قسطوں میں مر رہے ہیں گجرات فسادات کے متاثرین
’سٹیزن نگر‘ میں کوڑے کے ڈھیر پر انسانی زندگی ۔فساد زدگان پر تحقیق کرنے والے عادل حسین کے ساتھ دعوت کی خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
’کبھی ان کے پاس اپنا گھر تھا لیکن آج وہ کوڑے کے ڈھیر پر رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ بیس سال بعد بھی زیادہ تر فساد متاثرین کی زندگی میں کچھ خاص تبدیلی واقع ہوئی نہیں ہے، بلکہ ان کی پریشانیوں میں دن بدن مزید اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ان کی پریشانیوں کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح روز روز مرنے سے تو بہتر تھا کہ ہم بھی بیس سال پہلے فسادات میں مرنے والوں کے ساتھ ہی مر گئے ہوتے۔۔۔‘
گجرات فسادات کے متاثرین کو لے کر یہ باتیں عادل حسین کی ہے جنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ سے گجرات فساد متاثرین کی شہریت کے سوال پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ عادل حسین کا ریسرچ کا کام گجرات کے بامبے ہوٹل علاقے کے سٹیزن نگر میں ہے۔ تقريبا ڈیڑھ سال تک عادل حسین اسی علاقے کے آس پاس رہے اور یہاں کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ 2020ء میں انہوں نے ’ Politics of Citizenship among the survivors of 2002 Riots‘ کے عنوان پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا اور اسی پر ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔ عادل حسین نے اس موضوع پر کتاب بھی لکھی ہے، امید ہے کہ وہ جلد ہی کسی مشہور ومعروف پبلیکشن کے ذریعے شائع ہو کر منظر عام پر آئے گی۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں عادل حسین بتاتے ہیں کہ ’کہنے کو اس علاقے کا نام ’سٹیزن نگر‘ ہے لیکن اس ملک کے ’سٹیزن‘ ہونے کے ناطے جو ان کے بنیادی حقوق ہیں، وہ اس ’سٹیزن نگر‘ میں نظر نہیں آتے اور نہ ہی مستقبل میں انہیں یہ حقوق ملنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پورے گجرات کا کچرا لا کر ڈالا جاتا ہے۔ یہاں 80 ملین میٹرک ٹن کے کچروں کے تین بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں کی اونچائی 74 تا 80 فٹ ہے، یہیں گجرات فساد متاثرین کے 110 خاندان رہتے ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اتنے بڑے ’Environmental Disaster‘ کے پاس ان کو رہنے پر مجبور کیا گیا ہے تو ان کو کیا کچھ کیا پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہوں گی۔ کئی بار ان لوگوں نے مجھے کہا کہ ’فسادات میں تو شاید ہم ایک جھٹکے ہی میں مر جاتے مگر یہاں ہم ہر روز تھوڑا تھوڑا مر رہے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ جب فسادات ہوئے تھے تو کچھ تنظیموں نے پورے ملک میں ان کی بازآباد کاری کے لیے چندہ جمع کیا اور انہیں ریلیف کیمپوں سے ہٹا کر بسنے کے لیے کچھ جگہیں دے دی تھیں تب ان کو تسلی ہوئی تھی کہ انہیں سر چھپانے کو ایک چھت مل گئی۔ لیکن اب ان کی زندگی میں پھر سے پریشانیاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ اب انہیں پوچھنے کوئی نہیں آتا۔ یہاں انہیں ہر دن نئی نئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوبارہ چھت کے چھینے جانے کا ڈر ہر وقت ان کو ستاتا رہتا ہے۔
عادل حسین نے کہا ہے کہ میں ان لوگوں کے پاس فساد کے 15 سال بعد گیا تھا، ان کے پاس زمین کے کاغذات نہیں ہیں۔ اب جب کاغذات ہی نہیں ہیں تو ان کو کب اس زمین سے بے دخل کر دیا جائے گا نہیں معلوم۔ انہیں یہ ڈر ہمیشہ ستاتا رہتا ہے کہ کبھی بھی ان کا گھر ایک بار پھر سے اجڑ سکتا ہے۔ اس وقت جو تنظیمیں انہیں بسانے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں، ان سے جب میں نے دریافت کیا تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس زمین کے کاغذات یا اس سے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ جب میں وہاں کا ’لینڈ ریکارڈ‘ دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ یہ زرعی زمین ہے اور کسی پٹیل خاتون کے نام پر ہے۔ یعنی معاملہ لینڈ ٹائٹل میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں اس بات کی کوئی گیارنٹی نہیں ہے کہ انہیں مستقبل میں یہاں رہنے دیا جائے گا۔
عادل حسین مزید کہتے ہیں کہ جب فساد ہوتا ہے تو اس وقت لوگوں کے دل میں درد اور ان کی مدد کا جذبہ تازہ رہتا ہے، تنظمیں چندہ جمع کرتی ہیں اور جیسے تیسے فساد متاثرین کو کوڑے کے ڈھیر پر لا کر بسا دیا جاتا ہے، لیکن فساد متاثرین کی پریشانیوں کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہتا ہے، جس کی طرف لوگوں کا دھیان شاید ہی کبھی جاتا ہے۔ فساد متاثرین کا یہ بھی الزام ہے کہ ہمارے نام پر چندہ تو خوب جمع ہوا، لیکن نہ وہ ان تک پہنچا نہ ان کے مستقبل کا کسی نے سوچا بلکہ ان کے نان شبینہ کے بارے میں بھی کسی نے نہیں سوچا۔ ان کے پاس کوئی سرکاری کاغذات نہیں تھے۔ ہرش مندر صاحب رائٹ ٹو فوڈ کے تحت ان کے معاملے کو لے کر عدالت گئے، تب سپریم کورٹ نے حکومت کو ان فساد متاثرین کو راشن کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا جس کے بعد 2009ء میں انہیں ’انتودیا کارڈ‘ دیا گیا، اس سے قبل ان کے پاس کوئی کارڈ نہیں تھا۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ ایک طویل گفتگو میں عادل حسین بتاتے ہیں کہ میں جب بھی سماجی کارکنوں کے مضامین پڑھتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ انصاف کا سوال سب سے بڑا اور اہم ہے۔ چنانچہ گجرات فساد کے 15 سال بعد جب میں ’سٹیزن نگر‘ گیا تو مجھے توقع تھی کہ یہاں لوگ شاید عدل وانصاف کی بات کریں گے لیکن اب ان کے نزدیک ذریعہ معاش اور ان کی روزمرہ زندگی کی جدوجہد اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ لوگ کافی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، عدل اور انصاف کی امید تو یہ لوگ بہت پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہاں کچھ گواہوں کو تحفظ دینے کے لیے بطور باڈی گارڈ سی آر پی ایف کے جوانوں کو تعینات کیا گیا تھا، لیکن یہ جوان صرف مہینے میں ایک بار آتے تھے اور ان کی دستخط لے کر چلے جاتے تھے۔
عادل حسین کا کہنا ہے کہ بطور شہری جو ان کے بنیادی حقوق ہیں، وہ بھی انہیں یہاں نہیں مل رہے ہیں۔ ’سوچھ بھارت ابھیان‘ میں پورے ملک میں صفائی کی مہم چلی، لیکن یہ مہم ان کے علاقے میں نہیں پہنچی۔ پورا احمد آباد صاف ستھرا ہے، لیکن جس جگہ پر احمد آباد کا کچرا لا کر ڈالا جا رہا ہے اسی جگہ پر ان کو رہنا پڑ رہا ہے۔ چراغ تلے جو اندھیرا ہوتا ہے اسی اندھیرے میں انہیں رہنا پڑ رہا ہے۔
عادل حسین کہتے ہیں کہ بطور انڈین شہری ان کو ’رائٹ ٹو ہیلتھ‘ ملنا چاہیے، لیکن یہاں آس پاس کوئی سرکاری ہسپتال نہیں ہے۔ جبکہ یہاں کوڑے کی بدبو چاروں طرف ہمیشہ پھیلی رہتی ہے۔ آس پاس کچھ کیمیکل فیکٹریاں بھی ہیں ان سے نکلنا والا زہریلا دھواں یہاں کی ہوا میں ملا ہے، اسی ہوا میں یہ لوگ سانس لیتے ہیں۔ ان سب وجوہات کی بنا پر ان میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، لیکن اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ انہیں بطور شہری ’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘ ملنا چاہیے، لیکن آس پاس ایک بھی سرکاری اسکول نہیں ہے۔ کچھ مسلمانوں نے آس پاس کے علاقوں میں کچھ اسکولس کھولے ہیں بعض پرائیویٹ بھی ہیں لیکن فیس زیادہ ہونے کہ وجہ سے یہ لوگ اپنے بچوں کو وہاں پڑھانے سے قاصر ہیں۔ ’سابرمتی ڈیولپمنٹ ریور فرنٹ‘ بنانے کے لیے اس کے آس پاس کے لوگوں کی جھونپڑیاں ہٹائی گئیں تو انتظامیہ کی طرف سے ان کو گھر دیے گئے۔ فساد متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم لوگ بھی بے گھر ہوئے ہیں، ہمیں بھی ایسی ’سوشل ہاوسنگ‘ کی سہولت ملنی چاہیے، جس کا ہمارے پاس کاغذ ہو اور ٹائٹل بھی لیگل ہو، اور جہاں ہم بغیر کسی پریشانی کے اپنی باقی زندگی گزار سکیں۔ لیکن انہیں حکومت کی کسی بھی اسکیم کا فائدہ ملتا ہوا نظر نہیں آتا۔
عادل حسین کہتے ہیں کہ سب سے اہم چیز جو میں نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کی عورتیں کافی مضبوط حوصلہ والی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فساد سے پہلے ہم لوگ اتنی بات چیت نہیں کرتے تھے لیکن اب ہمیں ضرورت ہے کہ ہم بھی اپنی زبان کھولیں اور دنیا کو بتائیں کہ ہم کن مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ میں نے اپنے ریسرچ کے درمیان پایا کہ سب سے زیادہ کام عورتوں کو ہی کرنا پڑتا ہے، یہاں پانی کی بہت بڑی قلت ہے جو صرف ایک ٹینکر میں آتا ہے۔ پانی کے لیے ہر روز لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ اپنے گھروں میں پانی کے لئے یہی عورتوں جدوجہد کرتی ہیں۔
عادل حسین مزید کہتے ہیں کہ اس وقت پورے گجرات میں 86 ریلیف کالونیاں ہیں، جن میں تین ہزار سے زائد خاندان رہ رہے ہیں۔ لیکن میں نے ریسرچ کے لیے صرف ’سٹیزن نگر‘ کو ہی چنا یے۔ ریلیف کالونیوں کی حالت بھی بہتر نہیں کہی جا سکتی۔ کم وبیش سب کی حالت ایک جیسی ہی ہے۔ زیادہ تر کالونیوں میں رہنے والے لوگوں کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق نہیں ہیں۔ ان کے پاس زمین کے کوئی کاغذات نہیں ہیں۔ یہ لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ یاد رہے کہ 2002ء کے فسادات میں دو لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ڈیمونیٹائزیشن کا وقت کافی برا گزرا۔ کوویڈ کے دوران انہیں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران زیادہ تر لوگوں کی آمدنی بند ہوگئی تھی۔ فسادات سے پہلے ان میں سے کئی لوگوں کا خود کا ذاتی بزنس تھا، لیکن فسادات میں سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ اب دوبارہ کاروبار شروع کرنے کے لیے ان کے پاس پونجی باقی نہیں بچی ہے اور حالات بھی بدل گئے ہیں اس لیے دوبارہ کاروبار جمانا اب کافی مشکل ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ان فساد متاثرین کو اسکل ٹریننگ دی جائے، ان کے لیے کچھ روزگار کے ذرائع پیدا کیے جائیں تاکہ یہ لوگ مستقبل میں یہاں سے کسی بہتر جگہ منتقل ہو جائیں۔ بہت سے لوگ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، لیکن نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں، اس کا کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ ان کی ایک نسل تو تباہ و برباد ہو چکی ہے لیکن ہمیں ان کی اگلی نسل کی بہتری کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
***
اس علاقے کا نام ’سٹیزن نگر‘ ہے لیکن اس ملک کے ’سٹیزن‘ ہونے کے ناطے جو ان کے بنیادی حقوق ہیں، وہ اس ’سٹیزن نگر‘ میں نظر نہیں آتے اور نہ ہی مستقبل میں انہیں یہ حقوق ملنے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پورے گجرات کا کچرا لا کر ڈالا جاتا ہے۔ یہاں 80 ملین میٹرک ٹن کے کچروں کے تین بڑے بڑے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں کی اونچائی 74 تا 80 فٹ ہے، یہیں گجرات فساد متاثرین کے 110 خاندان رہتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 تا 19 مارچ 2022