حجاب پر پابندی مسلم لڑکیوں کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہی ہے، ایک عرضی گزار نے کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا

نئی دہلی، فروری 17: لائیو لاء کے مطابق ایک درخواست گزار نے آج کرناٹک ہائی کورٹ کو بتایا کہ حجاب پر پابندی ایک ’’ماس ہسٹیریا‘‘ پیدا کر رہی ہے اور مسلم لڑکیوں کی ذہنی صحت کو متاثر کر رہی ہے۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت طلب کرنے والے عرضی گزاروں میں سے ایک ونود کلکرنی کہا ’’آئین کے دیباچے کے مطابق صحت کی حفاظت ریاست کا فرض ہے۔‘‘

اڈوپی ضلع کے کنداپور قصبے میں واقع گورنمنٹ ویمنس پری یونیورسٹی کالج کی طالبات گزشتہ ماہ اس وقت سے احتجاج کر رہی ہیں جب انھیں حجاب میں ملبوس ہونے کی وجہ سے کلاس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسی طرح کے احتجاجی مظاہرے اب ملک بھر میں ہو رہے ہیں۔

5 فروری کو کرناٹک حکومت نے ایسے کپڑوں پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا جو ’’مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔‘‘ 10 فروری کو تین ججوں کی بنچ نے کرناٹک میں طلبا کو اگلے حکم تک اسکولوں اور کالجوں میں ’’مذہبی لباس‘‘ پہننے سے روک دیا تھا۔ پابندی کے بعد کرناٹک کے کئی اسکولوں نے طالبات کو حجاب پہن کر کلاسوں میں جانے سے روک دیا ہے۔

جمعرات کے روز سماعت کے دوران کلکرنی نے ایک عبوری حکم کی درخواست کی کہ مسلمان لڑکیوں کو کم از کم جمعہ کو حجاب پہننے کی اجازت دی جائے، جسے اسلام میں ایک مبارک دن سمجھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا کہ عدالت ان کے اعتراض پر غور کرے گی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اسلام کی مقدس کتاب قرآن نے یہ حکم دیا ہے کہ مسلمان خواتین کو حجاب پہننا چاہیے اور اپنے جسمانی اعضا کو بے نقاب نہیں کرنا چاہیے۔

انھوں نے عدالت میں کہا کہ ’’حجاب پر پابندی قرآن پر پابندی لگانے کے مترادف ہے۔ اگر حجاب پر پابندی کا حکم جاری رہا تو یہ قرآن پر پابندی کے مترادف ہو سکتا ہے۔‘‘

تاہم چیف جسٹس نے کلکرنی سے کہا کہ عدالت ان کی عرضی کو صرف اس صورت میں قبول کرے گی جب وہ یہ ظاہر کر دیں کہ قرآن میں مسلم خواتین کے لیے حجاب لازمی ہے۔

جمعرات کی سماعت میں عدالت نے اس تعلق سے دو دیگر درخواستوں کو مسترد کر دیا۔

اس کیس کی اگلی سماعت جمعہ کو دوپہر 2.30 بجے ہوگی۔

اس سے قبل بدھ کو سماعت کے دوران تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت مانگنے والے ایک درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے پوچھا تھا کہ جب تمام مذاہب کی علامتیں موجود ہیں تو سر پر اسکارف کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ روی ورما کمار نے کہا ’’گھونگھٹ کی اجازت ہے، چوڑیوں کی بھی اجازت ہے، عیسائیوں کے صلیب پر پابندی کیوں نہیں؟ سکھوں کی پگڑی پر کیوں نہیں؟‘‘