گیان واپی کیس کی سماعتغیر آئینی
احتشام الحق آفاقی
وارانسی کی مقامی عدالت نے گیان واپی مسجد مقدمہ کی سماعت کے دوران اپنے حکم نامے میں کہا کہ متعلقہ معاملہ زیر سماعت ہے اور اس پر مزید سماعت ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ پانچ ہندو خواتین عرضی گزاروں نے عدالت میں درخواست دے کر گیان واپی مسجد کے صحن میں مغربی دیوار کے پاس مبینہ طور پر واقع ’’شرنگار گوری‘‘ کی مورتی تک بلا روک ٹوک رسائی اور پوجا کرنے کی اجازت مانگی تھی، جس پر وارانسی کی مقامی عدالت نے انجمن انتظامیہ کمیٹی کی اس دلیل کر مسترد کر دیا کہ 1991ء کے عبادت گاہوں سے متعلق خصوصی قانون کے مد نظر اس تنازعہ کی سماعت نہیں ہو سکتی، اور اس کے برخلاف فیصلہ سنایا کہ معاملہ سماعت کے قابل ہے اور اس پر مزید سماعت ہو سکتی ہے۔ عدالت نے اس معاملہ میں آئندہ سماعت کی تاریخ 22 ستمبر مقرر کی ہے۔ وارانسی کی عدالت کے اس فیصلہ پر انگریزی روزنامہ ’دا انڈین ایکسپریس‘ نے اپنے 13 ستمبر کے شمارے میں لکھا کہ: ’’گیان واپی مسجد پر وارانسی کی عدالت کا حکم طویل قانونی عمل کا آغاز کرتا ہے اور عدالت کے اندر اور باہر ایک چیلنج پیدا کرتا ہے‘‘ اخبار نے مقامی عدالت کے فیصلہ کو سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلہ کو چیلنج کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سال 2019ء میں بابری مسجد کے تناظر میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’قانون سازی کا پیمانہ ہندوستانی سیاست کی سیکولر خصوصیات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے جو کہ آئین کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے۔‘‘ اخبار نے مزید لکھا کہ اس سال جون میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے اس بات پر زور دیا کہ گیان واپی تنازعہ میں عقیدے کے مسائل شامل ہیں لیکن ہر مسجد میں شیولنگ تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی سوال اٹھایا۔ انڈین ایکسپریس کا ماننا ہے کہ وارانسی کی عدالت نے ایک نئے قانونی عمل کے دروازے کھول دیے ہیں جس کے تمام راستے اعلیٰ ترین عدالت تک جاتے ہیں جو در اصل بہت پیچیدہ عمل ہے۔
ہندی روزنامہ دینک جاگرن نے 13 ستمبر کے شمارے میں عدالت کے فیصلہ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس بات کو شہ دینے پر آمادہ ہے کہ گیان واپی احاطے میں مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی ہے۔ اخبار کا یہ بھی ماننا ہے کہ گیان واپی کی مذہبی حقیقت کو جاننے کے لیے کسی تحقیق کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ نہ صرف کھلی آنکھوں سے نظر آتا ہے کہ مندر کو نیست و نابود کر کے مسجد کھڑی کی گئی ہے بلکہ اس کے شواہد بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود ایسے تمام معاملوں کا تصفیہ عدالتیں کریں، جن کے بارے میں یہ تنازعہ ہے کہ وہاں مندروں کو توڑ کر مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ دینک جاگرن نے مزید تلخ تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ: ’’سمجھنا مشکل ہے کہ مسلمانوں کے مذہبی رہنما اور سیاسی لیڈر اس سچ کو قبول کرنے سے کیوں انکار کر رہے ہیں کہ غیر ملکی حملہ آوروں اور ان کی اولادوں نے سیکڑوں مندروں کو نیست و نابود کرکے وہاں مسجدیں بنوائیں؟ سچ کا سامنا کرنے سے انکار کرنا خود کو دھوکے میں رکھنے کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کے قیام میں مشکلیں پیدا کرنا ہے۔ ‘‘
گیان واپسی مسجد کے تناظر میں وارانسی کی مقامی عدالت کے حکم نے کئی پیچیدہ سوالات کو جنم دیا جس کا جواب مستقبل قریب میں ملنا اگرچہ مشکل ہے تاہم اس کے نتائج مستقبل بعید میں بہت خطرناک ہوں گے۔ اس فیصلے کے تناظر میں کثیرالاشاعت اردو روزنامہ راشٹریہ سہارا نے اپنے 13 ستمبرکے شمارہ میں ’’ کیا گیان واپی مسجد دوسری بابری مسجد بنے گی؟‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں کئی اہم سوالات کے جوابات ڈھونڈھنے کی کوشش کی ہے۔ اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ: ’’بابری مسجد تنازع پر عدالتوں نے ثبوتوں پر کتنی توجہ دی تھی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، البتہ یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ بابری مسجد تنازع نہ صرف فسادات کی وجہ بنا تھا بلکہ فسادات میں کئی لوگوں کی جانوں کے اتلاف کا سبب بھی بنا تھا اور بابری مسجد کی مسماری نے عالمی برادری کو حیرت زدہ بھی کر دیا تھا، کیونکہ 6 دسمبر 1992ء سے پہلے تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان میں ایسے کسی سانحے کے وقوع پذیر ہونے کی گنجائش نہیں ہے مگر مسجد کی مسماری نے یہ ثابت کر دیا کہ بدلتے حالات کا اثر لوگوں کے مزاج پر ہی نہیں، ان کے قول و عمل پر بھی پڑتا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حالات کی تبدیلی میں سیاسی تبدیلیوں کا بڑا رول ہوتا ہے۔ حالات سیاسی نفع و نقصان کی مناسبت سے بدلتے ہیں، اس لیے گیان واپی مسجد معاملے پر غور کرتے وقت بھی حالات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں دو سال بھی نہیں بچے ہیں۔‘‘
70 سال کے طویل عرصے تک دنیا کی سپر پاور طاقتوں پر حکمرانی کرنے والی ملکہ الزبتھ دوم کا گزشتہ 8 ستمبر کو انتقال ہو گیا۔ ملکہ الزبتھ دوم نہ صرف ملکہ برطانیہ بلکہ پوری دنیا میں اپنی گوناگوں خصوصیات کی وجہ سے خاصی مقبول تھیں۔ ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال پر دی ہندو نے اپنے 10 ستمبر کے شمارہ میں لکھا ’’ملکہ کا انتقال برطانوی سلطنت کے لیے ایک عہد کے خاتمہ کی علامت ہے‘‘ اخبار نے اپنے اداریہ میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ تمام تر مشکلات پر فتح پانے میں ان کی خاموش طبیعت کا بھی عمل دخل رہا ہے جس نے تمام تر سیاسی مبصرین کو ایک ’’بند کتاب‘‘ کے اندر شاہی خاندان اور خود ملکہ کے بارے میں جو چاہیں رائے قائم کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ اخبار نے ملکہ الزبتھ دوم کی دور حکمرانی میں پیدا شدہ مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’ان کی موت بادشاہت کی حالت اور دولت مشترکہ کی خود مختاری کے بارے میں بھی پیچیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے کیونکہ ان ممالک کے سماجی و اقتصادی ماحول میں الزبتھ دور کے مقابلے میں مسلسل اور اختراعی تبدیلیاں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا میں جاری مباحثوں پر غور کریں۔ ملک کو جمہوریہ کے طور پر قائم کرنے کے لیے ایک عوامی تحریک چل رہی ہے۔ خاص طور پر، وزیر اعظم انتھونی البانی کی حکومت مقامی اور ٹورس اسٹریٹ آئی لینڈر کمیونٹیز کے درمیان ایک معاہدہ کرنے کی خواہشمند ہے۔ 2021ء میں بارباڈوس برطانوی بادشاہت کو سربراہ مملکت کے کردار سے ہٹانے والا 18 واں ملک بن گیا۔‘‘
گزشتہ دو برسوں سے اتر پردیش کی ایک جیل میں قید صحافی صدیق کپن کی ضمانت کے بعد رہائی کے معاملہ کے سلسلے میں عدالت عظمی نے سماعت کرتے ہوئے ان پر درج مقدمات اور ان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات پر اتر پردیش حکومت کی خبر لی ہے۔ صدیق کپن کو اتر پریش کے ہاتھرس میں جہاں ایک دلت لڑکی کو اجتماعی عصمت دری کے بعد بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا رپورٹنگ کے لیے جاتے وقت گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ صحافی صدیق کپن کو ضمانت ملنے پر انگریزی روزنامہ دی ہندو نے اپنے 12 ستمبر کے شمارہ میں ’’عدالت عظمیٰ نے صحافی صدیق کپن کے خلاف یو پی اے کے تحت الزامات کی کمزور بنیادوں کا پردہ فاش کیا ہے‘‘ کے زیر عنوان اپنے اداریہ میں لکھا کہ اتر پردیش میں صحافی صدیق کپن کی طویل جیل کی سزا بھی اس نظام کی ایک انتہائی شیطانی مثال ہے جہاں کسی فرد کے لیے جھوٹے مقدمے کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کچھ معمولی شرائط کے ساتھ ضمانت پر رہائی کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کئی سوالات اٹھائے اور غیر قانونی سرگرمیوں کے (روک تھام) ایکٹ میں ضمانت سے انکار کے اصول کو درکنار کر دیا، مزید یہ بھی کہا کہ اسے مزید حراست میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
تقریباً سات دہوں تک ہندوستان پر حکمرانی کرنے والی کانگریس پارٹی آج اپنے وجود کو بچانے کے لیے سخت ترین دور سے گزر رہی ہے۔ لیکن عوام الناس میں اپنا کھویا ہوا اعتماد کو بحال کرنے کے لیے 3500 کلو میٹر پر مشتمل پیدل مارچ ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ پر سیاسی ناقدین اور دانشوروں نے سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور چند دنوں کے اندر ہی اس کی کامیابی و ناکامی پر ملا جلا رد عمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ کانگریسی لیڈروں کی منتشر مزاجی اور ان کے آپسی رسہ کشی کی نشان دہی کرتے ہوئے ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘ کی کامیابی پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ کانگریس پارٹی کے عوام میں اپنا کھویا ہوا وقار کو حاصل کرنے کے لیے ملک گیر یاترا نے سیاسی طور پر کافی ہلچل مچا دی ہے۔ اس کے باوجود برسر اقتدار بی جے پی کانگریس کو کنبہ پروری اور کانگریس لیڈر شپ سمیت متعدد محاذ پر نشانہ بنانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہے۔ وہیں اس ملک گیر تحریک سے کانگریس کے کچھ سینئر لیڈروں میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے ایسے وقت میں ایک غیر سیاسی مصروفیت کو ترجیح دینے کی دانشمندی کے بارے میں سوچا ہے جب کئی ریاستوں میں اسمبلی کے اہم انتخابات عنقریب ہیں۔ سوچ کی یہ لکیر ثابت کرتی ہے کہ پارٹی کو اپنی توانائی اور وسائل اگلے سال ان انتخابات کی تیاری میں صرف کرنی چاہیے تھی۔ بھارت جوڑو یاترا کا مقصد اصلاح ہے جو پارٹی کو عوامی شعور میں جمہوریت کی کچھ بنیادی اقدار کو زندہ کرنے میں مدد کرے گی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
کانگریس پارٹی کی بھارت جوڑو یاترا پر اٹھنے والے سوالات پر روزنامہ انقلاب نے اپنے 14 ستمبر کے شمارے میں یاترا کو تنازعہ سے بچانے کا مشورہ دیا ہے۔ اخبار کا ماننا ہے کہ یہ کانگریس کی حکمت عملی کا امتحان ہے کہ وہ اپنے ناقدین سے کس طرح نمٹتی ہے۔ اس یاترا پر تنقید کے ہزار بہانے ڈھونڈھے جائیں گے اور بہانہ نہ ملتا ہو تو من گھڑت باتیں جوڑی جائیں گی اس لیے کانگریس کو ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہو گا۔ اخبار نے لکھا ہے: ’’ہماری نظر میں اب تک کی یاترا توقع سے زیادہ کامیاب تو ہے اور اس سے آئندہ کے امکانات بھی روشن ہو رہے ہیں اور ایسا محسوس ہے کہ وقت کے ساتھ اس کو ملنے والی مقبولیت میں اضافہ ہو گا کیوں کہ سیاسی ہوتے ہوئے بھی اسے غیر سیاسی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ‘‘بہر حال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کانگریس کے لیے یہ یاترا کس قدر کامیاب اور کارگر ثابت ہوتی ہے لیکن حکمراں جماعت کی جانب سے بھی اس یاترا کو ناکام بنانے کے لیے کچھ کم سازشیں نہیں رچی جا رہی ہیں۔
***
وارانسی کی عدالت نے طویل قانونی کشاکش کی راہ کھول دی: انڈین ایکسپریس
عدالتیں مندریں توڑ کر مسجدیں بنانے کے تمام معاملات کا تصفیہ کریں: دینک جاگرن
ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کا انتقال ایک عہد کا خاتمہ
صحافی صدیق کپن کو ضمانت سے انکار کا کوئی جواز نہیں تھا
کانگریس پارٹی کی بھارت جوڑو یاترا مقبولیت کی سمت میں رواں دواں۔ مختلف اخبارات کی رائے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022