سیاسی جماعتوں یا امیدواروں پر نفرت انگیز تقریر کی وجہ سے پابندی لگانے کا ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا

نئی دہلی، ستمبر 14: انڈیا کے الیکشن کمیشن نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس کے پاس نفرت انگیز تقریر کی وجہ سے کسی سیاسی جماعت یا اس کے اراکین پر پابندی لگانے کا اختیار نہیں ہے۔

انتخابی پینل نے ایک حلف نامے میں نشان دہی کی کہ چوں کہ نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے، اس لیے اس نے اکثر تعزیرات ہند اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت کارروائی کی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سیاسی پارٹیوں کے اراکین ایسے تبصرے نہ کریں جن سے نفرت پیدا ہو سکے۔

کمیشن نے یہ بیانات وکیل اشونی اپادھیائے کی درخواست کے جواب میں دیے، جس میں مرکز سے نفرت انگیز تقاریر پر لاء کمیشن کی رپورٹ 267 کی سفارشات کو لاگو کرنے کو کہا گیا تھا۔

اپادھیائے کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’شہریوں کو پہنچنے والی چوٹ بہت زیادہ ہے کیوں کہ ‘نفرت انگیز تقریر اور افواہیں پھیلانے’ میں افراد یا معاشرے کو دہشت گردی، نسل کشی وغیرہ کے لیے اکسانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘‘

اگرچہ لاء کمیشن کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو پارٹیوں کی شناخت ختم کرنے اور امیدواروں کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں دیتی، تاہم اس نے فوجداری قانون میں ترامیم کی سفارش کی ہے تاکہ ’’نفرت پر اکسانے اور خوف، خطرے کی گھنٹی یا تشدد کو ہوا دینے کے جرم کو سزا دی جا سکے۔‘‘

الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو فرقہ وارانہ بیانات دینے سے روکنے کے لیے 2017 میں فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق پینل نے شکایات کا ’’سخت نوٹ‘‘ لیا تھا اور امیدواروں یا ایجنٹوں کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجے تھے۔