ارشد شیخ
ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کربنیادی وجوہات سے نمٹنے کی ضرورت
عدم مساوات ملک کو کمزور کرسکتی ہے۔ یہ آپ کے خوابوں کی تعبیر اور جائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے درکار دستیاب وسائل کو محدود کرتے ہوئے آپ کے ترقی کے سفر کو محدود کرسکتی ہے۔ عدم مساوات دولت کی غیر متوازن تقسیم سے پیدا ہوتی ہے جو حکومتوں اور پالیسی سازوں کے لیے سب سے زیادہ متنازعہ اور پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے۔
کیا آمدنی میں عدم مساوات مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں نجی سرمایہ کے جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے اور کیا یہ ایسی چیز ہے جسے قانون سازی اور ریاست کی مداخلت کے ذریعہ تبدیل کیا جانا چاہیے؟ دولت کی ازسر نو تقسیم کے لیے آزاد منڈی کی معیشت میں کیا یہ مداخلت فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے؟ متبادل کے طور پر کیا ہمیں ایسی معاشی ترقی کو قبول کرنا چاہیے جو کروڑہا عوام کو غربت کے دلدل سے باہر نکالتی ہو چاہے ہمیں اس بھیانک عدم مساوات کی قیمت ہی ادا کرنی کیوں نہ پڑے؟ عدم مساوات پر کسی بھی بحث کو اعداد و شمار کی حمایت حاصل ہونی چاہیے جیسا کہ ’’کیپٹل اِن ٹوئنٹی فرسٹ سنچری‘‘ کے مصنف تھامس پکیٹی نے نشان دہی کی ہے ’’دولت کی تقسیم کے بارے میں دانشورانہ اور سیاسی بحث طویل عرصہ سے بے انتہا تعصب اور حقیقت کی کمی پر مبنی رہی ہے۔ ماہرین کا تجزیہ اس گمبھیر سیاسی تنازعہ کو کبھی ختم نہیں کرے گا جو لازماً عدم مساوات کو ہوا دیتا ہے۔ سماجی و سائنسی تحقیق ہمیشہ عارضی اور نامکمل ہی رہے گی۔ یہ معاشیات سماجیات اور تاریخ کو مطلق سائنس میں تبدیل کرنے کا دعویٰ نہیں کرتی۔ لیکن صبر کے ساتھ حقائق اور نمونوں کی تلاش اور ایک ایسے معاشی، سماجی اور سیاسی طریقہ عمل کا پرسکون تجزیہ کرنا ہو گا جو ان کی وضاحت کرسکیں۔ اس سے جمہوری بحث سے آگہی حاصل ہو سکتی ہے اور صحیح سوالات پر توجہ مرکوز ہو سکتی ہے اور یوں بحث کی شرائط کا ازسر نو تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسی طرح کچھ پیشگی تصورات یا مبنی بر فریب تصورات بے نقاب ہو سکتے ہیں اور تمام عہدے مسلسل تنقیدی جانچ پڑتال کے تحت آسکتے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف کامپٹیٹیونیس نئی دلی کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ’’ہندوستان میں عدم مساوات کی صورتحال پر رپورٹ‘‘ کا حقائق اور اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حقائق اور اعداد و شمار کو ملحوظ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ پالیسی سفارشات کو آشکار کرتے ہیں۔
عدم مساوات کی صورتحال پر رپورٹ کی نمایاں نکات
104 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ وزیر اعظم کی معاشی مشاورتی کونسل کی طرف سے تیار کی گئی ہے جس کی سربراہی معروف ماہر معاشیات بیبیک ڈبرائے نے کی اور اسے ڈاکٹر امیت کپور اور انسٹیٹیوٹ آف کامپیٹیٹیونیس کی جیسیکا دوگال کی جانب سے مرتب کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے دیباچہ میں ڈبرائے دیانتداری سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ’’یہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے بلکہ شمولیت اور عدم شمولیت دونوں کا جائزہ لینے کا ایک عمل ہے۔
یہ رپورٹ آمدنیوں کی نوعیت، لیبر مارکٹ، صحت، تعلیم اور گھروں میں دستیاب سہولتوں کے اشاریوں پر نظر ڈالتی ہے۔ ان اشاریوں کو عدم مساوات کا تعین کرنے والے عامل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور متعلقہ اعداد و شمار (ڈیٹا) عدم مساوات کے تفاوت کو ختم کرنے کے لیے درکار کاموں کی حد تک سمجھنے کے لیے ایک مفید قدم ہو سکتا ہے۔
وقتاً فوقتاً کروائے جانے والے لیبر فورس سروے (PLFS 2019-20) سے اعداد و شمار لیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہ یابوں کے زمرہ میں 10 فیصد افراد وہ ہیں جن کی ماہانہ آمدنی کم از کم پچیس ہزار روپے (سالانہ تین لاکھ روپے ہے) تنخواہ یابوں کے زمرہ میں ایک فیصد سر فہرست افراد جملہ آمدنی کا چھ تا سات فیصد کماتے ہیں۔ اسی طرح سب سے زیادہ 10 فیصد کمانے والے افراد جملہ آمدنی کا 30 تا 35 فیصد حصہ کماتے ہیں۔ باقاعدہ تنحواہ پانے والے ملازمین میں تقریباً 36 فیصد ملازمین ماہانہ 10 ہزار روپے سے بھی کم تنخواہ پاتے ہیں۔
بے روزگاری کی شرح بھی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتی ہے۔ نا خواندہ آبادی میں بے روزگاری صرف 0.6% ہے جب کہ ڈگری/ڈپلوما رکھنے والوں میں یہ شرح تقریباً 20% ہے۔ مردوں میں بے روزگاری کی شرح 5 فیصد اور خواتین میں %4.2 ہے۔ صحت کے شعبے میں، رپورٹ ذیلی مراکز (سب سنٹرس) کی پرائمری ہیلتھ کیئر اور کمیونٹی کے درمیان رابطے کے پہلے نقطہ کے طور پر اور پرائمری ہیلتھ سنٹرز (PHCs) کی گاؤں اور میڈیکل آفیسر کے درمیان رابطے کے پہلے پائنٹ کے طور پر درجہ بندی کرتی ہے۔ ہیلتھ سب سنٹرس کی تعداد میں صرف 6.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو 2005 میں ایک لاکھ 46 ہزار 26 تھے اور 2019 تا 2020 میں ایک لاکھ 55 ہزار 404 ہو گئے۔
2005 سے پبلک ہیلتھ سنٹرس میں اعظم ترین شرح تفاوت کے معاملہ میں ریاستوں کا موقف اس طرح ہے: اترپردیش (-780) مغربی بنگال (-260) آندھراپردیش (-428) اور جھارکھنڈ (-270) مزید برآں ان ریاستوں نے 2020 میں بھی بنیادی صحت مراکز میں کمی کی اعظم ترین شرح ریکارڈ کی ہے۔
اترپردیش میں شرح گراوٹ 51 فیصد اور مغربی بنگال میں 58 فیصد رہی ہے۔ جھارکھنڈ میں صرف 291 پرائمری ہیلتھ سنٹرس ہیں جبکہ دیہی ہندوستان میں نگہداشت صحت کے بنیادی نظام پر انتہائی بوجھ کے مد نظر 1091 پرائمری ہیلتھ سنٹرس کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں میں 85.9 فیصد عوام اور شہری علاقوں میں 80 فیصد عوام کو کسی ہیلتھ اسکیم کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ تعلیم کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ (5اور اس سے زائد برسوں میں) بھارت میں شرح خواندگی 77 فیصد رہی ہے جن میں خواندہ خواتین کا فیصد 71 اور خواندہ مردوں کا فیصد 84.1 ہے۔ ہندوستان میں صرف 80.16 فیصد اسکولس میں ایک کارکرد برقی کنکشن ہے۔ جہاں تک اسکولوں میں کارکرد کمپیوٹرس ہونے کا سوال ہے صرف 38.5 فیصد اسکول یہ سہولت رکھتے ہیں جبکہ محض 22.18 فیصد اسکولوں میں انٹرنیٹ سرویس فراہم ہے۔
جہاں تک شعبہ تعلیم کا سوال ہے ڈیجیٹل انڈیا ابھی کافی دور ہے۔ لڑکیوں اور لڑکوں دی جانے والی تعلیم کی نوعیت مسلسل صنفی امتیاز کی طرف نشان دہی کرتی ہے۔ مجموعی اندرا جات کی تعداد بھی کافی افسوسناک ہے۔ NFHS-5 (2019-21) کے مطابق ایسی خواتین جنہوں نے کم از کم 10 سال یا اس سے زائد برس اسکول میں پڑھائی مکمل کی ہو ان کا فیصد انتہائی کم تر یعنی 41 فیصد ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 10 یا اس سے زائد برس اسکول کی پڑھائی مکمل کرنے والی خواتین کی تعداد محض 33.7 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے برعکس 10 یا اس سے زائد برس اسکولنگ کرنے والے مردوں کی کل ہند شرح 50.2 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔
گھروں میں دولت کے ارتکاز کی بات کی جائے تو رپورٹ کہتی ہے: ’’دیہی اور شہری علاقوں میں گھریلو دولت میں زبردست تفاوت موجود ہے۔ شہری علاقوں میں گھرانوں میں دولت کے ارتکاز کے بارے میں بات کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے: ’’دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان گھریلو دولت کے لحاظ سے بہت بڑا فرق موجود ہے۔ شہری علاقوں میں سب سے زیادہ (پانچواں حصہ) % 44.4 دولت کا ارتکاز ہے۔ اسی طرح، 28.4% گھرانے دیہی علاقوں میں سب سے کم دولت کے ارتکاز کے زمرہ میں آتے ہیں‘‘۔
ہندوستان میں عدم مساوات سے نمٹنے کے راستہ میں سب سے پہلا چیلنج یہ ہے کہ اس کے بارے میں سنجیدگی اختیار کی جائے۔ موجودہ سماجی اور سیاسی ماحول میں میڈیا یا اپوزیشن کے لیے یہ انتہائی مشکل ہے کہ وہ عدم مساوات کے موجودہ اعداد و شمار کے ساتھ ’’امرت کال‘‘ میں ہندوستان کے داخلے پر سنجیدہ سوالات کھڑے کریں۔ میڈیا میں پہلے ہی یہ بات چل رہی ہے کہ وزیر اعظم کی معاشی مشاورتی کونسل میں شامل بعض عہدیداروں نے اس رپورٹ اور اس کے متن سے یہ کہتے ہوئے دوری اختیار کرلی کہ ای اے سی، پی ایم کی جانب سے صرف نگرانی کی گئی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سفارشات کو حکومت کی جانب سے منظوری دی گئی ہے۔ درحقیقت اس بات کا قوی امکان ہے کہ رپورٹ حکمرانوں کو پیش بھی نہیں کی جا سکے گی۔ یہ رپورٹ، ایک شہری روزگار ضمانت اسکیم کو متعارف کرنا اور یکساں بنیادی آمدنی (یو بی آئی) پروگرام کی سمت پیش قدمی کرنا جیسی مقبول عام سفارشات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ اس میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی بعض اصل وجوہات سے بحث نہیں کی گئی ہے۔ ایک بنیادی سوال ہے جس پر لازماً غور و خوض کیا جانا چاہیے اور دولت پر ٹیکس کی سطح اور طریقہ کار سے اتفاق کیا جانا چاہیے اور دولت کی غریبوں اور دولت مندوں کے درمیان تقسیم ہونی چاہیے۔ تھامس پکیٹی نے 1.3 ملین ڈالر اور 6.5 ملین ڈالر کے درمیان نقد دولت پر ایک فیصد اور 6.5 ملین سے زائد نقد دولت پر دو فیصد شرح ٹیکس عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔ زکوٰۃ ایک ہلالی سال کے دوران کسی شخص کے پاس موجود دولت پر 2.5 فیصد کے حساب سے عائد ہوتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ان اہم مسائل پر غور و خوض کیا جائے بجائے اس کے کہ ووٹ بینک کی سیاست کرنے کی خاطر دانستہ طور پر بے فائدہ جذباتی سوالات کھڑے کیے جائیں۔
(ارشد شیخ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ میڈیا وابستہ اور کالم نویس ہیں)
***
یہ وقت ہے کہ عدم مساوات جیسے اہم مسائل پر غور و خوض کیا جائے بجائے اس کے کہ ووٹ بینک کی سیاست کرنے کی خاطر دانستہ طور پر بے فائدہ جذباتی سوالات کھڑے کیے جائیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 جون تا 18 جون 2022