گوا: کانگریس کے 11 میں سے 8 ایم ایل اے بی جے پی میں شامل
نئی دہلی، ستمبر 14: گوا میں کانگریس کے 11 میں سے آٹھ ایم ایل اے بدھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو گئے۔
جن ایم ایل ایز نے پارٹی بدلی ان میں قائد حزب اختلاف مائیکل لوبو، ڈگمبر کامت، ڈیلاہ لوبو، راجیش پھلدیسائی، کیدار نائک، سنکلپ امونکر، ایلیکسو سیکیرا اور روڈولف فرنانڈز شامل ہیں۔
کامت 2007 سے 2012 تک گوا کے وزیر اعلیٰ رہے، وہ جولائی 2019 سے مارچ 2022 تک اپوزیشن کے رہنما بھی رہے۔
اے این آئی کے مطابق لوبو نے کہا ’’ہم نے پی ایم [وزیر اعظم] مودی اور وزیر اعلیٰ پرمود ساونت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کانگریس چھوڑو، بی جے پی کو جوڑو۔‘‘
کانگریس کیمپ میں رہنے والے تین ایم ایل اے آلٹون ڈی کوسٹا، یوری الیماو اور کارلوس فریرا ہیں۔
اس پیش رفت کے ساتھ ہی بی جے پی کے پاس گوا اسمبلی میں 40 میں سے 33 سیٹیں ہوں گئی ہیں۔ ہندوتوا پارٹی پہلے ہی 20 ایم ایل ایز کے ساتھ اقتدار میں تھی اور مہاراشٹر وادی گومانتک پارٹی کے دو قانون سازوں اور تین آزاد امیدواروں کی اسے حمایت حاصل تھی۔
عام آدمی پارٹی کے دو ایم ایل اے ہیں، جب کہ گوا فارورڈ پارٹی اور ریولوشنری گوان پارٹی کے پاس ایک ایک قانون ساز ہے۔
بدھ کو گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت نے کہا کہ کانگریس کے اراکین نے ایک نیا ہندوستان بنانے اور گوا کی ترقی کے لیے مودی کے وژن کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔
ساونت نے مزید کہا ’’وہ حکومت میں شامل ہوئے ہیں اور ہماری حمایت کی ہے۔ میں ان کا استقبال کرتا ہوں۔ گوا کی ترقی میں یہ ایک تاریخی فیصلہ ثابت ہوگا۔‘‘
کامت نے وزیر اعظم کی یہ کہتے ہوئے بھی تعریف کی کہ ان کے کام نے ہندوستان کے شہریوں کے لیے عالمی شناخت حاصل کی ہے۔
کامت نے کہا کہ کانگریس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔
وہیں کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے کہا ’’جو لوگ بھارت جوڑو یاترا کے مشکل سفر میں شامل نہیں ہو پا رہے ہیں، وہ بی جے پی کی دھمکیوں سے ڈر کر تقسیم کرنے والوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ لیکن سمجھ لو کہ قوم دیکھ رہی ہے۔‘‘
2019 میں کانگریس کے 15 میں سے دس ایم ایل اے غیر مشروط طور پر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔
2022 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے کانگریس-گوا فارورڈ پارٹی اتحاد کے تمام 40 امیدواروں نے ’’وفاداری کا عہد‘‘ لیا تھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’’کبھی بھی کسی ایسی سرگرمی کی حمایت یا حصہ نہیں لیں گے جو گوا کی شناخت کو بیچے۔‘‘