ہرمسئلہ سے نجات دلانے والا نسخہ کیمیا

قرآن کریم حتمی کامیابی کا سیدھا راستہ دکھانے والی کتاب

ڈاکٹر سلیم خان

رجوع الی القرآن نامی مہم کا مقصد قرآن مجید سے بہترین رشتہ استوار کرنا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے آخر اس رشتے کی ضرورت و اہمیت کیا ہے؟ اور اسے کیسے استوار کیا جائے؟ ارشادِ ربانی ہے : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور ہر اُس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کر چکا ہے ‘‘۔ قرآن حکیم کی یہ آیت ہم جیسے کمزور اہل ایمان والوں سے اپنے عقیدے کی تجدید کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہاں پر اللہ اور رسول کے بعد قرآن مجید کا ذکر ہے۔ قرآن مجید کے بغیر نہ تو رب کائنات کی حقیقی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور دنیا کی حقیقت کا علم ہوسکتا ہے۔ اس لیے کتاب الٰہی کی بنیاد پر ہی خالق کائنات اور اس کی مخلوقات کے ساتھ متوازن اور درست رشتہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ قرآن حکیم کی روشنی میں جب بندۂ مومن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرتا ہے تو اس کے اندر اطمینان و سکون پیدا ہوتا ہے اور باہر کی دنیا میں امن و امان قائم ہوجاتا ہے۔ اس لیے کتاب اللہ سے اپنا رشتہ درست کرنا لازم ہے ۔
انسانی نجات کا دارومدار ایمان و عمل پر ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے۔ ایمان کے ساتھ ساتھ عملِ خیر کی خاطر بھی رہنمائی درکار ہوتی ہے ۔ اسی لیے بندۂ مومن یہ دعا کرتا ہے:’’ ہم کو سیدھے رستے چلا‘‘۔ نماز کی ہر رکعت میں یہ ہدایت طلب کی جاتی ہے۔ اس کے کئی مفاہیم ہیں مثلاً بندہ اپنے رب سے دعا کرتا ہے میری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما اور اس پر چلا یعنی اس کی توفیق مرحمت فرما۔ ان دعائیہ کلمات میں منزلِ مقصود سے ہمکنار کردینا بھی شامل ہے۔ دعائیہ سورۂ فاتحہ کے فوراً بعد سورۂ بقرہ کے ابتداء میں فرمادیا گیا :’’یہ وہ کتاب (قرآن) ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ متقی اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے‘‘۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہےقرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ یہ نسخہ کیمیا شک و تردد کی بیماری سے شفائے کامل عطا کرکے ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال کردیتی ہے۔ یہی یقین و اعتماد انسانی زندگی میں عزم و حوصلہ اور صبر واستقامت پیدا کرتا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ہدایت نامہ کے بارے میں فرماتا ہے :’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘‘۔عام طور پر جب کتاب اللہ کی بنیاد پر کسی مسئلہ کا حل بتایا جاتا ہے تو عجلت پسند لوگ اسے لمبا راستہ سمجھ کراس سے علی الرغم کوئی شارٹ کٹ نکالنے کامشورہ دیتے ہیں حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کو دونقاط یعنی خدا اور بندے کے درمیان مختصر ترین راستہ صراط مستقیم ہی ہوسکتا ہے۔ اس راستے پر چلنے والوں کو کبھی بھی تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس رہنمائی پر عمل پیرا لوگوں کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ :’’ جو لو گ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے ‘‘۔ یعنی کتاب الٰہی پر ایمان کے ساتھ اعمال خیر بجا لائیں اور امور شر سے اجتناب کریں تو ان کے لیے اجرعظیم کی خوشخبری ہے۔ اس کا کچھ حصہ دنیامیں بھی مل جاتا ہے لیکن آخرت میں پورا پورا بلکہ خوب بڑھا چڑھا کر بدلہ دیا جائے گا۔
اس دنیا میں شاہراہوں پر روشنی کا اہتمام اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ مسافر شرحِ صدر اور اطمینانِ قلب کے ساتھ ان پر گامزن ہوں ۔ سارے خطرات و نشیب و فراز ان کی آنکھوں کے سامنے روز روشن کی مانند عیاں ہوں۔ ان کے دل کوئی اندیشہ لاحق نہ ہو اور وہ بغیر ٹھوکر کھائے اپنی زندگی کا سفر طے کریں بلکہ اس سے خوب لطف اندوز ہوں اور منزلِ مقصود یعنی رضائے الٰہی سے ہمکنار بھی ہوجائیں۔ اللہ تباک وتعالیٰ اپنی نازل کردہ کتاب مبین کو روشنی سے تعبیر فرماتا ہے۔ ارشادِ حقانی ہے :’’ پس ایمان لاؤ اللہ پر، اور اُس کے رسول پر، اور اُس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے‘‘۔ قرآن کی روشن شاہراہ پر چلتے ہوئے انسان ایک لمحہ کے لیے اس حقیقت سے غافل نہیں ہوتا کہ وہ اللہ کی نظر سے اوجھل ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے اس کے ہر عمل خیر کی پذیرائی ہوگئی۔ کتاب اللہ کی رہنمائی سے فیضیاب ہونے کے لیے سراپا تقویٰ کی صفت یعنی ہمیشہ کی رفاقت کا احساس لازم ہے۔ اس سے اپنے رفیق سفرخوشنودی کا شوق اور ناراضی کا خوف زندہ و تابندہ رہتا ہے۔
ربانی ہدایت و رحمت کا یہ نور اہل ایمان کے لیے مخصوص ہے۔ فرمانِ قرآنی ہے :’’ تمہارے رب کی طرف سے یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں اور ہدایت اور رحمت اُن لوگوں کے لیے ہے جو اِسے قبول کریں‘‘۔ صدق دل سے ایمان لاکر قرآن حکیم کی جانب رجوع کرنے والوں سے متعلق ایمان لانے والوں کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ:’’اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے‘‘۔ اس طرح گویا قرآن حکیم کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اہل ایمان گمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کر ہدایت کی کھلی روشنی میں لے آئےجاتے ہیں۔ اس نعمت سے بہرہ ور ہونے کے لیے اولین صفت بندے کے اندر رضائے الٰہی کی طلب ہے۔ بندۂ مومن کے دل کی اگر یہ کیفیت نہ ہو تو یہ حق نما کتاب نہ سلامتی کا راستہ بتاتی اور نہ اس کو ظلمت سے نکال کر پرنور شاہراہ کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔
قرآن حکیم کے ساتھ بہترین رشتہ استوار کرنے راہِ حق پر مستقل مزاجی سے گامزن رہنے کے لیے کتاب اللہ کی تلاوت ضروری ہے ۔ فرمانِ ربانی ہے:’’تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے‘‘۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے کہ:’’ وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں‘‘۔ یعنی تلاوت اس کتاب کے شایانِ شان ہونی چاہیے اور زبان کے ساتھ دل کی بھی اس عمل میں شراکت داری ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ نظر کتاب پر ، الفاظ زبان پر اور دل بازاردنیا میں کھویا ہوا ہو۔ نبیٔ کریم ﷺ کو دیا جانے والا یہ حکم ہمارے لیے بھی ہے کہ:’’یہ قرآن پڑھ کر سناؤں‘‘۔ قرآن کو سنانے کے معنیٰ میں اس کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور سنائے تو اس کی بغور سماعت بھی ضروری ہے۔ فرمان ِربانی ہے کہ :’ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہو جائے” ۔ عام طور سےٹیلی ویژن یا ریڈیو قرآن مجید کی تلاوت لگا کر دیگر کاموں میں مصروف ہوجانا تلاوت کی بے حرمتی اور اس حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ کتاب سننے اور سنانے سے آگے بڑھ کر غورو تدبر کا بھی تقاضہ کرتی ہے۔ فرمان قرآنی ہے:’’یہ بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔ تعلیم تدریس سے آگے بڑھ کریہ حکم بھی ہے کہ :’’ اُنہیں کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے‘‘۔ امت کےباہمی تنازعات کا حل بھی اللہ کی کتاب سے رجوع کرنے میں ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو‘‘ اس کے بعد ایمان کا تقاضہ ہے کہ : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو‘‘۔ آپسی تنازعات سے نجات کی خاطر اللہ کی کتاب سے رجوع ہونے اور اس کے حکم کی بجا آوری کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
ملی اتحاد کی سبیل بھی اس کتاب کومضبوطی سے تھام لینا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے قرآن حکیم سے رجوع کرنا ہی دنیا و آخرت کی فلاح کا ضامن ہے۔ اس لیے اللہ کی کتاب سے اس کے بتائےہوئے طریقہ پر رشتہ استوار کرنا ضروری ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022