منی پور: چوراچند پور میں پھر کشیدگی، کانگریس کا کہنا ہے کہ ریاست ’جنگی علاقے‘ میں تبدیل ہو گئی ہے

نئی دہلی، اپریل 29: منی پور کے چوراچند پور ضلع میں جمعہ کی رات تازہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب سیکیورٹی فورسز نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ریزرو اور محفوظ جنگلات کے سروے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھیوں، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

مظاہرین کی طرف سے پتھراؤ کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے آنسو گیس کے گولوں اور ربڑ کی گولیوں کی فائرنگ کی اطلاعات نیو لامکا، ٹوئبونگ بازار، سیلمٹ پل، لانوا پل اور ٹی چمپائی جیسے علاقوں سے موصول ہوئی ہیں۔

حکام نے بتایا کہ لوگوں کے ایک گروپ نے ٹوئبونگ کے علاقے میں ایک سرکاری عمارت کو بھی آگ لگا دی۔ آگ بجھانے کے لیے کئی فائر ٹینڈر بھیجے گئے۔

حکام نے اس غیر یقینی صورت حال کے درمیان چوراچند پور اور اس کے پڑوسی ضلع فیرزول میں پانچ دنوں کے لیے انٹرنیٹ معطل کر دیا۔ انھوں نے چوراچند پور میں ہفتہ سے شام 5 بجے سے صبح 5 بجے کے درمیان رات کا کرفیو بھی نافذ کیا۔

دریں اثنا کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے ٹویٹر پر ایک سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کرتے ہوئے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’جب مودی کی پوری ٹیم کرناٹک میں متعین ہے، منی پور کا چوراچند پور ریاست میں بی جے پی کو فیصلہ کن اکثریت ملنے کے صرف ایک سال بعد تقریباً ایک جنگی علاقے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ وہاں کا ڈبل انجن اڑ رہا ہے! نہ تو مرکزی حکومت اور نہ ہی قومی میڈیا کو اس کی پرواہ ہے۔‘‘

جمعرات کی رات چوراچند پور میں سب سے پہلے تشدد اس وقت شروع ہوا جب مظاہرین نے ایک تقریب کے مقام کو آگ لگا دی جس میں وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ شرکت کرنے والے تھے۔ وزیراعلیٰ جمعہ کو ایک جم کا افتتاح کرنے والے تھے اور پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس میں جلسہ عام سے خطاب کرنے والے تھے۔

انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم نے جمعہ کو صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک ’’مکمل بند‘‘ کا اعلان کیا تاکہ سروے کو ختم کرنے کے ان کے مطالبات پر زور دیا جا سکے۔

چوراچند پور کے رہائشیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ سروے کے نتیجے میں حکام پہاڑی اضلاع میں قبائلی اراضی کو بھی محفوظ جنگل قرار دے سکتے ہیں۔

جمعہ کے روز آٹھ گھنٹے کا بند کرنے والوں کی، پنڈال کے قریب پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ انھوں نے تقریباً 100 کرسیاں اور دیگر سامان بھی تباہ کر دیا۔

سنگھ نے بعد میں کہا کہ انھوں نے مقامی ایم ایل اے ایل ایم کھوٹے کی درخواست پر اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے، جنھوں نے انھیں مدعو کیا تھا۔

انھوں نے سرکاری املاک کو تباہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا انتباہ بھی دیا۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ کوئی بھی کسی قسم کے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ اس طرح کی ترقی اور سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔

وہیں قبائلی کارکن ایچ منگ چنگ کھپ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ جب سروے کیا گیا تو ریاستی حکومت نے ان سے یا دوسروں سے مشورہ نہیں کیا۔ منگ چنگ کھپ، جو بونگمول گاؤں کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ حکام نے بھی سروے کے مقصد کا ذکر نہیں کیا۔

انھوں نے کہا ’’اس طرح کے سروے کا میں صرف ایک ہی مقصد سمجھ سکتا ہوں کہ ہمارے علاقوں کو محفوظ جنگل قرار دیا جائے اور اس کے بعد وہاں سے ہماری بے دخلی۔ ہم اسے ہلکے میں نہیں لیں گے۔‘‘

دریں اثنا کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے بی جے پی پر ریاست میں مقامی برادریوں کے حقوق کو بلڈوز کرنے کا الزام لگایا۔

انھوں نے کہا کہ ’’بی جے پی کی حکومت والے منی پور میں حالات پریشان کن ہیں۔ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت میں ریاست میں امن و امان مکمل طور پر پٹری سے اتر گیا ہے۔‘‘