!جی ڈی پی میں 8.4 فیصد کا اچھال۔ ایک معمہ

صارفین کے اخراجات میں بڑے اضافے کے بغیر اونچی شرح نمو کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

مالی سال 2023-24 کی اکتوبر-دسمبر سہ ماہی میں جی ڈی پی بڑھ کر 8.4 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ مینوفیکچرنگ اور کان کنی کے شعبہ (Mining Secters)کی بہتری سے معاشی ترقی نے رفتار پکڑی ہے۔ قومی دفتر شماریات (این ایس او) نے یہ ڈیٹا جاری کیا ہے۔ گزشتہ سہ ماہی میں جی ڈپی 7.6 فیصد رہی تھی۔ توقع سے زیادہ گروتھ کی وجہ مضبوط گھریلو کھپت، مینوفیکچرنگ اور زیادہ سرکاری خرچ رہا ہے۔ وہیں ایک سال قبل یعنی 2022-23کی تیسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں محض 4.5 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ حالیہ جی ڈی پی گروتھ ریزرو بینک آف انڈیا کے اندازہ سے بہتر ہے۔ آر بی آئی نے تیسری سہ ماہی میں جی ڈی پی گروتھ 6.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ مینوفیکچرنگ نے 11.6 فیصد کے ساتھ شان دار مظاہرہ کیا۔ کانکنی گروتھ سالانہ بنیاد پر 1.40 سے بڑھ کر 7.5 فیصد ہو گیا۔ یاد رہے کہ مینوفیکچرنگ گروتھ سالانہ بنیاد پر 4.8 فیصد سے بڑھ کر 11.6 فیصد ہوا ہے۔ کنسٹرکشن گروتھ سالانہ بنیاد پر بغیر کسی خاص تبدیلی کے 9.5 فیصد پر قائم رہا ہے۔ واضح ہو کہ جی ڈی پی دو طرح کی ہوتی ہے۔ رئیل جی ڈی پی اور نامینل جی ڈی پی، رئیل جی ڈی پی میں گڈس اور سرویس ویلیو کا کیالکولیشن Base year کی ویلیوسٹیبل پرائس پر کیا جاتا ہے۔ جی ڈی پی کا حساب لگانے کے لیے بیس ایئر 2011-2012 ہے وہیں نامینل جی ڈی پی کا حساب کرنٹ پرائس پر کیا جاتا ہے۔ جی ڈی پی کا حساب کرنے کے لیے ایک فارمولا کام میں لایا جاتا ہے۔ GDP=C+G+I+NX جہاں C کا مطلب ہے نجی کیفیت، Gکا معنی ہے گورنمنٹ کا خرچ، I کا معنی سرمایہ کاری (Investment) اور NX کا مطلب نیٹ اکسپورٹ۔ جی ڈی پی اصلاً معیشت کی صحت کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال میں لائے جانے والے سب سے مشترک اشاریوں میں سے ایک ہے۔ یہ جی ڈی پی ملک کے اندر ایک خاص وقت میں پیداوار کے سبھی Goods اور Services کی قیمتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے پروڈکشن کو شامل کیا جاتا ہے۔
چند دن قبل موڈیز ریٹنگس نے سرکاری خرچ اور گھریلو کھپت میں تیزی کے مد نظر مالی سال 2023-24 کے لیے بھارت کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کے اندازہ کو 6.6 سے بڑھا کر تقریباً 8 فیصد کر دیا، وہیں دسمبر سہ ماہی کے اعداد و شمار آنے کے بعد بارکلیج نے 2023-24 کے لیے بھارت کے اپنے سابقہ اندازہ کو 110 بسیں پوائنٹ بڑھا کر 7.8 فیصد کر دیا ہے۔ موڈیز نے 2024 کے لیے اپنے گلوبل مائیکرو اکنامک آڈٹ لک میں کہا ہے کہ بھارت کی اکنامی نے اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ جی-20 اکنامیز میں بھارت کی معیشت سب سے تیز رفتاری سے بڑھتی معیشت ہے۔ موڈیز انوسٹرس سروس کا کہنا ہے کہ حکومت کی کیپٹل اکسپینڈیچر اور مضبوط مینوفیکچرنگ سرگرمیوں نے 2023 میں بہتر اور مضبوط گروتھ آوٹکمس کو سہارا دیا ہے۔ گلوبل معیشت میں سُستی کے باوجود بھارتی معیشت بسہولت 7 تا 8 فیصد حقیقی جی ڈی پی گروتھ درج کرے گی۔ اس میں مضبوط جی ایس ٹی کلکشن (فروری میں 1.7لاکھ کروڑ روپے) آٹو سیلس، ڈبل ڈیجیٹ کریڈٹ گروتھ، کنزیومر آپٹمزم Urban consumption زیادہ سرکاری خرچ، مینوفیکچرنگ اینڈ سروسز اور پی ایم آئی کو معاشی ڈرائیور کے طور پر بتایا گیا ہے۔ اس طرح ریٹنگ ایجنسی کریسیل نے آئندہ مالی سال میں بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو کا 68 فیصد کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ یہ 2023 تک اپر مڈل انکم والا ملک بن جائے گا اور معیشت بھی بہتر ہوکر دوگنی یعنی سات لاکھ کروڑ ڈالر کی ہو جائے گی۔ جس کے ساتھ ہی 2031 تک تیسری بڑی معیشت بھی ہوجائے گی۔
آج ہمارے ملک کی جی ڈی پی گروتھ کے بڑے چرچے ہیں اور معیشت کے بڑھتے حجم سے یہ ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ فی کس آمدنی کے ساتھ لوگوں کی معیشت میں بھی بہتری آرہی ہے۔ ہر فرد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی آمدنی بڑھے جو عوام کے با روزگار ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ملک میں روزگار نہیں ہے۔ جنگ زدہ یوکرین اور اسرائیل میں حکومت بھارتیوں کو لاکھوں کی تعداد میں بھیج رہی ہے۔ اب تو حکومت کے معاشی ضابطوں کے معاملے کی اولیت کا اندازہ مالی خرچ یا صارفین کی قوت میں مسلسل اضافہ سے ہوتا ہے۔ مرکزی دفتر شماریات کے ذریعہ چند دنوں قبل شائع شدہ ماہانہ کنبوں کے اخراجات (ایم پی سی ای) کے سروے 2022-23 کی رپورٹ کا ڈیٹا واضح کر رہا ہے کہ بھارت میں اب محض پانچ فیصد لوگ خط افلاس کے نیچے ہیں۔ وہیں 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن بھی دیا جا رہا ہے۔ پہلے خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والے وہ ہوتے تھے جو فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے تھے مگر اب بڑے شہروں میں فٹ پاتھ پر رہنے والے جھونپڑ پٹیوں میں چلے گئے جہاں بے انتہا غربت ہے۔ گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں ملک کی معاشی ترقی ضرور ہوئی ہے اور لوگوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے مگر مہنگائی بھی دوگنی ہوگئی ہے۔ 1999میں ایک فرد اپنے ماہانہ سو روپے کے خرچ میں تقریباً 59روپے غذائی اجناس پر خرچ کرتا ہے اب وہ 47 روپے خرچ کرتا ہے۔ لوگ اپنی آمدنی کا 70 فیصد سے زائد تعلیم اور صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ حمل و نقل پر تین دہائیوں میں 150فیصد سے زائد خرچ بڑھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دیہی علاقے میں فی کس ماہانہ قوت خرید اوسطاً 3860 روپے پائی گئی ہے جبکہ شہروں میں 6521 کروڑ روپے مگر ملک کی 9 ریاستوں کی فی کس قوت خرید مذکورہ قومی خرید سے بہت کم ہے۔ سب سے نچلی سطح پر مشرقی بھارت کی ریاستیں ہیں۔ ملک کی آبادی کا پچاس فیصد کسان ہیں۔ اقل ترین معاون قیمت (ایم ایس پی) کی سہولت والی فصلیں بھی کسانوں کو معاشی طور سے صحت مند نہیں کر پارہی ہیں کیونکہ بازار میں ان کی خرید اور طلب کم ہونے پر ان کی قیمتیں گرجاتی ہیں۔
ملک کی جی ڈی پی میں اچھال خوش آئند ہے مگر ماہرین اقتصادیات اس اندازہ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس کا اصل معمہ جی ڈی پی کی شرح نمو اور جمع کی گئی کُل قدر (جی وی اے) کے درمیان فرق کا ہے۔ جی وی اے پیدا شدہ اور فروخت کردہ اشیا اور خدمات کی حقیقی قیمت کو دکھاتا ہے۔ عموماً جی ڈی پی اور جی وی اے میں معمولی سا فرق ہوتا ہے اور یہ سبسیڈی کو چھوڑ کر ٹیکسیز کے خالص اثر کو ظاہر کرتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسس (Indirect Taxes) جی ڈی پی میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔ سبسیڈی جی ڈی پی کو کم کرتی ہے۔ یہ دونوں عام طور پر ایک دوسرے کو متوازن رکھتے ہیں۔ دسمبر سہ ماہی میں جی وی اے کی شرح نمو 6.5 فیصد رہی جو جی ڈی پی سے دو فیصد کم ہے۔ یہ فرق گزشتہ دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک اور معمہ ہے صارف خرچ میں اضافے کا جو جو ڈی پی کا ۵۵ فیصد سے بڑا حصہ ہے اور محض تین فیصد کی شرح سے ہی بڑھا ہے۔ اور کئی سالوں سے سب سے کم ہے۔ صارفین کے اخراجات میں بے حد اضافہ کے بغیر زیادہ شرح نمو کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ صارف، مستقبل کے بارے میں اس وقت خوش ہوتے ہیں جب ان ک پاس روزگار کی گارنٹی ہوتی ہے۔ دوسرا بڑا معمہ صارف خرچ کے شرح اضافہ سے متعلق ہے جو محض تین فیصد کی رفتار سے ہی بڑھ رہا ہے جس کا ذکر مذکورہ صفحہ پر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ صارفین اخراجات میں بڑے اضافے کے بغیر اونچی شرح نمو کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا ہے ایسے وقت میں صارف مستقبل کے بارے میں خوش گمان رہتے ہیں جبکہ انہیں روزگار میسر ہوں۔ آسمان کو چھوتی ہوئی بے روزگاری یا روزگار کا قومی پیمانے پر یکلخت ناپید ہونا خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں میں، صارف خرچ کو منفی سطح پر لے جاتا ہے۔ حالیہ صارف خرچ سروے میں اوسط صارف میں اضافہ دیہی علاقے میں 164 اور شہری علاقے میں 146 فیصد رہا ہے مگر اس میں افراط زر کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اس لیے ایسی پیمائش کی خامیوں کو رفع کرنا ضروری تھا۔ اس سہ ماہی میں زرعی پیداوار کی شرح نمو منفی پر آگئی ہے۔ 2022 میں زرعی شرح نمو 5 فیصد سے اوپر رہی تھی۔ زراعت کی ایسی حالت قابل تشویش ہے۔ خصوصاً دیہی علاقے کے لوگوں کے لیے۔ خصوصاً دیہی کنبوں کی آمدنی آخری معمہ نامینل اور حقیقی جی ڈی پی سے منسلک ہے جو افراط زر کی وجہ سے ہے اور قومی پیمانے پر اسے جی ڈی پی ڈیفلیٹر کے ذریعہ درست کیا جاتا ہے۔ یہ ہندسہ محض 1.6 فیصد بتایا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں افراط زر ہے ہی نہیں۔ یقیناً یہ اندازہ بہت کم ہے۔ اگر جی ڈی پی کی شرح نمو 8.4 فیصد ہے تو نامینل جی ڈی پی میں اضافہ کم از کم 12 سے 13 فیصد ہونا چاہیے جو دسمبر سہ ماہی میں محض 10 فیصد زیادہ رہا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جی ڈی پی کے ڈیٹا کو مختلف وسیع اور مسلسل آنے والے شعبوں کے ڈیٹا کے ساتھ ملا کر تیار کیا جانا چاہیے جو کہ نہیں ہوا ہے۔
***

 

***

 آج ہمارے ملک کی جی ڈی پی گروتھ کے بڑے چرچے ہیں اور معیشت کے بڑھتے حجم سے یہ ہرگز محسوس نہیں ہوتا کہ فی کس آمدنی کے ساتھ لوگوں کی معیشت میں بھی بہتری آرہی ہے۔ ہر فرد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی آمدنی بڑھے جو عوام کے با روزگار ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ملک میں روزگار نہیں ہے۔ جنگ زدہ یوکرین اور اسرائیل میں حکومت بھارتیوں کو لاکھوں کی تعداد میں بھیج رہی ہے۔ اب تو حکومت کے معاشی ضابطوں کے معاملے کی اولیت کا اندازہ مالی خرچ یا صارفین کی قوت میں مسلسل اضافہ سے ہوتا ہے۔ مرکزی دفتر شماریات کے ذریعہ چند دنوں قبل شائع شدہ ماہانہ کنبوں کے اخراجات (ایم پی سی ای) کے سروے 2022-23 کی رپورٹ کا ڈیٹا واضح کر رہا ہے کہ بھارت میں اب محض پانچ فیصد لوگ خط افلاس کے نیچے ہیں۔ وہیں 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن بھی دیا جا رہا ہے۔ پہلے خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والے وہ ہوتے تھے جو فٹ پاتھ پر زندگی گزارتے تھے مگر اب بڑے شہروں میں فٹ پاتھ پر رہنے والے جھونپڑ پٹیوں میں چلے گئے جہاں بے انتہا غربت ہے۔ گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں ملک کی معاشی ترقی ضرور ہوئی ہے اور لوگوں کی آمدنی بھی بڑھی ہے مگر مہنگائی بھی دوگنی ہوگئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024