شناختی دستاویزات میں والد کا نام نہ بتانا شہریوں کا بنیادی حق، کیرالہ ہائی کورٹ کا حکم

نئی دہلی، جولائی 24: ایک اہم معاملے میں کیرالہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ شہریوں کو شناخت ثابت کرنے کے لیے درکار دستاویزات میں اپنے والد کا نام نہ بتانے کا بنیادی حق حاصل ہے۔

لائیو لاء کی خبر کے مطابق 19 جولائی کے فیصلے میں جسٹس پی وی کنہی کرشنن نے کہا کہ لوگ اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور دیگر شناختی دستاویزات میں صرف اپنی ماں کا نام رکھ سکتے ہیں۔ جج نے کہا کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ تمام شہریوں کی حفاظت کرے، بشمول ان لوگوں کے جو غیر شادی شدہ عورت سے یا عصمت دری کے بعد پیدا ہوئے ہوں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’غیر شادی شدہ ماں کا بچہ بھی ہمارے ملک کا شہری ہے اور کوئی بھی اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، جس کی ضمانت ہمارے آئین میں دی گئی ہے۔ کوئی بھی ان کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہیں کر سکتا اور اگر ایسا ہوا تو اس ملک کی آئینی عدالت ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے گی۔‘‘

عدالت ایک ایسے فرد کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی جو پیدائش کے رجسٹر اور دیگر دستاویزات سے اپنے والد کا نام حذف کرنا چاہتا تھا۔ بار اینڈ بنچ کے مطابق درخواست گزار یہ بھی چاہتا تھا کہ نئے سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں جن میں صرف اس کی ماں کا نام بطور سنگل پیرنٹ دکھایا جائے۔

درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی پیدائش اس وقت ہوئی جب اس کی والدہ ایک نامعلوم شخص کے ذریعہ ’’پراسرار حالات‘‘ میں حاملہ ہوئیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے والد کا نام مختلف دستاویزات میں مختلف نظر آتا ہے، جب کہ ان سب میں والدہ کا نام درست تھا۔

سماعت کے موقع پر جسٹس کنہی کرشنن نے ریمارکس دیے کہ ایسے بچوں کو جس ذہنی اذیت کا سامنا ہے اس کا ہر شہری کو تصور کرنا چاہیے۔

لائیو لاء کے مطابق جج نے کہا ’’ریاست کو اس طرح کے ہر قسم کے شہریوں کو ان کی شناخت اور رازداری کو ظاہر کیے بغیر دوسرے شہریوں کے برابر تحفظ دینا چاہیے۔ بصورت دیگر انھیں ناقابل تصور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘