عدالت کے امتناعی احکامات کے باوجود عمر خالد کو ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں پیش کرنے کا سلسلہ جاری

نئی دہلی، فروری 17: دہلی پولیس نے آج جیل میں بند کارکن عمر خالد کو دو عدالتی احکامات کے باوجود ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا۔

خالد کو ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ تاہم چوں کہ جج چھٹی پر تھے، لہذا عدالت کے ایک اہلکار نے صرف خالد کی موجودگی کا نوٹس لیا۔

خالد کے وکلاء تردیپ پیس، سانیا کمار اور رخشندہ ڈیکا کے مطابق پولیس حکام نے 7 اپریل کو جاری کردہ ایک حکم کے مطابق عمر خالد کو ہتھکڑیوں میں پیش کیا۔

تاہم وکلا نے نوٹ کیا کہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ پنکج شرما کے 17 جنوری کے ایک حکم میں کہا گیا تھا کہ خالد کو بیڑیوں یا ہتھکڑیوں کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ پولیس کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کرنے کی ہدایت دینے والا کوئی حکم نہیں مل سکتا۔

جون میں ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے پولیس کی طرف سے خالد کو ہتھکڑیوں میں پیش کرنے کی درخواست کو بھی خارج کر دیا تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ کارکن کو نہ تو اس سے پہلے کسی کیس میں سزا سنائی گئی تھی اور نہ ہی وہ گینگسٹر ہے۔

خالد کے وکلا نے جمعرات کو کہا کہ وہ اس معاملے کو عدالت میں اٹھانے کے عمل میں ہیں۔

خالد پر دہلی فسادات سے متعلق کیس کے سلسلے میں شہر کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طالب علم میران حیدر اور طالبہ صفورا زرگر کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

اپنی پہلی معلوماتی رپورٹ میں پولیس نے الزام لگایا کہ خالد نے دو احتجاجی مقامات پر اشتعال انگیز تقریریں کیں اور دہلی کے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ریاست ہائے متحدہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے دوران سڑکوں پر مظاہرے کریں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ خالد کا مقصد ’’عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈا‘‘ پھیلانا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔