اداریہ

کرناٹکا: دیگرے را نصیحت، خود را فضیحت

ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی جا رہی ہے ویسے ویسے ریاست میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ‘اے پارٹی وِتھ ڈفرینس’ کا نعرہ لگا کر ملک کے سیاسی افق پر ابھرنے والی، اقدار و اخلاق پر مبنی ایک نئے طرزِ سیاست کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کو جب اقتدار نصیب ہوا تو محض نو برس ہی میں اس کے دعووں کے غبارے کی ہوا نکل گئی۔ پارٹی کے قائدین کو اقتدار کے نشے کے محض چند گھونٹوں نے اس قدر مدہوش کر دیا کہ انہوں نے بدمستی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم خاندانی سیاست کے حوالے سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر متواتر طنز و تشنیع کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب ریاست کرناٹک میں خود ان کی اپنی پارٹی نے خاندانی سیاست کے معاملے میں دوسری تمام پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پارٹی نے 10 مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے 224 اسمبلی نشستوں میں سے 212 امیدواروں کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں 34 امیدواروں کو کسی نہ کسی رشتہ داری کی بنیاد پر ہی پارٹی کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ چار خاندان ایسے ہیں جن کو دو دو ٹکٹ ملے ہیں۔ خاندانی سیاست دانوں کی اس فہرست میں چیف منسٹر بسواراج بومائی پہلے نمبر پر ہیں جن کے والد ایس آر بومائی بھی ریاست کے چیف منسٹر رہ چکے ہیں۔ سینئر بی جے پی لیڈر یدی یورپا کے فرزند بی وائی وجیندر شموگا کے شکاری پورہ سے امیدوار بنائے گئے ہیں۔ ضلع بیلاری میں وزیر نقل و حمل بی سری راملو اور ان کے بھانجے سریش بابو دونوں بھی بیلاری کی دو نشستوں سے مقابلہ کریں گے۔ بنگلور ساوتھ کے نوجوان رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا کے انکل روی سبرامنیم پھر ایک بار بسون گڑی نشست سے انتخاب لڑیں گے۔ اسی طرح کئی حلقوں میں پارٹی کے سینئر لیڈروں نے اپنی وراثت اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو منتقل کردی ہے۔ بی جے پی نے کرناٹک میں اپنے مفاد کے لیے اپنے ہی نظریات اور دعووں سے دست برداری اختیار کر کے خاندانی سیاست کو پروان چڑھانے کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔
اس خاندانی سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ مفادات کو سامنے رکھ کر دوسری پارٹیوں کو چھوڑ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اب ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہو کر بی جے پی کو چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ پارٹیوں سے ناراض ہو کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے کی روایت ملک کی سیاست میں کچھ نئی نہیں ہے، اس سے قبل بھی مختلف لیڈر کسی نہ کسی وجہ سے پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہوتے رہے جبکہ بی جے پی نے تو اس دل بدلی کو اقتدار تک پہنچنے کی ایک حکمت عملی کے طور پر اپنا لیا تھا اور مختلف ریاستوں میں ارکان اسمبلیوں کو دولت اور عہدوں کا لالچ دے کر جس طرح اپنی پارٹی میں شامل کیا تھا اس سے ملکی سیاست میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی۔ اب اسی کا خمیازہ بی جے پی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اقتدار کا لالچ دے کر جسے پارٹی میں شامل کیا جائے گا وہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد آپ کے ساتھ کیوں رہنا چاہے گا۔ اس کے لیے تو سب سے عزیز ترین چیز اقتدار ہی ہے وہ جہاں حاصل ہو گا وہیں چلا جائے گا۔
بی جے پی کی جانب سے دیگر پارٹیوں پر جو دوسری سب سے شدید تنقید ہوتی ہے وہ کرپشن یا رشوت خوری سے متعلق ہوتی ہے۔لیکن ریاست کرناٹک میں بی جے پی حکومت اس معاملے میں بھی سب سے آگے نظر آتی ہے۔ ریاست میں 40 پرسنٹ کا طنزیہ مقولہ یونہی نہیں مشہور ہوا۔ وکاس کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کی زیر اقتدار ملک کی سب سے ترقی یافتہ ریاست میں کرپشن اور رشوت کا بازار اس قدر گرم رہا کہ ریاست کے عوام چیخ اٹھے۔ ترقی کہیں پیچھے رہ گئی اور برسر اقتدار طبقے نے ریاست کے وسائل کو بے دریغ لوٹا۔ ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی نے اپنا دامن کچھ اس طرح وسیع کیا کہ پارٹی کرپٹ لوگوں کے لیے ایک پناہ گاہ بن گئی۔ اس طرح بی جے پی کی سیاست اور اس کے اقتدار کے ایک مختصر دورانیے نے ‘اے پارٹی وتھ ڈیفرینس’ کا سارا بھرم کھول کر رکھ دیا۔ بھارت کے عوام نے جن خوش کن اور دل فریب نعروں سے متاثر ہو کر اقتدار بی جے پی کے حوالے کیا تھا ان نعروں کا عملی دنیا میں کوئی وجود نہیں تھا۔ وہ تو بس تقریر کو موثر بنانے کے جملے اور انتخاب کو جیتنے کے نعرے تھے جن کا کھوکھلا پن بہت جلد عوام کے سامنے آنے لگا ہے۔ بی جے پی کی اس پرفریب سیاست کا اثر مزید کچھ عرصہ باقی رہ سکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام اس کی حقیقت سے واقف ہوتے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام اس کے بعد کیا کریں؟ ان کے پاس کیا متبادل ہے؟ کیا اس ملک کے مسلمان اپنے اخلاق اور اقدار پر مبنی سیاست کے ذریعے عوام کے سامنے ایک ایسا متبادل پیش کر سکتے ہیں جو سارے انسانوں کے دکھوں اور مصیبتوں کا مداوا ہو؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ملک عزیز میں رہنے والی ملت اسلامیہ کو دینے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟