عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک میں انتخابی بادل چھا گئے

کسانوں نے رام لیلا میدان سے حکومت کے خلاف مضبوط عزائم کا اعلان کر کے احتجاج درج کروایا

عرفان الٰہی ندوی

سی اے اے کا نفاذ الیکٹورل بانڈز سے عوام کا دھیان بھٹکانے کے لیے مودی حکومت کا پینترا: شاہ نواز عالم
مشرقی علوم کی نمائندہ رضا لائبریری کے نئے ڈائریکٹر کے بطور ان علوم سے ناواقف شخص کا انتخاب سوالات کے گھیرے میں
پارلیمانی انتخابات کا اعلان ہوتے ہی شمالی ہند میں انتخابی بادل چھا گئے ہے۔ زراعت کے ساتھ سیاسی فصل بھی پک کر تیار ہو چکی ہے۔ کسان اور سیاست داں اپنی اپنی فصل کاٹنے کے لیے بے چین ہیں۔ تقریباً ایک ماہ کے بعد کسان دلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں اپنی ریلی کرنے میں کامیاب ہو سکے وہ بھی مشروط اجازت ملنے کے بعد۔ جب وہ دلی پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے رام لیلا میدان میں سیوریج کا بدبو دار پانی اور کیچڑ بھر دیا گیا۔ اس کے باوجود کسانوں نے رام لیلا میدان پہنچ کر مرکزی حکومت کو ایم ایس پی کا وعدہ یاد دلایا۔ کسانوں نے مہا پنچایت میں سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات نافذ ہونے اور فصلوں کی سرکاری قیمت ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ کسانوں کے لیڈر راکیش ٹکیت نے حکومت پر کسان تنظیموں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کا بھی الزام لگایا ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے کسانوں کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے وہ ابھی بھی دلی کی سرحدوں پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ کسان اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں کے ساتھ دہلی کوچ کرنا چاہتے تھے لیکن رام لیلا میدان میں صرف پانچ ہزار کسانوں کو بغیر ٹریکٹر ٹرالی جانے کی مشروط اجازت ہی مل سکی۔ اس دوران یو پی کے عدالت نے ٹریکٹر ٹرالی کے غیر زرعی استعمال پر پابندی لگانے کا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ اس سے کسانوں کی اضافی آمدنی کم ہو سکتی ہے جس کے سبب ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
شمالی ریاستوں میں سیاسی فصل بھی پک کر تیار ہو چکی ہے جسے کاٹنے کے لیے سیاسی جماعتوں میں ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہماچل پردیش میں سیاسی ڈرامے جاری ہیں۔ اسی دوران ہریانہ میں سیاسی کھیل ہو گیا۔ بی جے پی نے منوہر لال کھٹر کو وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹا کر نائب سنگھ سینی کو ریاست کی کمان سونپ دی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ کسانوں کے ساتھ بی جے پی کی حلیف جماعت جے جے پی ان سے ناراض تھی۔ کھٹر کو ہٹانے کے بعد جے جے پی نے این ڈی اے سے ناطہ توڑ لیا۔ پارلیمانی انتخابات میں انڈیا اتحاد کو اس کا سیاسی فائدہ ملنے کا امکان ہے۔
پنجاب کے کسانوں نے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں موجودہ حکومت کو ووٹ نہ دینے کا کھل کر اعلان کر دیا ہے جبکہ یو پی میں این ڈی اے کی حکمت عملی کارگر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے انڈیا اتحاد سے دوری برقرار رکھتے ہوئے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان شروع کر دیا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے جن آٹھ امیدواروں کا اعلان کیا ان میں سے پانچ امیدوار مسلمان ہیں۔ ایم آئی ایم بھی یو پی کی ایک درجن سے زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے کی تیاری کر رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے امیدواروں کو ہونے کا امکان ہے۔ تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جی پی کے موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف بھی اینٹی انکمبینسی کام کر رہی ہے۔ مشرقی یوپی کے سلیم پور پارلیمانی حلقے میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ روندر کشواہا جب عوام سے رابطہ کرنے پہنچے تو مقامی لوگوں نے ان کی پر زور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال سے یہاں ندی کنارے کٹان ہو رہا ہے تب تم کہاں تھے؟ ایکس کے ایک صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’جنتا اب ان کے مذہبی ایجنڈے کے بہکاوے میں نہیں آرہی ہے سب کچھ گنوانے کے بعد عوام کو ہوش آیا ہے ۔‘
فیروز آباد سے ایک دل چسپ خبر سامنے آئی ہے۔ فیروز آباد کی ایس ڈی ایم کریتی راج نے جب ایک عام مریضہ کے بھیس میں سرکاری ہسپتال کا دورہ کیا تو حکومت کی پول کھل کر سامنے آگئی، جب انہیں پتہ چلا کہ میڈیکل اسٹور میں آدھی دوائیں ایکسپائر ہو چکی ہیں سرکاری عملہ بھی حاضری لگا کر موقع سے غائب پایا گیا۔ جبکہ ڈاکٹر نے ایس ڈی ایم صاحبہ کو نہ پہچانتے ہوئے سیدھے منہ بات بھی نہیں کی۔
مشرقی علوم خاص طور پر اردو عربی اور فارسی کتب کے لیے مشہور رام پور کی رضا لائبریری کو ایک طویل عرصے بعد نیا ڈائریکٹر مل گیا ہے۔ تاہم، علمی حلقوں میں خوشی کے بجائے ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دراصل ڈاکٹر پشکر مشرا کو اس لائبریری کا ڈائریکٹر بنایا گیا ہے جو مشرقی علوم سے ناواقف ہیں۔ انہیں سنسکرت کے نام پر ڈائریکٹر بنایا گیا ہے۔ اس کے لیے کچھ دن پہلے ہی رضا لائبریری کے ضابطے میں تبدیلی کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ رضا لائبریری میں عربی، فارسی، پشتو، سنسکرت اور اردو ہندی و ترکی کی زبانوں کے 17 ہزار مخطوطات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تقریبا 60 ہزار نادر و نایاب مطبوعہ کتابوں کا خزانہ بھی موجود ہے۔
تو صاحبو! شمال میں باقی سب خیریت ہے۔ عام انتخابات سے عین قبل سی اے اے نافذ ہو چکا ہے۔ اس کے خلاف کوئی عوامی احتجاج نہ ہو اس کا بھی پختہ انتظام کر دیا گیا ہے۔ رمضان سے ٹھیک ایک دن پہلے سنگینوں کے سائے میں اس کا اعلان کیا گیا۔ لکھنو میں مشہور شاعر منور رانا مرحوم کی دونوں بیٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ جمعہ کو دن بھر ان کو گھر میں نظر بند رکھا گیا تاکہ وہ سی اے اے کے خلاف کوئی احتجاج نہ کر سکیں۔ انتخابی بانڈز کا معاملہ بھی سیاست میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک بار پھر ایس بی آئی کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ یو پی کانگریس کے نوجوان لیڈر شاہ نواز عالم کہتے ہیں کہ سی اے اے لاگو کرنے کا اعلان الیکٹورل بانڈز پر گِھری مودی حکومت کا دھیان بھٹکانے کا پینترا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھے اب تک کے حال و احوال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ نئی اور دل چسپ معلومات کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر صلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024