کا مصرف صرف مرد کی جسمانی تسکین ہے۔مرد اس کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتا۔ پہلے تو شادی کرتا نہیں کر بھی لے تو ہر چیز ہر خرچ آدھا عورت کے ذمے ہوتا ہے۔شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ بچے پیدا کر کے چھوڑ جاتا ہے اور عورت بیچاری اکیلی کماتی بھی ہے بچے بھی پالتی ہے اور گھر بھی سنبھالتی ہے۔ کوئی ایک لائف پارٹنر نہ ہونے کی وجہ سے باپ کا پتہ ہی نہیں ہوتا سو کوئی ذمہ داری بھی نہیں لیتا۔ بڑھاپے میں اولڈ ہوم میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔پھر بھی مشرقی عورت مغربی عورت کو آئیڈیل کے طور پر دیکھتی ہے۔
اسلام نے تو عورت کو واقعی ملکہ کی حیثیت دی ہے یہ الگ بات ہے کہ دین سے دوری، قرآن و سنت سے لا علمی اور عمل نہ ہونے کی وجہ سے اور ہنود سے متاثر ہونے کی وجہ سے معاشرہ اور مرد ہمیں یہ تمام حقوق نہیں دیتا۔مگر اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ کچھ مغربی تجزیہ کار تو اسلام کو feminist مذہب بھی کہتے ہیں ۔کیونکہ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورتوں کو حقوق دیتا ہے۔کاش کہ معاشرہ بھی انکی ادائیگی میں اپنا رول اداکرے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024